پاکستان کی سیاست میں نظریات ، سیاسی اور معاشی پروگرام
کی جگہ اصول ، یقین محکم اور ایمان کو زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ موجودہ
سیاسی صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ ہر سیاسی جماعت
دوسری جماعت سے متفق ہے ۔ ایک جیسی تقریریں ۔ ایک جیسے بیانات ، تنقید
برائے تنقید ۔ قائدین ایک دوسرے کی ذاتیات کو ہدف بنانے کو ترجیح دیتے ہوئے
نظر آتے ہیں۔ کوئی ایک بھی ایسی جماعت اور لیڈر نہیں ہے ۔ جو اختلاف رائے
رکھتے ہوئے ملک ، سماج کی تعمیر اور عوام کو روزگار دینے ، بجلی ، گیس ،
پانی کی سہولیا ت کی فراہمی سمیت بنیادی انسانی ضروریات دینے کا نعرہ
مستانہ لگانے کی جرات رندانہ کر رہا ہو۔ کوئی ایک بھی نہیں ہے۔حکمران جماعت
کی تو بات ہی اور ہے۔ جماعت کے سربراہ اور وزیراعظم میاں نواز شریف ایک
اعلیٰ پائے کے مدبر ، خوصلہ مند ، صابر و شاکر اور عظیم پاکستانی رہنما بن
کر ابھرے ہیں۔ جنہوں نے ماڈل ٹاون سانحہ ، پانامہ کیس اور اب جے آئی ٹی
جیسے تمام ابتلا کو خندہ پیشانی سے فیس کیا ہے۔ اب جناب روحانی فیض کے حصول
کیلئے عمرہ کی ادائیگی کر رہے ہیں ۔ عید کے بابرکت ایام بھی جناب خانہ خدا
میں بسر کریں گے۔ ڈھیر فیوض و برکات کے ساتھ وطن واپس ہونگے۔رہی پیپلزپارٹی
تو آج جیالوں کے سر فخر سے بلند ہیں کہ انہیں ایک نیٹ کلین اور نوجوان
قیادت میسر ہے۔ اس ضمن میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری میں بھٹو
تلاش کرنے کی سعی لاحاصل بڑی شدو مد سے جاری ہے۔ جیالے مدمخالف کی عمر ز نی
کرتے ہیں ۔ 30 سے 66کا کیا مقابلہ ہے۔ بھٹو ز کی سالگرہ اور برسی کے اہتمام
کرنے کو اہم سیاسی کام سرانجام دیا جاتاہے۔ دوسری جانب تحریک انصاف کا طوطی
بول رہا ہے۔ تحریک انصاف ہی واحد جماعت ہے جو دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی
کر رہی ہے۔ پیپلزپارٹی سے نکل کر لوگ تحریک انصاف میں جوق در جوق شامل ہو
رہے ہیں ۔
اب تو بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بقول سینئر صحافی اسلم ڈوگر پی ٹی آئی
میں شامل جیالے اپنی نئی پارٹی کا نام پیپلز تحریک انصاف لکھ رہے ہیں۔آج
اگر سیاست تبدیل ہوئی ہے۔ اس کا سارا کریڈٹ عمران خان کو جاتا ہے ۔ جس نے
میاں نوازشریف کی اصولی سیاست سے چار قدم آگے بڑھ کر تبدیلی سیاست کو فروغ
دیا اور تمام سیاسی لوگ آج تبدیلی کی سیاست ہی کھیل رہے ہیں ۔ لیڈر کا
کرشمہ یہی ہوتا ہے۔ سو عمران خان ایک کرشماتی رہنما ہے۔ جلسہ ہو دھرنا ہو۔
کرشمہ ہی کرشمہ ہوتا ہے۔ پاکستان کے عوام محض تبدیلی کے ساتھ نہیں ہیں۔ جب
تک اقتدار ہے۔ اصولی سیاست بھی مقبول ہے۔ ووٹ تو ہم شیر کو ہی دیں گے۔ تیر
کی کمان کا مسلہ ہے۔ ابھی تک یہ طے ہونا باقی ہے ۔ کمان آصف علی زرداری کو
دی جائے یا بلاول کے نازک ہاتھوں میں تھما دی جائے۔پارٹی کی اکثریت بلاول
کے حق میں مگر آصف علی زرداری کی پدریت ڈرتی ہے کہ ننھے ہاتھوں کو کچھ ہو
گیا تو ؟ ابھی بچے کے کھیل کود کے دن ہیں ۔ کبھی وہ خود نکل پڑتے ہیں ۔ مگر
پشاور سے واپس آجاتے ہیں۔میاں نواز شریف ، عمران خان اور بلاول(آصف علی
زرداری) بظاہر یہ تین بڑے نام ہیں ۔ جن کا سیاسی کردار موجود ہے۔ تینوں کے
پاس عوام کو دینے کو کچھ نہیں ہے۔ دلچسپ امر ہے کہ تینوں دوٹوک انداز میں
کوئی ایجنڈا نہیں دے رہے ہیں۔ کوئی نعرہ نہیں ہے۔ مبہم سے نعرے ہیں ۔ ایک
نیا پاکستان ، دوسرا روشن اور خوشحال پاکستان اور تیسرا مضبوط پاکستان کے
نام پر عوام کو بیوقوف بنا رہا ہے۔آخری خبر یہ کہ پیپلزپارٹی کے خود ساختہ
ناراض ممبر آف سینٹ بابر اعوان بھی تحریک انصاف میں جا چکے ہیں ۔ عوامی
مسلم لیگ اور شیخ رشید جو عرصہ سے کنارے پر کھڑے تھے ۔ تحریک انصاف میں ضم
ہونے والے ہیں ۔ بقول شاعر
بڑے شوق سے گرتے ہیں سمندر میں دریا
|