عید کیسے ملیں؟

 صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب ممنون حسین سے عید ملنے کے شیڈول کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں آنے والی خبر میں بتایا گیا ہے کہ صدر عید والے دن دس بجے سے گیارہ بجے تک عید ملنے کے لئے دستیاب ہونگے، اس دوران وفاقی وزراء، ارکانِ پارلیمنٹ اور سفارتکار وغیرہ اُن سے عید مل سکتے ہیں۔اس مختصر خبر سے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ مندرجہ بالا وی آئی پیز کے علاوہ اگر کوئی اور بھی صدر سے عید ملنا چاہے تو اس کے لئے کیا حکم ہے؟ کیونکہ اپنے معاشرے میں ایسے بے شمار لوگ موجود ہیں، جو اہم ترین شخصیات کے ساتھ تصاویر بنوانے کے بہت شوقین ہوتے ہیں، یہ شوق صرف تصویر بنوانے تک ہی محدود نہیں رہتا، بلکہ تصویر کو نہایت ہنر مندی کے ساتھ استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ کلچر بہت مقامی سطح سے شروع ہوتا ہے، مگر یہاں چونکہ ذکر صرف پاکستان کے اہم ترین عہدیدار ، یعنی پاکستان کے آئینی سربراہ کا ہے،اس لئے یہاں تک پہنچنے میں کچھ خاص لوگ ہی کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اگر وہ تصویر بنوانے اور اسے استعمال کرنے کے ہنر سے آشنا ہوتے ہیں تو ایوانِ صدر تک پہنچنا بھی ان کے لئے زیادہ مسئلہ نہیں ہوتا۔

یقینا اپنے ہاں وزراء، معزز ارکانِ پارلیمنٹ اور سفارتکاروں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں، مگر ان تمام لوگوں کے لئے صرف ایک گھنٹہ بظاہر بہت کم محسوس ہوتا ہے۔ تاہم یہ ہمارا مسئلہ نہیں، ایوانِ صدر نے اگر شیڈول جاری کیا ہے تو اس میں تمام امکانات کو مدنظر ضرور رکھا ہو گا۔ جن معززین نے صدر صاحب کو عید ملنا ہوگی، وہ ظاہر ہے اہتمام کے ساتھ بروقت پہنچ جائیں گے،ضروری چیکنگ کے بعد کسی ایک مقام پر جمع کردیئے جائیں گے، پھر مقررہ وقت پر صدر برآمد ہونگے، تمام حاضرین سے معانقہ ہوگا، مہمانوں کی تواضح کی جائے گی، کچھ دیر بات چیت ہوگی اور ایک گھنٹہ اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا۔ مصروف لوگوں کے پاس وقت کم ہی ہوتا ہے، مہمانوں کو بھی میزبان کی وقت کی تنگی کا احساس ہوگا۔ یہاں ’’عام آدمی‘‘ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، کہ آخر اس کا بھی دل چاہتا ہے کہ وہ بھی سربراہِ مملکت کو’’ عید مبارک ‘‘ کہے، انہیں جا کر عید ملے۔ اس کا نسخہ بھی زیادہ مشکل نہیں، امید ہے صدر فیصل مسجد میں ہی عید نماز ادا کریں گے، ہر بڑے کی طرح وہ نمازِ عید کے فوراً بعد ’عام لوگوں‘ میں گھل مل جائیں گے۔ بس اسی ’گھلنے ملنے‘ کے مراحل میں ان سے عید ملی جاسکتی ہے، بس ایک ساتھی ایسا ہو جو فوراً موبائل پر تصویر بنانے کا فریضہ سرانجام دے، وقت کم ہوگا اور مقابلہ سخت ہوگا، پوز وغیرہ کا بھی خیال رکھنا پڑے گا، کیونکہ یہ تصویر فوری بنانا ہوگی۔ تھوڑی سی محنت اور ایڈیشن سے تصویر فیس بک کے لئے تیار ہے۔ اگر یہ تصویرپرفیکٹ بن جائے تو اسے فریم کروا کے ڈرائینگ روم کی زینت بھی بنایا جاسکتا ہے۔

اس سال وزیراعظم پاکستان جناب نواز شریف کو عید ملنے کے خواہشمند حضرات بھی مایوسی کا شکار ہونگے، کیونکہ اس برس وہ عید لندن میں منائیں گے۔ یقینا وہاں مقیم پاکستانیوں میں بھی وہ ’’گھل مل‘‘ جائیں گے، لیکن یہاں لوگ محروم رہیں گے۔ ویسے میاں صاحب نے عید کے موقع پر لوگوں میں گھلنا ملنا ذرا کم ہی کر رکھا تھا، کیونکہ اب وہ جاتی امراء میں عید مناتے تھے اور وہاں چند اور مخصوص لوگ ہی پہنچ پاتے تھے۔ اس سال بات جاتی امراء سے بھی جاتی رہی۔ عوام میں ایک طبقہ ایسے لوگوں کا بھی ہے، جو ہر قیمت پر ’بڑے لوگوں‘ کو عید ملا کرتا ہے، انہیں اپنے بچوں اور اہلِ خانہ کی اتنی فکر نہیں ہوتی، جتنی اپنے لیڈروں سے عید ملنے کی ہوتی ہے، یہ کارِ خیر ہر سطح کے لوگ سرانجام دیتے ہیں۔ مقامی سے لے کر مرکزی قائدین تک کو عید ملنے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ اب عید ملنے والوں کی قسمت کہ ان کو ان کی پسند کا لیڈر عید پر دستیاب بھی ہے یا نہیں۔ تاہم اِنہیں مایوس نہیں ہونا چاہیے، کہ لیڈرجہاں بھی عید منائیں، انہیں دیکھ دیکھ کر خوش ہوا جاسکتا ہے، اور اگر مرکزی قیادت دستیاب نہ ہو تو صفِ دوم کی قیادت سے کام چلایا جاسکتا ہے۔ اور اگر صدر یا وزیراعظم عید ملنے کے لئے دستیاب نہیں تو بھی دل چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں، وہ پوری قوم کو عید مبارک کا جو پیغام دیتے ہیں، اسی کو کافی تصور کیا جاسکتا ہے، اسی پر گزارہ کیا جاسکتا ہے، آخر انسان کو کوئی مجبوری بھی تو بن سکتی ہے۔
 
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 426706 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.