صدقہ فطرکے مسائل ……!

 حضرت ابن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکاردوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلمانوں میں سے ہر غلام، آزاد، مرد، عورت اور چھوٹے بڑے پر زکوٰۃ فطر (صدقہ فطر) کے طورپر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو فرض قرار دیا ہے، نیز آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے صدقہ فطر کے بارے میں یہ بھی حکم فرمایا ہے کہ وہ لوگوں کو (عیدالفطر کی) نماز کے لئے جانے سے پہلے دیدیا جائے۔‘‘( بخاری شریف) صدقہ فطر ہر اس شخص پر واجب ہے جو اپنے لئے اور اپنے اہل و عیال کے لئے کہ جن کی طرف سے صدقہ فطر دینا اس کے ذمہ ہے ایک دن کا سامان خوراک رکھتا ہو اور وہ بقدر صدقہ فطر اس کی ضرورت سے زائد بھی ہو بعض کے نزدیک صدقہ فطر اسی شخص پر واجب ہوگا جو غنی ہو، یعنی وہ اپنی ضرورت اصلیۃ کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی کے بقدر اسباب وغیرہ کا مالک ہو، یا اس کے بقدر سونا چاندی اپنی ملکیت میں رکھتا ہو اور وہ قرض سے محفوظ ہو۔ صدقہ کا وجوب عید الفطر کی فجر طلوع ہونے کے وقت ہوتا ہے لہٰذا جو شخص طلوع فجر سے پہلے وفات پا جائے اس پر صدقہ فطر واجب ہے ۔ اسی طرح جو شخص طلوع فجر کے بعد اسلام لائے اور مال پائے یا جو بچہ طلوع فجر کے بعد پیدا ہو اس پر بھی صدقہ فطر واجب نہیں۔ جو غلام خدمت کے لئے ہو اس کی طرف سے اس کے مالک پر صدقہ فطر دینا واجب ہے ہاں جو غلام تجارت کے لئے ہو اس کی طرف سے صدقہ فطر دینا واجب نہیں ہے ۔ اولاد اگر چھوٹی ہو اور مالدار نہ ہو تو اس کی طرف سے اس کے باپ پر صدقہ فطر دینا واجب ہے ہاں اگر اولاد مالدار ہو تو پھر اس کا صدقہ فطر اس کے باپ پر واجب نہیں ہے، بلکہ اس کے مال میں سے دیا جائے گا۔ بڑی اولاد جس پر دیوانگی طاری ہو اس کا حکم بھی چھوٹی اولاد کی طرح ہے، اسی طرح بڑی اولاد کی طرف سے باپ پر اوربیوی کی طرف سے خاوند پر ان کا صدقہ فطر دینا واجب نہیں ہے ہاں اگر کوئی باپ اپنی ہوشیار اولاد کی طرف سے یا کوئی خاوند اپنی بیوی کی طرف سے ان کا صدقہ ان کی اجازت سے ازراہِ احسان و مروت ادا کردے تو جائز ہوگا۔ہمارے ملک میں چونکہ زیادہ تر جوائنٹ فیملی سسٹم ہے اس لیے جو شخص گھر کا انتظا م انصرام چلا رہا ہووہ گھر کے سارے افراد چاہے چھوٹے ہوں یا بڑے بالغ ہوں یا نابالغ سب کا فطرانہ ادا کرنے کا پابند ہوگا۔ صدقۂ فطر نماز عید سے پہلے ہی اداکردینا مستحب ہے اگر کوئی شخص اس سے بھی پہلے خواہ ایک مہینہ یا ایک مہینہ سے بھی زیادہ پہلے دے دے تو جائز ہے۔ نماز عید کے بعد یا زیادہ تاخیر سے صدقہ فطر ساقط نہیں ہوتا بہر صورت دینا ضروری ہوتا ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم کھانے میں سے ایک صاع یا جڑ میں سے ایک صاع یا کھجوروں میں سے ایک صاع یا خشک انگوروں میں سے ایک صاع صدقہ فطر نکالا کرتے تھے (بخاری و مسلم)۔ حضرت حسن بصری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ نے ماہ رمضان کے آخرمیں لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایااے اہل بصرہ! تم اپنے روزوں کی زکوٰۃ اداکرو۔ راوی کہتے ہیں لوگ ایک دوسرے کودیکھنے لگے، توآپ نے فرمایا یہاں اہل مدینہ میں سے کون ہیں؟ اٹھو اور اپنے بھائیوں کو سکھاؤ ! کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ حضرت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے غلام وآزاد مردوعوت پر رمضان کا صدقہ آدھا صاع گیہوں یا ایک صاع جویا ایک صاع کھجور مقررفرمایا ہے۔ (مسند احمد) حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ اسی حدیث کے مطابق کہتے ہیں کہ صدقہ فطر کے طور پر اگر گیہوں دیا جائے تو اس کی مقدار نصف صاع یعنی ایک کلو ۶۳۳ گرام ہونی چاہئے۔صدقہ فطر کو اس لئے واجب کیا گیا ہے تاکہ تقصیرات و کوتاہی اور گناہوں کی وجہ سے روزوں میں جو خلل واقع ہوجائے وہ اس کی وجہ سے جاتا رہے نیز مساکین و غرباء عید کے دنوں میں لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے بچ جائیں ۔اور وہ صدقہ لے کر عید کی مسرتوں اور خوشیوں میں دوسرے مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوجائیں۔ جو شخص صدقہ فطر نمازعید سے پہلے ادا کرے گا اس کا صدقہ ’’مقبول صدقہ‘‘ ہوگا اور جو شخص نمازعید کے بعد ادا کرے گا تو اس کا وہ صدقہ صدقوں میں سے ایک صدقہ ہوگا۔ خاص اور موجودہ دور کے امیر افرادمثلاً فیکٹری مالکان، بڑے کاروباری حضرات اور انتظامیہ اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں کواپنی حیثیت کا لحاظ کرتے ہوئے اپنی اسطاعت کے مطابق صدقہ فطر عجوہ کھجور کا ادا کرنا چاہئے ۔ جبکہ رواں سال عام شخص کا فطرانہ کم از کم 100 روپے ہے۔ ہمارے ہاں جب اﷲ تعالیٰ کی راہ میں جب دینے کا وقت آتا ہے تو حساب لگا کر دیتے ہیں اور جب بارگاہ الٰہی سے لینے کا وقت آتا ہے تو بہت لمبی لمبی امیدیں رکھتے ہیں جو کہ سراسر ناانصافی پر مبنی ہیں۔ ہر صورت یہ یقین رکھنا چاہیے کہ اﷲ تعالیٰ کی راہ میں کی راہ میں خرچ کرنے سے مال میں یقینی اضافہ ہوتا ہے۔ بہر کیف صدقہ فطرانہ اگرہر شخص اپنے مالی حیثیت کے مطابق اداکرے تو ہمارے ملک کے غربا ء بھی عید اچھی طرح منانے کے حامل ہوجائیں ۔اﷲ پاک ہر مسلما ن کو صدقہ فطر اپنی حیثیت کے مطابق ادا کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ،آمین۔

Rana Aijaz Hussain
About the Author: Rana Aijaz Hussain Read More Articles by Rana Aijaz Hussain: 1004 Articles with 818814 views Journalist and Columnist.. View More