پی ٹی آئی کے لئے ایک چشم کشا تحریر

 راقم الحروف مختلف مقامی، قومی اور بین الاقوامی اخبارات کے لئے بے شمار کالم لکھ چکا ہے، دوسرے ہم وطن بھائیوں کے تحریر شدہ کالمز بھی زیرِ مطالعہ رہے ہیں۔مگر گزشتہ روز اپنے ہم قبیلہ دوست عارف خٹک کا کالم نظر سے گزرا تو لا محالہ اسے قارئین اور پاکستان تحریکِ انصاف کی خیبر پختونخوا میں قائم حکومت کے سامنے پیش کرنے کو دل چاہا۔عارف خٹک کا تعلق ضلع کرک کے معروف گاوں بہادر خیل سے ہے ، وہ حال ہی میں بلجیم میں انٹر نیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ سے ورلڈ ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔وہ لکھتے ہیں،،

ضلع کرک پختونخوا کا جنوبی ضلع جو پشاور سے جنوبا 125کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے جہاں کی آبادی سو فی صد پشتون اور خٹک قبیلے کے لوگوں پر مشتمل ہے۔یہاں کا چھیانوے فی صد رقبہ بارانی ہے اس لئے زراعت کا مکمل انحصار بارشوں پر ہے،کاروباری مواقع نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کے نناوے فی صد انحصار سرکاری یا پرائیویٹ ملازمت پر ہی ہوتا ہے۔یہ ضلع قدرتی وسائل سے مالامال ہے۔ یہاں چار آئل فیلڈ ہیں،جہاں سے روزانہ لاکھوں بیرل تیل نکلتا ہے اور قدرتی گیس کی سپلائی ماسوائے کرک کے خیبر پختونخوا اور پنجاب کے اضلاع کو چوبیس گھنٹے جاری رہتی ہے۔یورینیم کے وسیع ذخائر بھی اسی ضلع میں دریافت ہو ئے ہیں۔اس ضلع میں نمک کے ذخائر اگلے پانچ سو سالوں تک ملکی ضروریات کے لئے کافی ہیں۔ان سب ذخائر اور وسائل کے باوجود اس ضلع کے باسی پانی، بجلی، گیس، صحت اور معیاری تعلیم کے لئے ترس رہے ہیں۔

ضلع کرک کے لوگ تجربات اور امید و بیم کے درمیان لٹکے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔پاکستان کے کسی ضلع کو اس ضلع سے کو ئی شکوہ اس لئے نہیں ہونا چاہئیے کہ ان لوگوں نے سب کو بھر پور مواقع دئیے ہیں۔ جمیعت العلماء،اے این پی،پی پی پی، مسلم لیگی تمام دھڑے اور آج پاکستان تحریکِ انصاف حکومت کرنے کے مزے لوٹ رہی ہے۔وقت بدلا، ہر چیز بدل گئی ، مگر نہیں بدلی تو اس بد قسمت خٹک قبیلے کی قسمت نہیں بدلی۔میں کافی عرصہ سے یہ سوچتا رہا کہ قابلِ فخر تعلیمی استعداد رکھنے والے اہلِ قلم و سیف پھر بھی اتنے پسماندہ اور مظلوم کیوں ہیں؟تو اپنے تئیں ایک سروے کی ٹھان لی اور دس دن کے سروے کے بعد یہ جان کر ششدر رہ گیا کہ تعلیم پوری کرنے اور علم حاصل کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہو تا ہے۔کرک میں زراعت اور دوسرے کاروباری مواقع کے نہ ہو نے کی وجہ سے تعلیم لوگوں کی ضرورت اور مجبوری بن چکی ہے۔اگر وہ تعلیم حاصل نہیں کریں گے تو دو وقت کی روٹی حاصل کرنا ان کے لئے نا ممکن ہو جاتی ہے۔پس لوگ صرف نوکریاں حاصل کرنے کے لئے ڈگریاں لیتے ہیں اور جہاں علم روزگار کا مر ہونِ منّت ہو جائے وہاں کا پھر اﷲ ہی حا فظ ہو تا ہے۔

اس وقت ایم این اے، ایم پی اے اور ضلع ناظم کا تعلق پاکستان تحریکِ انصاف سے ہے،ایک آزاد امیدار بھی تحریکِ انصاف کے پے رول پر ہے، سو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت ضلع کرک بِلا شرکتِ غیرے تحریکِ انصاف کا حکومتی گڑھ ہے۔اور ساتھ ہی یہ کرپشن کا بھی میگا سکینڈلز کا گڑھ ہے۔رائلٹی کی مد میں اس ضلع کو سینکڑوں ارپ روپے اس ضلع کو مل رہے ہیں مگر پھر بھی یہاں کا انفرا سٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہے۔سڑکیں بہت بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ۔بجلی، گیس اور پانی نایاب، بعض سڑکوں کا افتتاح جو تین سال پہلے کیا گیا تھا،وہ آج بھی اودھڑی ہو ئی شکل میں اپنی حالت پر نو حہ خواں ہیں۔ جیسے سورڈاگ تا کرک یا ڈیلی میلہ تا ڈ ھنڈ عید الخیل وغیرہ۔

سرکاری ہسپتالوں کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ہسپتال کے ڈاکٹر عموما پرائیویٹ کلینیک پر آنے کا مخلصانہ مشورہ دیتے ہیں، جہاں بڑے شریفانہ طریقہ سے جیب پر ڈاکہ ڈالنے کی مشق کی جاتی ہے ، لہذا مجبور ہو کر لوگ جھاڑ پھونک، دم دارو اور تعویز گنڈے کروانے کا سہارا لیتے ہیں۔بانڈہ داود شاہ جو کرک کی انتہائی گنجان آباد اورپسماندہ تحصیل ہے، وہاں کے مرکزی ہسپتال میں کسی ڈاکٹر کا نام و نشاں تک موجود نہیں۔یونیورسٹی کی خواہش اس ضلع کی عوام کی عشروں سے تھی،با الآخر اے این پی کی حکومت نے یو نیورسٹی کی منظوری تو دے دی مگر چار سال گزرنے کے باوجود اس کی بلڈنگ بن سکی نہ اس کے لئے زمین خریدی جا سکی۔ خاص کرک شہر میں چوبیس گھنٹے میں کم از کم اٹھارہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہو تی ہے۔جبکہ گاوں اور دیہات میں رہنے والے بجلی کے تاروں سے گیلے کپڑوں کے سکھانے کا کام لے رہے ہیں۔

اگر ہم اس ضلع میں میگا کرپشن سکینڈلز کا ذکر کریں تو اس میں صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت بھی شانہ بشانہ کھڑی نظر آتی ہے-

آئل ریفائنریز سے بڑی مقدار میں کروڈ آئل چوری کیا جا رہا ہے،جس کے بارے میں مقامی اخبارات میں سہ سرخی خبریں کبھی کبھار منظرِ عام پر آجاتی ہیں،یہ سکینڈل آج سے چھ ماہ پہلے بیس ارب کا تھا مگر آج سو ارب کے ہنسے کو پار کر چکا ہے۔اس مکگا کرپشن کی تحقیقات کے لئے سینیٹ کی کمیٹی بھی بن چکی ہے مگر ایک تفتیشی وزٹ کے بعدٹیم گدھے کے سر سے سینگ کی طرح منظرِ عام سے غائب ہو گئی۔ اور تاحال ان کے ر پورٹ کا کچھ پتہ نہیں چلا،چوری میں ملوّث ٹینکرز کئی بار پکڑے بھی گئے جس کی خبریں مقامی اخبارات میں شائع ہو ئیں مگر کوئی نادیدہ ہاتھ سب کچھ غائب کروا دیتا ہے۔مصدقہ اطلاعات کے مطابق کو ئی بھی آئل فیلڈ بتیس سے زیادہ والز نہیں لگا سکتی مگر ما شا ﷲ مول کمپنی نے چونسٹھ والز لگا رکھے ہیں،جہاں بتیس والز کا ریکارڈ ہی نہیں رکھا جاتا۔اس میگا کرپشن کے ڈانڈے’دروغ بر گردنِ راوی‘ چوکیدار، مقامی پولیس،سیاسی راہنما، سرکاری انتظامیہ،ایم پی ایز ، وزیر اعلیٰ اور وزیراعظم ہاوس سے جا ملتے ہیں۔اگر اس بات پر ہلکا سا بھی یقین کر لیا جائے تو وزیراعظم سے بنی گالہ کا فاصلہ بھی کوئی زیادہ تو نہیں،پھر عمران خان کا نعرہ تھا، کرپشن کا مکمل خاتمہ ‘‘مگر یہاں تو پوری کی پوری دال ہی کالی ہے۔انگلیوں سمیت پورا سر بھی کڑاہی میں لِتھڑا ہوا ہے۔تحریکِ انصاف کو اس کی ذمّہ داری لینی ہو گی۔کیونکہ صوبائی حکومت ان کی ہے۔چلو اگر آئل چوری کرنے کا بوجھ وفاق کے کندحوں پر بھی ڈال دیا جائے تو اربوں کی رائلٹی جو ضلع کرک کو مِلتی ہے، اس کی سو فی صد ذمّہ داری تحریکِ انصاف پر عائد ہو تی ہے۔پانی کی فراہمی کے آڑ میں ٹیوب ویلز اور ہینڈ پمپس کی صورت میں ایم پی ایز اور ضلعی ناظم جو جو گل کھلا رہے ہیں ،وہ الگ کہانیاں ہیں۔آپ سوچ رہے ہو نگے کہ یہاں کا ایم این اے کہاں ہے ؟۔۔تو جناب الیکشن جیتنے کے بعد وہ کبھی لوٹ کر نہیں آئے۔بس اتنی معلومات ہیں کہ آئل فیلڈز سے اپنا حصہ بھر پور طریقہ سے لے رہا ہے۔۔۔

اس کالم کا مقصد کسی کی دل آزاری ہر گز نہیں ہے، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ کرک کے باسیوں کے دل میں لگی ہو ئی آگ کی حِدّت بنی گا لا تک بھی پہنچ سکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 315458 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More