قطر کا بحران سمٹنے کے بجائے پاکستان اور
ترکی تکپھیلرہا ہے ۔ سعودی عرب نے پاکستان سے پوچھا ہے کہ آپ ہمارے ساتھ
ہیں یا قطر کے ساتھ ؟ یہ وہی لب و لہجہ ہے جو جارج ڈبلیو بش نے ۱۱ ستمبر کے
بعد اختیار کیا تھا۔ ہمارے ساتھ یا ان کے ساتھ ؟ ہم اور وہ کی اس تقسیم نے
دنیا بھر میں جو تباہی مچائی اس کو مؤرخ نظر انداز نہیں کرسکتا۔ سعودی
حکومت کو لاجواب کرنے کےلیےچند معروضی سوالاتکئے جاسکتے ہیں ۔ پاکستان کو
جواب دینے سے قبل پوچھنا چاہیے کہ آپ کس کے ساتھ ہیں؟ حماس کے ساتھ یا
اسرائیل کے ساتھ؟ دہشت گرد صہیونی یا فلسطینی؟ ظلم و جبر کا علمبردار
السیسی ہے یا اخوانی ہیں؟ ان سوالات کے بعد کسی سوال جواب کی ضرورت ہی باقی
نہیں رہتی۔ قطر کےاخوان اور حماس سے بہت پرانےتعلقات ہیں ۔ یہ مراسم اس
زمانے سے قائم ہیں جب سعودی عرب اور امارات کے حکمراں بھی اخوان کو اپنے
اقتدار کا دشمن نہیں سمجھتے تھے اور حماس کو فلسطین کی آزادی کا علمبردار
کہتے تھے ۔ اس زمانے میں صدر ناصر اور اسرائیل سے ان کی دشمنی تھی لیکن اب
زمانہ بدل گیا ہے اس لیے کہ پرانے دشمن دوست بن گئے ہیں اور رفاقت کو رقابت
میں بدل دیا گیا ہے ۔بقول شیخ ظہورالدین حاتم ؎
دوستوں سے دشمنی اور دشمنوں سے دوستی
بے مروت بے وفا بے رحم یہ کیا ڈھنگ ہے
سفارت اور رفاقت کے درمیان بہت لطیف فرق ہے؟ مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال
اس حقیقت کی غماز ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اسرائیل سے ترکی اور قطر کے سفارتی
تعلقات ہیں۔ اس کے باوجود وہ حماس کی حمایت میں مانع نہیں ہے اس لیے کہ یہ
سفارت ہےرفاقت نہیں ۔ اس کے برعکس جب تعلقات قلبی رفاقت میں بدل جاتے ہیں
تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ دوست کا دشمن اپنا دشمن بن جاتا ہے ۔ اپنے رفیقِ
کارصہیونیوں کے خلاف اپنی آزادی کے لیے برسرِ پیکار اسلام پسند تحریک
حماسدہشت گرد قرار پا تی ہے اور اس کی حمایت کرنے والے قطر پر بھی وہی
الزام جڑ دیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں سعودی سفیر سعود بن الصالح الساعطی
فرماتے ہیں کہ ہم اپنے ہم سایہ قطر کی اصلاح کررہے ہیں جبکہ وہ خود گمراہی
کا شکار ہیںارشادِ ربانی ہے:’’مومنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا
رفیق اور دوست ہرگز نہ بنائیں جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں
ہاں یہ معاف ہے کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لیے بظاہر ایسا طرز عمل اختیار
کر جاؤ مگر اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور تمہیں اسی کی طرف پلٹ کر
جانا ہے‘‘۔
صہیونیوں سے تعلقات ظلم سے بچنے کے لیے نہیں بلکہ اپنا اقتدار بچانے کے لیے
اور ظالم کی حمایت کے لیے قائم کئے گئے ہیں۔ ان کا بھانڈا پھوٹنے پر یہ
بونڈر کھڑا کیا گیا ہے۔ موجودہ دور میں کسی اہم خبر کو چھپانے کی خاطر غیر
اہم خبروں کو اچھالا جاتا ہے اور حقائق کی پردہ پوشی کی غرض سے جھوٹ کو
پھیلایاجاتا ہے لیکن فرمانِ خداوندی ہے : ’’اے نبیؐ! لوگوں کو خبردار کر دو
کہ تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے، اُسے خواہ تم چھپاؤ یا ظاہر کرو، اللہ
بہرحال اسے جانتا ہے، زمین و آسمان کی کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں ہے
اور اُس کا اقتدار ہر چیز پر حاوی ہے‘‘ ۔ موجودہ بحران کے دوران قطر کو
بدنام کرنے کی کوششوں کاالٹا اثر پڑاہے۔ ایسے لوگ جو قطر نامی ننھے سے ملک
کے نام تک سے واقف نہیں تھے اس کی نیک نامی اور حق پسندی کے قائل ہوگئے
ہیں۔ایران کے علاوہ ترکی ، مراقش اور اومان کے تعاون نے اس معاملے کو شیعہ
سنی تنازع بننے سے بچا لیا اور دیکھتے دیکھتے پابندی کے اثرات زائل ہونے
لگے اسی کے ساتھ قرآن حکیم کا وہ فرمان منظر عام پر آگیا:’’کہو! خدایا!
مُلک کے مالک! تو جسے چاہے، حکومت دے اور جسے چاہے، چھین لے جسے چاہے، عزت
بخشے اور جس کو چاہے، ذلیل کر دے بھلائی تیرے اختیار میں ہے بیشک تو ہر چیز
پر قادر ہے‘‘۔ بشیر بدر کے مطابق؎
مخالفت سے مری شخصیت سنورتی ہے
میں دشمنوں کا بڑا احترام کرتا ہوں
اٹھتے بیٹھتے اخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دینے والے یہ بھول گئے ہیں
کہ چند سال قبل مصر کے اولین منتخبہ صدر ڈاکٹر محمد مورسی کا سعودی عرب میں
یادگار استقبال کیا گیا تھا۔ اس دورے کے بعد اخوان کی حکمت عملی اور طریقۂ
کار میں کو کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی اور اس کا مقصد ونصب العین تو کبھی
نہیں بدلا۔ سعودی عرب کی حامی النور پارٹی نے مصری انتخاب کے بعد اخوان کی
حمایت کی تھی اور ان کی حکومت میں شامل تھی ۔ النور نے ابتداء میں
عبدالفتاح السیسی کی مخالفت بھی کی تھی لیکن پھر اچانک اس کی بساط لپیٹ دی
گئی اور اب تو نام ونشان مٹ گیا۔ جہاں تک قطر کے ایران سے تعلقات کی بات ہے
اومان کے بھی ایران سے بہت اچھے تعلقات ہیں اور کویت بھی ایران کے ساتھ
تعلق استوار کرچکا ہےلیکن ان دونوں کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ اس کا
مطلب صاف ہے کہ بات وہ نہیں ہے جو کہی جارہی ہے۔قطر کا مقاطعہ ختم کرنے کے
لیے کئے جانے والے مطالبات کی فہرست میں اخوانیوں سے دستبردار ہونے کے
علاوہ العربیہ چینل کو بند کرنے اورترکی کے فوجی اڈے کو بند کرنا شامل ہے۔
مصر میں تختہ الٹنے کے تجربے سے امارات وسعودی کے حوصلے اس قدر بلند ہوگئے
کہ ترکی میں بھی اسے دوہرانے کی کوشش کی گئی لیکناس مرتبہ ناکامی ہاتھ آئی
۔ اسلام پسندوں کے خلاف کی جانے والی ان خفیہ ریشہ دوانیاں کا پردہ جب فاش
ہو نے لگا تو یہ لوگ بے چین ہوگئے ۔ انہیں خوف لاحق ہوگیاکہ اگراسلام کے
دشمنوں کے ساتھ ان کے تعلقات طشت ازبام ہوگئے تو خود اپنے عوام کاا
عتماداٹھ جائیگا اور اقتدار کو خطرہ لاحق ہوجائیگا۔ قطر کے الجزیرہ چینل نے
چونکہ یہ راز فاش کردیا اس لیے قطر کی حکومت پرنزلہ گرا۔ قطر بحران کی
بنیادی وجہ الجزیرہ کیحق گوئی و بیباکی ہے۔ الجزیرہ نے اس پابندی سے دو روز
قبل متحدہ عرب امارات کے امریکہ میں سفیر یوسف القتیبہ اور اسرائیل نواز
تھنک ٹینک فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز ( ایف ڈی ڈی) کے درمیان ہونے
والی خط و کتابت کو نشر کرکےان کی نیند اڑادی اور السیسی کو دشمنی نکالنے
کا نادر موقع مل گیا۔
امریکی تاجر شیلڈن ایڈلسن ایف ڈی ڈی کی سرپرستی کرتا ہے۔ وہ اسرائیل کے
اخبار اسرائیل الیوم اور امریکہ کےروزنامہ لاس ویگاس جرنل کا مالک ہے۔ اس
کا شمار ری پبلکن پارٹی کےبڑے سرمایہ کاروں میں ہوتا ہے۔ اسرائیلی وزیر
اعظم بن یامین نیتن یاہوکی اور شیلڈن کی دوستی جگ ظاہر ہے۔ امریکی
صدرڈونالڈ ٹرمپ کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ ان کواپنا صدارتیمشیر بنانے کے
لیے پورے امریکہ میں داماد جیرڈ کوشنرسے بہتر کوئی شخص میسر نہیں آیا۔
اماراتی سفیر یوسف القتیبہ کےکوشز کے ساتھ اچھے مراسمہیں۔ عرب دنیاکے تمام
ذرائع ابلاغ نے گوں ناگوں وجوہات کی بناء پر ان ای میلس کی تفصیلات پر پردہ
ڈال دیا اگر الجزیرہ بھی یہی کرتا تو قطر کے مقاطعہ کی نوبت نہیں آتی لیکن
اس نے صحافتی دیانتداری کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئےدودھ کا دودھ اور پانی
کا پانی کردیا جس کے سبب ہنگامہ برپا ہوگیا۔
یاہو سے محبت اسے ڈونلڈ سے الفت
افسوس کہ قرض اویواخوان سے نفرت
نامعلوم ہیکرس کے ذریعہ لیک ہونے والے ای میلس میں اماراتی حکمرانوں کے
امریکی اسرائیلی تھنک ٹینک کے توسط سے اسرائیل کے ساتھ بیک چینل رابطوں کا
انکشاف ہواہے۔ ہیک شدہ ای میلز میں وہ ایجنڈا بھی منظر عام پر آگیا جس پر
۱۱ تا ۱۴ جون کے درمیان تھنک ٹینک کے ارکان کی ملاقات کے دوران گفتگو ہونی
تھی۔یہ ملاقات تھنک ٹینک کے سربراہ مارک ڈوبووزاور مشرق وسطیٰ پر جارج
ڈبلیو بش کےسابق مشیر جان ہنا کے ساتھ ہونی تھی ۔ یہ لوگ امارات کے ولی عہد
شیخ محمد بن زائد سے ملاقات کے خواہشمند تھے ۔ ایجنڈے میں قطر، الجزیرہ ٹی
وی اور ایران بھی شامل تھے۔ایک اور میل میں ان کمپنیوں کی فہرست منسلک تھی
جو امارات کے علاوہ ایران میں کام کر رہی ہیں۔اس کا مقصد ان کمپنیوں پر
ایران یا امارات میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا تھا ۔
جان ہینا کے ایک ای میل سے پتہ چلتا ہے ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے پیچھے
عرب امارات اور اسرائیلی امریکی تھنک ٹینک کا ہاتھ تھا۔ جان ہینا نے ترکی
میں ناکام بغاوت سے ایک ماہ پہلے فارن پالیسی میگزین میں ترکی کے اندر فوجی
بغاوت کی پیشگوئیکی تھی۔ سال رواں اپریل میں جان ہینا نے یوسف القتیبہ کو
ای میل میں شکایت کی کہ قطر حماس کے رہنماؤں کا اجلاس امارات کے ملکیتی
ہوٹل میں کروا رہا ہے۔ اس کے جواب میں لکھا گیاکہ اصل مسئلہ امریکہ کا قطر
میں واقع اڈہ ہے،اگر اڈہ منتقل ہو تو اجلاس ختم کردیا جائیگا۔ان دھماکہ خیز
خبروں کی جانب سے توجہ ہٹانے کی خاطر قطر کی سرکاری خبر ایجنسی کی ویب سائٹ
کو مبینہ طور پر ہیک کرکےایک جعلی خبر پھیلائی گئی جس کوقطر کے امیر قطر سے
منسوب کیا گیا ۔ اس میں کہا گیا تھاکہ دوحہ اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات
کشیدہ ہیں، ایران ایک اسلامی قوت ہے۔ ایران کے ساتھ دشمنی عقلمندی نہیں ہے۔
ٹرمپ کو داخلی سطح پر قانونی مشکلات کا سامنا ہے۔ان خبروں کی قطر نے بہت
واضحتردید کی لیکن اس کو نظر انداز کردیا گیا ۔ اس لیے کہ؎
الفتتوتری بندۂ شیطاں کے لئے ہے
قہاری و جباری مسلماں کے لئے ہے
سعودی عرب کی غیر معمولی دلچسپی کی اور بھی وجوہات ہیں ۔ ان ای میلز میں
محمد بن سلمان کی بادشاہت کے عزائم بھی ظاہر ہوگئے جس کو اس وقت صیغۂ راز
میں رکھا جارہا تھا لیکن اب وہ ظاہر ہوگئے۔ پابندی کے ۱۶ دن بعد شاہی فرمان
کے ذریعہ ولیعہد محمد بن نائف کو شاہ سلمان نے ان کے عہدے اور وزارت داخلہ
کے قلمدان سے سبکدوش کردیا ۔ اس سے قبل وہ اپنے بھائی مقرن بن عبدالعزیز کے
ساتھ یہی معاملہ کرچکے ہیں اور اب انہوں اپنے فرزندمحمد بن سلمان کونائب
ویزاعظم بنا کر ولیعہد نامزد کردیا ۔ یہ تبدیلیاں ان ای میلز کی تصدیق کرتی
ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کے صحافی ڈیوڈ اگنیشیس نے حالیہ مضمون میں محمد بن سلمان
کی بادشاہت کی پیشگوئی کی تھی۔ اس کے بعد یوسف القتیبہ نے ای میل میں لکھا
تھا کہ لگتا ہے آپ نے بھی اب وہی کچھ دیکھنا شروع کر دیا ہے جو ہم دو سال
سے دیکھ رہے ہیں، یعنی تبدیلی، اب ہمیں اس بات پر اتفاق کرنا چاہیے کہ
سعودی عرب میں یہ تبدیلی بہت ضروری ہے۔اب ہمارا کام یہ ہے کہ ہم اسے یقینی
بنائیں کہ محمد بن سلمان ہی جانشین بنے۔ قبل از وقت ان اطلاعات کا منکشف
ہوجانا اور اماراتکی اس میں دلچسپی خفت کا باعث بنی۔
دولت و اقتدار نہ صرف نعمت بلکہ آزمائش بھی ہے۔ اقتدار کا عاشق ہر ایسی
شئے سے نفرت کرتا جس سے معشوق کو خطرہ لاحق ہو۔ خطرات غیروں اور اپنوں
دونوں سے ہوسکتے ہیں ۔ اس لئے کہ دشمن بھی اقتدار سے محروم کرسکتے ہیں اور
دوست بھی۔ یہی وجہ ہے کرسی کو بچانے کے لیے کبھی دوستوں سے دشمنی کی جاتی
ہے اور کبھی دشمنوں کو دوست بنالیاجاتاہے۔حکمرانوں کی حرکات و سکنات کے پسِ
پشت صرف اور صرف اقتدار محبت کارفرما ہوتی ہے۔ وراثت یا انتخابی عمل کے
نتیجے میں ہاتھ آنے والے حکمرانی کے لوازمات تو مختلف ہوتے ہیں لیکن
نفسیات یکساں ہوتی ہے۔ اقتدار بہر صورت حکمراں اور رعایہ کے درمیان ایک حد
فاصل ڈال دیتا ہے ۔ اس صورتحال میں رعایہ کی ترجیحات حکمرانوں سے مختلف
ہوتی ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ بیشترحکمراں عوام کا نمائندے ہونے کے باوجودان
کے حقیقی ترجمان نہیں ہوتے۔ اس فرق کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں عوام
حکمرانوں کے دشمنوں کو اپنا دشمن اور ان کے دوستوں کو اپنا دوست سمجھ لیتے
ہیں جبکہ حقیقت اس سے برعکس بھی ہوسکتی ہے۔کرشن بہاری طرز نے کیا خوب کہا؎
دوستی اپنی جگہ اور دشمنی اپنی جگہ
فرض کے انجام دینے کی خوشی اپنی جگہ
ذرائع ابلاغ کی مدد سے عوام الناس کو باور کرایا جاتا ہے کہ ان کا مفاد
حکمرانوں سے وابستہ ہے حالانکہ یہ ضروری نہیں ہوتا۔ اس لیے عوام کو حق و
باطل کی کسوٹی پر تمام سرکاری اقدامات کو جانچنا اور پرکھناچاہیے ورنہ
جذبات کی رو میں بہہ کر آلۂ کار بن جانے کا خطرہ رہتا ہے۔ ایک پہلو یہ
بھی ہے کہ حکمرانوں کی ناکامی کو پوری قوم کی شکست نہ قرار دیا جائے اس لیے
کہ عوام کی ان کے فیصلوں میں کوئی حصے داری نہیں ہوتی ۔ عام طور دنیا بھرکے
حکمران کی کامیابی کوقوم کی فتح بناکر پیش کیا جاتا ہے جبکہ عوام کو اس سے
کوئی سروکار نہیں ہوتا۔قطر کی آڑمیں اخوان اور حماس کا قافیہ تنگ کرنے کی
کوشش کی جارہی ہے اور جنگ کی دھمکیا ں بھی دی جارہی ہیں ۔ اسلام پسندوں
کویاد رکھنا چاہیے کہ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہورہا ہے ۔
رب کائنات تاریخ انسانی کے حوالے سے ارشادفرماتا ہے :’’اِس سے پہلے کتنے ہی
نبی ایسے گزر چکے ہیں جن کے ساتھ مل کر بہت سے خدا پرستوں نے جنگ کی اللہ
کی راہ میں جو مصیبتیں اُن پر پڑیں ان سے وہ دل شکستہ نہیں ہوئے، انہوں نے
کمزوری نہیں دکھائی، وہ (باطل کے آگے) سرنگوں نہیں ہوئے ایسے ہی صابروں کو
اللہ پسند کرتا ہے‘‘۔ سچ تو یہ ہے حق و باطل کی کشمکش میں طاغوت کے ہمنوا
وں نےاس کی ولایت قبول کرلی ایسے لوگوں پر قرآن مجید کی یہ آیت چسپاں
ہوتی ہے کہ:اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم اُن لوگوں کے اشاروں پر چلو
گے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے تو وہ تم کو الٹا پھیر لے جائیں گے
اور تم نامراد ہو جاؤ گے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ حق کے علمبرداروں کوپست ہمت
کرنے کی سعی کرنے والے خود دل شکستہ ہیں۔ ان کا اظہارِ کمزوری باطل کے آگے
سرنگوں ہونے کی دلیل ہے ۔
یہ کیفیت اس قرآنی خوشخبری کو فراموش کرنےکا نتیجہ ہے کہ :اللہ تمہارا
حامی و مددگار ہے اور وہ بہترین مدد کرنے والا ہے۔ یہ نصرت الٰہی تو صبرو
استقامت کے حامل اہل ایمان کا مقدر ہے:’’ آخرکار اللہ نے ان کو دنیا کا
ثواب بھی دیا اور اس سے بہتر ثواب آخرت بھی عطا کیا اللہ کو ایسے ہی نیک
عمل لوگ پسند ہیں‘‘۔نبیٔ کریم ؐ نے امت کی بے وزنی کی ایک وجہ ’ وہن‘کو
بتلایا ہے۔ وہن دنیا کی محبت اور موت کا خوف ہے۔ حکمرانوں کے اندر اگردنیا
بمعنیٰ اقتدار کی محبت گھر کرجائے تووہ حق و باطل کی تمیز گنوا بیٹھتے ہیں۔
اسی سبب سے دولت و ثروت کی فراوانی کے باوجود وہ بے وزن ہوجاتے ہیں اوران
کی ہوا اکھڑ جاتی ہے۔ موت کا خوف انہیں دشمنوں سے پنجہ آزمائی کی اجازت
نہیں دیتا اور دنیا کی محبت ان کواپنے عوام کا اور ہم عقیدہ ہمسایوں تک کا
دشمن بنادیتی ہے۔ قطر کے موجودہ تنازع کو اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس کی
حالت پر یہ شعر صادق آتا ہے؎
دوستی کی تم نے دشمن سے عجب تم دوست ہو
میں تمہاری دوستی میں مہرباں مارا گیا |