اسلام ایک کامل و اکمل دین ہے۔ اسلام ایک ایسا دین ہے
جو فطرت اِنسانی کے عین مطابق ہے۔ ارشاد باری ہے سورہ مائدہ، آیت نمبر ۳
پارہ ۶ رکوع ۵ اَلْیَوْمَ اَکَمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ ……
اَلخآج میں نے تمہارے لئے دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی
اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کیا ( کنز الایمان)
دینِ اسلام اﷲ کو پیارا ہے اور مومنوں کے لئے بھی اﷲ نے پسند فرمایا ۔ دین
ِاسلام انسانی زندگی کے تمام گوشوں کی رعایت کرتا ہے۔ یہ بات بھی انسانی
فطرت کے عین مطابق ہے کہ وہ خوشی و مسرت کے مواقع کا متمنی ہوتا ہے۔ اس کی
خواہش ہوتی ہے کہ کبھی کبھی وہ اپنی تمام تر مصروفیات سے نکل کر اپنے گھر
والوں اور اعزّہ و اقرباء کے ساتھ خوشی و مسرت کے کچھ لمحات گزارے۔ اسی
خواہش کی تکمیل کیلئے اسلام نے ہمیں دو تہوار (Festival) عطا کئے۔ عِیْدُ
اْلفِطَرْ اور عِیْدُ اْلاَضْحٰیْ۔
’’ عید الفطر ‘‘ تہذیب و شائستگی کا جشن مسرت، اسلام کی اعلیٰ اقدار اور
عظیم روایات کی علامت ہے، یہ مبارک و پر مسرت (Festival) روزِ سعید عید
الفطر تقویم عیسوی کے مطابق ۲۷؍ مارچ ۶۲۴ ء بمطابق یکم شوال ۲؍ ھجری سے
منایا جا رہا ہے، جسے اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے سرورِ کائنات صلی اﷲ
علیہ وسلم نے اپنے جاں نثار صحابۂ کرام کی مقدس جماعت کے ہمراہ مدینہ منورہ
سے باہر ادا فرمایا تھا۔ حضرت ابنِ حبان رضی اﷲ عنہ کی روایت کے مطابق ہجرت
کے دوسرے سال جب شا فع روزِ محشر حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وسلم غزوہ بدر کی
تاریخ ساز فتح کے بعد واپس مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس کے آٹھ دن بعد
’عید الفطر‘ منائی گئی۔ کیونکہ رمضان المبارک کے روزے اسی سال فرض ہوئے تھے۔
۱؍ شوال ۲ ھ میں یہ عید سعید جنگ بدر کی فتح مبین کے بعد پیش آئی، کتنی
خوشگوار تھی یہ عید سعید۔ جس کی سعادت اﷲ نے مسلمانوں کے سر پر فتح و
افتخار کا تاج رکھنے کے بعد عطا فرمائی اور کتنا ایمان افروز تھا اس پہلی
نمازِ دوگانہ کا دلکش منظر جسے صحابہ کرام نے اپنے گھروں سے نکل کر تکبیر و
تمحید اور تسبیح کی صدائیں اَللّٰہ ُ اَکْبَراَللّٰہ ُاَکْبَر لَا اِلٰہَ
اِللّٰہ وَللّٰہ ُ اَکْبَراَللّٰہ ُ اَکْبَروَ لِلّٰہ ِالْحَمْد ط بلند
کرتے ہوئے عید گاہ جا کر نماز عید ادا کیا تھا۔
عید سعید خوش نصیب عبادت گزاروں کیلئے ہے۔
رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں روزہ رکھ کر اﷲ کی عبادت کرکے اب انعام کا
دن آ گیا۔ حضور سیدنا عبدلاقادر جیلانی رضی اﷲ عنہٗ نے اپنی کتاب ’’ غُنیتہ
الطالبین‘‘ میں حدیث پاک بیان فرماتے ہیں حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنھما
سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں شبِ فطر (عید کی رات) کا نام شبِ جائزہ (انعام کی
رات) ہے عید کی صبح اﷲ تعالیٰ فرشتوں کو حکم فرماتاہے کہ ہر جگہ پھیل جاؤ،
چنانچہ سب فرشتے زمین پر اُتر کر ہر گلی کوچے میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور
پکار کر کہتے ہیں: اے اُمتِ رسول ﷺ! اپنے رب کی طرف نکلو وہ کچھ تمہیں عطا
کرنا چاہتا ہے۔ وہ تمہارے گناہ کبیرہ بخش دیگا۔ چنانچہ جب لوگ اپنے گھروں
سے عید کی نماز کیلئے نکلتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ فرشتوں کو مخاطب کر کے فرماتا
ہے: بتاؤ جس مزدور نے اپنا کام پورا کیا اسکی اُجرت کیا ہے؟ وہ عرض کرتے
ہیں اے ہمارے پروردگار اس مزدور کو پوری اُجرت عطا کر۔تب اﷲ تعالیٰ فرشتوں
کو مخاطب کر کے فرماتا ہے: ان لوگوں نے جو روزے رکھے اور نمازیں پڑھیں ان
کے عوض میں میں نے ان کی مغفرت کر دی۔ فرشتے یہ سن کر بہت خوش ہوتے ہیں اور
اُمتِ محمدی کو اﷲ تعالیٰ جو عطا فرماتا ہے فرشتے ہر شخص کو اس کی خوش خبری
سناتے ہیں۔(غُنیتہ الطالبین صفحہ ۳۹۷)۔
اس حدیث پاک سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں (۱) ایک تو حدیث کے شروع میں جس بات
کا ذکر ہے کہ فرشتے ایمان والوں کو اپنے رب کی طرف نکلنے کی دعوت دیتے ہیں،
حقیقتاً اس کی عملاً نظیر اس وقت دیکھنے میں آتی ہے، جب عید کی صبح بوڑھے،
بچے، جوان اور مرد سب کے سب اپنے اپنے گھروں سے عید گاہ کی طرف تیز تیز
قدموں سے بڑھتے ہیں اور عید گاہ ، مسجدوں، نماز گاہوں میں جمع ہو کر نماز
دوگانہ ادا کرکے ساری دنیا کے سامنے اخوت اسلامی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ (۲)
دوسری اور سب سے اہم بات اس حدیث سے ثابت ہوتی ہے کہ عید کے انعام و اکرام
اور مبارک باد کے اصل مستحق وہی لوگ ہیں جنہوں نے رمضان بھر اپنے رب کو خوش
کرنے، رضا جوئی کی خاطر روزے رکھے، نمازیں پڑھیں، نیک اعمال کئے، تقویٰ کی
اس تربیت کا فائدہ اُٹھایا اور جو رمضان المبارک گزارنے کے بعد بھی روز ے
کی کیفیات کو اپنے اندر جذب کر لیا اور اپنے نفس پر اس حد تک کنٹرول کر لیا
کہ اس کی نامناسب و نا پسندیدہ خواہشوں کی پیروی نہیں کی۔ امام غزالی رحمتہ
اﷲ علیہ اسکی مثال یوں بیان فرماتے ہیں۔ کہ ایک شخص اچھی سے اچھی غذا کھائے
جو انسان کے لئے نہایت قوت بخش و لذیذ ہو مگر کھانے سے فارغ ہوتے ہی اس کو
قئے (اُلٹی) کردے تو اس غذا کا کوئی فائدہ اُسے حاصل نہ ہوگا۔ اس لئے کہ اس
نے ہضم ہونے اور خون بننے کا اُسے موقع ہی نہیں دیا۔ اسکے برعکس اگر ایک
شخص غذا کھا کر اُسے ہضم ہونے اور خون بننے کا موقع فراہم کرے تو اُس غذا
سے خون بن کر اسکے جسم میں دوڑنے لگے گا۔ تو یہ اُس غذا کا فائدہ ہے۔ بالکل
ایسا ہی معاملہ روزوں کا ہے۔ ان کا حقیقی فائدہ ہم اس طرح اُٹھا سکتے ہیں
کہ ایک مہینے تک جو اخلاقی دینی تربیت ان روزوں نے ہمیں دی ہے ، عید کے بعد
بھی ہم نکال کر اپنے اندر سے پھینک نہ دیں بلکہ اس کو گیارہ مہینے اسکے
اثرات کو اپنی زندگی میں جما کر بسا کر رکھیں کام کرنے کا موقع دیں، دین و
اخلاق پر قائم رہیں۔ یہ فائدہ اگر کسی کو حاصل ہو گیا تو وہی عید سعید کی
خوشی کا اصل مستحق ہے۔
عید اسکی نہیں جو روزے نہ رکھتا ہو۔
وہ شخص جس نے رمضان کے روزے نہ رکھے ہوں یا اگر رکھے بھی تو بس اس طرح کہ
ان تیس روزوں کا اس کی زندگی پرکوئی اثر نہ ہو بلکہ وہ جس طرح رمضان کے
پہلے لہو ولعب اور فساد جھوٹ اور دیگرلغویات میں مشغول رہا یا ہو گیا تو
ایسے لوگ نہ عید کی مبارک باد کے مستحق ہیں اور نہ ہی عید ان کے لئے ہے۔
عید الفطر کے روز خوشی کا اظہار کرنا سنت ہے:
اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ رمضان کا پہلا عشرہ رحمت
دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے آزادی کا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ مہینہ رحمت،
مغفرت اور جہنم سے آزادی کا مہینہ ہے۔ لہذا اِن بڑے بڑے انعامات کی خوشی
میں ہمیں عیدِ سعید کی خوشی منانے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔ لہذا ادائے
سنت کی نیت سے ہمیں خوشی منانا اور اسکا اظہار کرنا چاہیے۔ اﷲ کی رحمت
اُسکے فضل پر خوشی منانے کا حکم تو خود مولائے رحیم دے رہا ہے۔ چنانچہ قرآن
کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے سورہ یونس، آیت نمبر ۵۶ قُلْ بِفَضّلِ
اللّٰہ ِ وَ بِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰ لِکَ فَلْیَفْرَحُوْ ترجمہ:تم فرماؤ اﷲ ہی
کے فضل اور اسکی رحمت پر چاہیئے کہ خوشی کریں (ترجمہ کنزالایمان) عید الفطر
کا دن اہم ترین دن ہے اس دن اﷲ کی رحمت نہایت جوش میں ہوتی ہے۔ اﷲ کی
بارگاہ سے کوئی سائل مایوس نہیں لوٹایا جاتا۔ ایک طرف اﷲ کے نیک بندے اﷲ کی
بے شمار رحمتوں اور عناعتوں پر خوشیاں منا رہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف
مومنوں پر اﷲ کی اتنی کرم نوازیاں دیکھ کر انسان کا بد ترین دشمن شیطان جل
بھن جاتا ہے اور لگتا ہے مومنوں کو بہکانے اور لہو و لعب میں مبتلا کراکر
محلہ روڈ ہر جگہ بڑے بڑے ساونڈ باکس لگوا کر فحش گندے گانے بجوا کر عید کے
انعام کو برباد کرنے میں لگ جاتا ہے ۔ ہمارا نوجوان اسمیں ایسا لگتا ہے کہ
اﷲ کی پناہ۔
مسرت و شاد کا دن ہے عید سعید :
عید کی صبح بندہ مومن نے فجر کی نماز ادا کی اطاعت و بندگی اور اُسکی یاد
میں لگ گیا، دوسری قوموں کے تہواروں میں لوگ خوشی میں آپے سے باہر ہو کر
نشے میں دھت لہو لعب میں لگ جاتے ہیں۔ لیکن مسرتوں بھرے تہواروں میں نہ آپے
سے باہر ہوتا ہے نہ خدا کو بھولتا ہے، نہ انسانوں کے حقوق کو بھولتا ہے۔
خواہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، سارے انسانوں کے ساتھ انصاف اور حسن سلوک اور
سب پر رحم کرتا ہے۔ بندہ مومن کی خوشی و مسرت خدا کی بندگی و اطاعت میں ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اس پیغام کو عام کیا جائے اور پوری انسانیت میں اس
محبت، پیار، تعلق، اخوت، بھائی چارگی، یکجہتی، اتحاد و اتفاق اور مل جُل کر
رہنے کا طریقہ، غریبوں، مسکینوں، ناداروں اور کمزور لوگوں کی مددو اعانت کے
جذبہ کو اُبھارا جائے۔ عید سعید کی خوشیاں ہمیں دعوت دیتی ہیں کہ ہم
سوچییں، غور کریں کہ اسلام نے وہ کون سی بنیادیں اور اصول عطا کئے ہیں جس
سے اس کی خوشیاں آفاقی ہو گئیں اور پوری دنیا خوشی و مسرت میں ڈوبی ہوئی
نظر آتی ہے۔
عید سعید اورہماری ذمہ داریاں:
جس اﷲ کے خوف سے ہم رمضان المبارک میں برائیوں سے بچتے تھے، وہ رب
ذُوالجلال صرف رمضان کے لئے ہمارا پروردگار نہیں بلکہ وہ سال کے باقی گیارہ
مہینوں میں بھی ہمارا اﷲ ہے۔
عید کو دوسری قوموں کی طرح کا تہوار نہ سمجھا جائے بلکہ عید کے ذریعہ تو
اسلام ایسے پاک معاشرے کی تشکیل چاہتا ہے جو ہر طرح کی گندگیوں سے یکسر پاک
ہو۔ عید خوشی ہے اور یومِ شکر و یومِ انعام بھی۔ اﷲ کے حضور شکر کے اظہار
کے ساتھ تربیت، تزکیہ نفس کیلئے واضح پیغام ہے عید الفطر، یومِ تزکیہ بھی
ہے اﷲ سے دُعا ہے کہ عید سعید کی خوشیاں تمام عالمِ اسلام کو عطا ہوں،
مبارک ہوں اور اس انعام کی اہمیت کو سمجھنے کے ساتھ دین اسلام پر عمل کی
توفیق رفیق عطا فرمائے۔ آمین! |