سجدہ خالق کوبھی اورابلیس سے یارانہ بھی

قطرکاپرخطربحران
سعودی عرب اورمصرسمیت چھ عرب ممالک متحدہ عرب امارات، بحرین، لیبیا اور یمن نے قطر پر خطے کو غیر مستحکم کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے اس سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کیا ہے جس کوخلیجی ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے قطر کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر دیے ہیں اور وہ دہشتگردی اور انتہا پسندی کے خطرات سے بچنے اور قومی سلامتی کے پیش نظر قطر کے ساتھ اپنی سرحدوں کو بھی بند کر رہا ہے۔سعودی عرب نے ایک بیان میں قطر پر ایرانی حمایت یافتہ شدت پسند گروپوں کے ساتھ مشرقی علاقوں قطیف اور بحرین میں تعاون کرنے کرنے کا الزام لگایا ہے۔ان ممالک کا یہ الزام بھی ہے کہ قطر اخوان المسلمون ،حماس کے علاوہ دولتِ اسلامیہ اور دیگر شدت پسند تنظیموں کی حمایت کرتا ہے۔متحدہ عرب امارات نے قطری سفارت کاروں کو ملک چھوڑنے کے لیے ۴۸گھنٹے کی مہلت دی ہے۔سرکاری خبر رساں ادارے ڈبلیو اے ایم کے مطابق ابوظہبی نے دوحہ پر دہشتگرد ، انتہا پسند اور مسلکی تنظیموں کی حمایت کا الزام لگایا ہے۔

بحرین نیوز ایجنسی نے کہا کہ قطر ان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی ، سلامتی اور استحکام کو متزلزل کر رہا ہے جس کی وجہ سے وہ قطر کے ساتھ اپنے رشتے منقطع کر رہاہے ۔ملک کی سرکاری فضائی کمپنی اتحاد ایئرویز نے فوری طورپر دوحہ کے لیے تمام پروازیں روکنے کا اعلان کیا ہے۔ مصر نے بھی قطر کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا فیصلہ کیا ہے ا ور قطری جہاز اور طیاروں کیلئے فوری طورپراپنے بندرگاہ اور ایئرپورٹز بھی بند کردیا ہے ۔متحدہ عرب امارات میں شامل ریاست ابوظہبی کی سرکاری فضائی کمپنی اتحاد ایئرویز کی چار پروازیں روزانہ دوحہ جاتی ہیں،اس اعلان کے بعد فوری طورپر دوحہ کے لیے تمام پروازیں معطل کردی گئی ہیں۔ اتحاد ایئرویز کے اس اعلان کے بعددبئی کی فضائی کمپنی امارات کے علاوہ بجٹ ایئرلائن فلائی دبئی، بحرین کی گلف ایئراورمصر کی ایجپٹ ایئرکی جانب سے بھی ایسے ہی اعلانات کیے گئے ہیں۔اس پابندی کا قطر ایئر ویزکے آپریشنزپرگہرااثرپڑے گاجو کہ دبئی، ابوظہبی،ریاض اورقاہرہ کیلئےروزانہ درجنوں پروازیں چلاتی ہے لیکن اصل مشکل ان ممالک کی فضائی حدود استعمال نہ کرنے کی پابندی ہے، اس سے قطری فضائی کمپنی کو اپنے فضائی راستے تبدیل کرنے پڑیں گے جس کا نتیجہ ایندھن کے زیادہ استعمال اورپروازکے دورانئے میں اضافے کی صورت میں برآمدہوگا۔مشاورتی کمپنی کارنرسٹون گلوبل کے ڈائریکٹرغنیم نوسابہ کا کہنا ہے کہ قطرایئرویزنے خودکواس خطے میں ایشیااوریورپ کوملانے والی فضائی کمپنی کے طورپرمنوایاہے لیکن یورپ کاوہ سفرجس میں پہلے چھ گھنٹے لگتے تھے اب آٹھ سے نوگھنٹوں کاہوجائے گاجس کانتیجہ مسافروں کادیگرکمپنیوں سے رجوع کرنے کی صورت میں نکل سکتاہے۔

سفارتی پابندیوں کے اعلان کے بعد جہاں سعودی، اماراتی اوربحرینی شہریوں کو قطرکاسفر کرنے سے روکاگیاہے وہیں سعودی حکومت نے وہاں مقیم اپنے شہریوں کوواپسی کیلئےدوہفتے کی مدت دی ہے۔انہیں۱۴دنوں میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اوربحرین میں مقیم قطری شہریوں کو بھی اپنے وطن واپس جاناہوگا۔ اگر مصرکی جانب سے بھی ایسی پابندی لگادی جاتی ہے تواس کااثر زیادہ ہوگا۔ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ ٨٠ہزار مصری شہری قطر میں مقیم ہیں اوران میں سے اکثریت انجینئرنگ، طب اورقانون کے علاوہ تعمیرات کے شعبوں سے ہی وابستہ ہے۔اس بڑی تعداد میں کارکنوں اورملازمین کاچلے جاناقطرمیں کام کرنے والی مقامی اوربین الاقوامی کمپنیوں کیلئےایک دردِ سرثابت ہوسکتا ہے۔

دراصل سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے اعلانات مذکورہ ممالک کی جانب سے قطری نیوز ویب سائٹس بلاک کیے جانے کے واقعے کے دو ہفتے بعد کیے گئے ہیں۔یہ ویب سائٹس قطری امیر تمیم بن حمد الثانی کے ان بیانات کی آن لائن اشاعت کے بعد بلاک کی گئی تھیں جن میں وہ سعودی عرب پر کڑی تنقید کرتے دکھائی دیے تھے۔قطری حکومت نے ان بیانات کو جعلی اور شرمناک سائبر جرم کہا تھا۔قطر کا الجزیرہ نیوز نیٹ ورک کے ٹی وی چینل کی انگریزی اور عربی زبانوں میں نشریات دنیا بھر میں دیکھی جاتی ہیں اور اکثر اس کی خبروں اور تجزیوں میں خلیجی ممالک کے اندورنی مسائل کو اجاگر کیا جاتا ہے اور خلیجی اور عرب حکومتوں کی پالیسیوں پر تنقیدی جائزے اور تجزیے بھی پیش کیے جاتے ہیں۔

یمن میں حوثی باغیوں کے دارالحکومت صنعا پر قبضے کے بعد صدر منصور ہادی فرارہوکرساحلی شہرعدن منتقل ہوگئے تھے تاہم بعد میں حوثی باغیوں نے جب عدن کی جانب پیش قدمی شروع کی توصدروہاں سے فرارہوکرسعودی عرب پہنچ گئے تھے۔سعودی عرب کی کمان میں قائم اتحاد کے ہزاروں فوجی یمن میں بھیجے گئے ہیں تاکہ صدر ہادی کی حکومت کو بحال کیا جا سکے۔ اتحادیوں نے جولائی میں ساحلی شہرعدن کاکنٹرول حوثی باغیوں سے لے لیاتھا اوراب ملک کے شمالی علاقوں کی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں۔یادرہے کہ سعودی عرب کمان کے تحت ایک ہزارقطری فوجیوں کو یمن کے علاقے ماریب میں تعینات کیا گیاہے اوران کے ساتھ بکتربند گاڑیاں اورہیلی کاپٹربھی بھیجے گئے ہیں۔قطر نے حوثی باغیوں کے خلاف فضائی حملوں کیلئےاپنے طیارے بھی فراہم کیے تھے۔ حوثی قبائلیوں کے ماریب میں گولہ بارود کے ایک ذخیرے پرراکٹ حملے کے نتیجے میں ماریب ہی میں گزشتہ ہفتے سعودی اتحاد کے۶۰فوجی مارے گئے تھے جس میں ہلاک ہونے والے فوجیوں میں متحدہ عرب امارات کے۴۵،سعودی عرب کے دس اوربحرین کے پانچ فوجی شامل تھے۔اس واقعے کے بعد متحدہ عرب امارات کے جنگی طیاروں نے یمن میں کئی مقامات پر شدید بمباری کی تھی جبکہ حوثی باغیوں کاکہناہے کہ ان کایہ حملہ سعودی قیادت میں قائم عسکری اتحاد کے جرائم کابدلہ ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق یمن میں مارچ سے سعودی کمان میں ہونے والی فوجی کاروائیوں میں ساڑھے چار ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں سے دوہزارسے زیادہ عام شہری ہیں۔اب سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے بعدقطر کو سعودی قیادت میں یمن کے حوثی باغیوں کے خلاف سرگرم عسکری اتحاد سے بھی نکال دیا گیا ہے۔ایس پی اے کاکہناہے کہ اس اخراج کی وجہ یہ ہے کہ قطر کے اقدامات سے دہشتگردی مضبوط ہورہی ہے اوروہ القاعدہ اورداعش جیسی تنظیموں اورباغی ملیشیائوں کی حمایت کرتا ہے۔ دراصل خلیج کے ممالک میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کی چاراہم وجوہات ہیں جس کی بناء پرعرب ممالک پہلے بھی قطرکواس کے سنگین اثرات سے مطلع کر چکے تھے۔

پہلی وجہ یہ سامنے آئی ہے کہ عرب سپرنگ کہلانے والی مشرقِ وسطیٰ میں آئی انقلابی لہر کے بعد سیاسی تبدیلیوں کے دوران قطر اورہمسایہ ممالک نے مختلف عناصر کی حمایت کی تھی۔ دوحہ نے جن اسلام پسندوں کی حمایت کی تھی ان میں کچھ اپنے ممالک میں سیاسی فوائد اٹھا پائے ہیں۔مثال کے طور پر ۲۰۱۳ء میں جب مصرکے سابق صدرمحمدمرسی کو معزول کیاگیاتوقطرنے ان کی جماعت اخوان المسلمین کوایک پلیٹ فارم فراہم کیا۔ یادرہے کہ مصری حکومت نے اخوان المسلمین پرپابندی لگارکھی ہے۔ سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات بھی اخوان المسلمین کودہشتگردتنظیم مانتے ہیں۔سعودی عرب کی سرکاری خبررساں ایجنسی ایس پی اے کے بیان کے مطابق قطرپر''اخوان المسلمین،داعش اورالقاعدہ سمیت مختلف دہشتگرد اورفرقہ وارانہ گروہوں کی حمایت کرناہے جن کامقصد خطے میں عدم استحکام پیداکرناہے''۔ ادھر قطرنے اس اقدام کوبلاجوازاوربلاوجہ قرار دیا ہے۔ خودپرلگے الزامات کی تردید کرنے والے بیان میں قطری حکومت کا کہنا تھا کہ وہ دہشتگردی اور شدت پسندی کے خلاف اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھاتا ہے۔

دوسری اہم وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہ نیا بحران اس وقت شروع ہوا جب قطری امیرشیخ تمیم بن حماد الثانی کے ایک مبیّنہ بیان پررپورٹ شائع ہوئی جس میں امریکاکی جانب سے ایران کے خلاف جارحانہ مؤقف پر تنقید کی گئی۔ قطر کے مطابق ملک کی سرکاری خبر رساں ایجنسی پر شائع ہونے والے بیان کے پیچھے ہیکرزکاہاتھ تھا۔ایران کے حریف سعودی عرب کوایک عرصے سے تہران کے مؤقف اورخطے میں اس کے عزائم پرتشویش رہی ہے۔ سعودی بیان میں الزام لگایا گیا ہے کہ قطرسعودی عرب کے شعیہ اکثریت والے علاقے قطیف میں ایران کی پشت پناہی حاصل رکھنے والے گروہوں کی شدت پسندی کی کاروائیوں میں مددکررہا ہے۔ قطر پر یمن میں حوثی باغیوں کی پشت پناہی کرنے کابھی الزام لگایا گیا ہے۔دوحہ جس نے سعودی اتحادکے ہمراہ یمن میں کاروائیوں میں حصہ لیا ہے، مصر ہے کہ وہ دوسرے ممالک کی خود مختاری کااحترام کرتا ہے اور کسی کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔

تیسری اہم وجہ یہ ہے کہ لیبیا جواس وقت سے عدم استحکام کا شکار ہے جب سے سابق رہنما معمر قذافی کو میں بے دخل کرنے کے بعدہلاک کیاگیاتھا۔ لیبیا کی ملٹری میں طاقتور حیثیت رکھنے والے خلیفہ ہفتار جنہیں مصر اور متحدہ عرب امارات کی پشت پناہی حاصل ہے قطر پردہشتگرد گروہوں کی مدد کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ ہفتار ملک کے مشرقی شہر تبروک میں قائم حکومت کے حامی ہیں جبکہ قطر طرابلس میں قائم حکومت کی حمایت کرتی ہے۔

چوتھی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ حال ہی میں سعودی عرب نے قطر پرالزام عائد کیا ہے کہ وہ میڈیا اداروں(الجزیرہ) کو استعمال کرکے سرکشی کے جذبات ابھار رہا ہے،قطری میڈیا نے اخوان المسلمین کے ممبران کو پلیٹ فارم مہیا کیا ہے۔ جبکہ قطر ی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہاکہ میڈیا پرجومہم چل رہی ہے (قطر کے خلاف)وہ خطے میں عوام کے خیالات بدلنے میں ناکام ہوئی ہے خاص طور پرکہ اکسانے کی تحریک کے جوالزامات ہیں وہ مکمل طور پر بے بنیاد ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ان چھ ممالک کی سفارتی تعلقات فوری طورپرختم کرنے کے اس فیصلے کا قطر کی معیشت اور وہاں کاروبار کرنے والے افراد پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟چاہے قطر ائرویز ہو یا الجزیرہ یا پھر مشہور فٹ بال کلب بارسلونا کی سپانسر شپ اور پھر ۲۰۲۲ء کے فٹ بال ورلڈ کپ کی میزبانی، جزیرہ نما عرب کے شمال مشرقی ساحل پر واقع یہ چھوٹی ریاست عالمی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے میں کامیاب رہی ہے۔قطر کی آبادی۲۷لاکھ ہے اوردوحہ کی بلندوبالا عمارتیں اس بات کی گواہ ہیں کہ یہ ملک کثیر القومی کمپنیوں کو اپنی جانب متوجہ کر رہا ہے۔ ایسے میں حالیہ پیش رفت کا مطلب ہے کہ بہت سی چیزیں داؤ پرہیں۔قطر میں اس وقت تعمیراتی سرگرمیاں زوروں پر ہیں اور ریاست میں ایک نئی بندرگاہ، ایک طبی زون،میٹروکامنصوبہ اور۲۰۲۲ءکے ورلڈ کپ کے حوالے سے آٹھ سٹیڈیم تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ان تعمیراتی کاموں میں استعمال ہونے والاکنکریٹ اورسٹیل جہاں بحری راستے سے آتاہے وہیں اس کاایک راستہ سعودی عرب سے بذریعہ خشکی بھی ہے۔اس سرحد کی بندش کا نتیجہ جہاں سامان کی آمد میں تاخیر کی شکل میں نکلے گا وہیں اخراجات میں اضافے کی وجہ بھی بنے گا۔قطرکی تعمیراتی صنعت پرمال کی کمی کاجوخطرہ منڈلارہاتھا اسے یہ بندش مزید سنگین کر دے گی۔ امریکاکے بیکرانسٹیٹیوٹ میں خلیجی ممالک کے ماہرکرسٹن الرچسن کاکہناہے کہ سفارتی تعلقات منقطع کیے جانے،فضائی حدوداور سرحدوں کی بندش کااثرورلڈ کپ کیلئےطے شدہ نظام الاوقات اورسامان کی فراہمی پرپڑے گا۔

صحرائی ریاستیں اپنی ارضیاتی ساخت کی وجہ سے خوراک کی پیداوارکے معاملے میں مشکلات کا شکاررہتی ہیں۔ قطرکیلئےفوڈ سکیورٹی ایک بڑامسئلہ ہے کیونکہ اس کی واحد زمینی سرحد سعودی عرب سے ہی ملتی ہے۔ اس سرحد پر روزانہ ہزاروں ٹرک آرپارجاتے ہیں جن پراشیائے خوردونوش لدی ہوتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق قطرمیں استعمال ہونے والی۴۰فیصد خوراک اسی راستے سے آتی ہے۔ سعودی عرب نے کہا ہے کہ وہ یہ سرحد بند کررہاہے جس کے بعد قطر میں خوراک لانے کیلئےصرف ہوائی اوربحری راستے ہی بچیں گے۔ اس کا نتیجہ ملک میں افراطِ زر کی صورت میں نکلے گا جس کا اثر عام قطری شہری پر پڑے گا۔ ان کے مطابق جب چیزیں مہنگی ہوجائیں گی توقطری عوام حکمران خاندان پردباؤڈالنا شروع کرے گی کہ آیا وہ قیادت بدلے یاپھرسمت۔بہت سے قطری شہری اپنی روزمرہ کی خریداری کے لیے بھی سعودی عرب کا رخ کرتےہیں کیونکہ وہاں یہ نسبتا ًسستی ہیں اوراب یہ بھی ان کیلئَ ممکن نہیں رہے گا۔

ادھرقطر کے وزیرِ خارجہ محمد بن عبدالرحمان الثانی کاالجزیرہ ٹی وی کو انٹرویومیں کہنا تھا کہ تمام ممالک کو بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے اپنے اختلافات کودورکرنے چاہئیں۔ قطر کے خلاف پیداہونے والے حیران کن تنازعے پرافسوس ہے، ہم اس بحران کے پیچھے حقیقی وجوہات کے بارے میں نہیں جانتے۔ اگراس بحران کے پیچھے اصل وجوہات تھیں توان پرگزشتہ ہفتے جی سی سی کے ہونے والے اجلاس میں بات چیت یابحث کی جاسکتی تھی تاہم اس اجلاس میں اس بارے میں کوئی بات چیت یابحث نہیں کی گئی۔ ریاض میں ہونے والے امریکی اسلامی عرب سمٹ میں بھی اس حوالے سے کچھ نہیں کہاگیا۔ ان اجلاسوں میں ایسا کچھ بھی تھاتوہمارے پاس اس بحران کے پیدا ہونے کاکوئی اشارہ نہیں ہے۔ قطر کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات غیرمعمولی اور یکطرفہ ہیں۔ ہم قطر میں ایسی نوعیت کا کوئی قدم نہیں اٹھاتے کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ مذاکرات کے ذریعے کوئی بھی مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں افسوس ہے کہ جی سی سی میں شامل کچھ افراد قطرپراپنی خواہش نافذکرناچاہتے یااس کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنا چاہتے ہیں جسے ہم مسترد کرتے ہیں تاہم ہماراخیال ہے کہ اس نے جی سی سی کے کردارپرایک بڑاسوالیہ نشان لگادیاہے۔

الجزیرہ کی جانب سے پوچھے جانے والے اس سوال پرکہ اس بحران سے قطر میں عام زندگی کتنی متاثرہوگی، شیخ محمد کا کہنا تھا کہ قطر میں اس سے پہلے بھی متعدد بحران آ چکے ہیں جیسا کہ۱۹۹۶ء میں حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش اور۲۰۱۴ء میں جی سی سی ممالک اورقطر کے درمیان پیدا ہونے والا بحران،تاہم ان بحرانوں پرقابو پا لیا گیا۔ قطراپنے شہریوں کومعمول کی زندگی فراہم کرنے کیلئے خود پرانحصارکرے گا۔ ہمارے پاس ایسے پروگرامز ہیں جس کے ذریعے ہم زندگی کے تسلسل اورعام طورپراہم عمارتی منصوبوں کویقینی بنائیں گے۔اس سوال پرکہ اس بحران سے قطر کے امریکاکے ساتھ تعلقات کتنے متاثرہوں گے توشیخ محمد کاکہناتھاکہ قطرکے امریکاکے ساتھ تعلقات سرکاری اداروں کے ذریعے بنائے جاتے ہیں جوکہ مضبوط ہیں۔ قطراورامریکاکے تعلقات مارجینل گروپس نہیں بناتے بلکہ امریکی حکومت کے سرکاری ادارے یہ تعلقات بناتے ہیں۔ادھرامریکی صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی وجہ سے ہی خطے میں دہشتگردی کوفروغ دینے کے الزام میں قطرپراس کے ہمسایہ ممالک نے دباؤڈالنا شروع کیا ہے۔ امریکی صدر کے مطابق ان کے سعودی عرب کے حالیہ دورے کے نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں اور حالیہ واقعات ہوسکتا ہے کہ دہشتگردی کے خوف کے خاتمے کی ابتداہو۔

قطر اورسعودی عرب کے اتحادیوں میں جاری کشیدگی سے پیدا ہونے والی صورتحال پرپاکستان کی قومی اسمبلی نے انتہائی احتیاط سے لکھی گئی مختصر سی قراردادمیں اسلامی ممالک کوصبرسے کام لینے اورباہمی تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پرزور دیا ہے۔انتہائی احتیاط سے لکھی گئی اس مختصر سی قرار داد میں اسلامی ممالک کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات کودور کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے کو کہا گیا۔اس قرارداد میں ۱۰/اپریل ۲۰۱۵ء کی ایک متفقہ قرار داد کاذکر بھی کیا گیا جس میں حکومت کوعرب اورخلیجی ملکوں کے درمیان تنازعات میں مکمل طورپرغیرجانبدارانہ موقف اختیار کرنے کی بات کی گئی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ قصرسفیدکے فرعون کے حالیہ د ورۂ ریاض میں برملامسلم امہ میں انتشارکے جوبیج بونے کے بعد اس کی توقع کی جارہی تھی لیکن کیامسلم امہ کے یہ رہنماءاب بھی سمجھنے سے قاصرہیں کہ ایک طرف توامریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن سعودی عرب اوردیگرعرب ممالک سے قطر کے خلاف پابندیوں کوختم کرنے کیلئے کہہ رہاہے کہ اس عمل سے دہشتگردوں کے خلاف جاری جنگ میں نقصان ہونے کاشدیدخدشہ ہے اور دوسری طرف قصرسفید کا فرعون رومانیہ کے صدرسے ملاقات کے دوران قطرپردہشتگردی کی معاونت کاالزام لگاکرعرب ممالک کے موجودہ اقدامات کی تحسین کررہاہے جس سے وائٹ ہاؤس اورامریکی صدرکے بیانات میں تضادکی وجہ سے عالمی رہنماء قطرسے متعلق امریکی پالیسی سے پریشان ہیں۔
عشق قاتل سے بھی اورمقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزامانگے گا
سجدہ خالق کوبھی اورابلیس سے یارانہ بھی
حشرمیں کس سے عقیدت کاصلہ مانگے گا
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 349897 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.