....ہر آنکھ لیکن بھگو گیا ہے
دارالعلوم، دیوبند کےعظیم المرتبت استاذ حدیث، حضرت الاستاذ مولانا ریاست
علی ظفر بجنوری –رحمہ اللہ– انتہائی موقر ومحترم شخصیت، بلند پایہ محدث اور
اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ اللہ تعالی کا بلاوا آیا اور حضرت الاستاذ اس
دار فانی سے دار جاودانی کےلیے کوچ کرگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
انسان کر بھی کیا سکتا ہے، جب اللہ بلائیں؛ تو جانا ہی ہوگا۔ مگر یہ حقیقت
ہے کہ کچھ لوگوں کی وفات کا اثر ایک محدود دائرے تک ہی رہتا اور چند دنوں
کے بعد، آدمی صبر کرکے خاموش ہوجاتا ہے؛ جب کہ کچھ لوگوں کی شخصیت ہمہ جہت
ہونے کی وجہ سے، ان کی وفات کا اثر دور دور تک پہنچتا ہے، ان کی یاد آتی
رہتی اوران کے انمٹ نقوش ہمیشہ کے لیےباقی رہتے ہیں۔ حضرت الاستاذ کی شخصیت
بھی انھیں معدودے چند عظیم المرتبت لوگوں میں سےتھی؛ اس لیے یہ کہنا غلط نہ
ہوگا کہ شیخ بجنوری –رحمہ اللہ– کی وفات صرف ان کے اہل وعیال اور خاندان
والوں کے لیے ہی حادثۂ فاجعہ نہیں؛ بل کہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ان کے
ہزاروں شاگردوں کے لیے بھی "عظیم علمی خسارہ" کا باعث ہے۔ اللہ تعالی حضرت
کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے! آمین!
کڑے سفر کا تھکا مسافر، تھکا ہے ایسا کہ سو گیا ہے
خود اپنی آنکھیں تو بند کرلیں، ہر آنکھ لیکن بھگو گیا ہے
حضرت الاستاذ کا وطن اصلی موضع: "حبیب والا"، ضلع: "بجنور"، یوپی تھا۔ آپ
9/مارچ 1940 عیسوی کو "علی گڑھ" کے محلہ: "حکیم سرائے" میں پیدا ہوئے، جہاں
آپ کے والد ماجد جناب منشی فراست علی صاحب (رحمہ اللہ) بسلسلہ درس وتدریس،
مع اہل وعیال مقیم تھے۔
حضرت الاستاذ نے ابتدا سے پرائمری درجہ چہارم تک کی تعلیم، اپنے وطن میں
حاصل کی۔ سن 1951 عیسوی میں پرائمری کے درجہ چہارم کا امتحان پاس کیا۔ اس
کے بعد اپنے پھوپھا حضرت مولانا سلطان الحق ذاکر فاروقی صاحب –رحمہ اللہ–
(وفات: 1407ھ) ، سابق ناظم: کتب خانہ دار العلوم، دیوبند، کے ساتھ دیوبند
تشریف لائے اور 1951ء میں، دار العلوم، دیوبند میں داخلہ لیا۔ آپ نے 1958ء
میں دار العلوم، دیوبند سے فضیلت کے امتحان میں امتیازی نمبرات کے ساتھ کام
یاب ہوئے۔
دار العلوم، دیوبند میں قیام کے دوران آپ نے فخر المحدثین حضرت مولانا سید
فخرالدین احمد مرادآبادی (1307-1393ھ)، جامع المعقول والمنقول حضرت علامہ
محمد ابراہیم صاحب بلیاوی(1886-1967ء)، حضرت مولانا بشیر احمد خان صاحب
بلند شہری(وفات: 1966ء)، حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب قاسمی
(1897-1983ء)، سابق رئیس دارالعلوم، دیوبند، ماہرِ معقول ومنقول، استاذ
الاساتذہ حضرت علامہ محمد حسین بہاری (1905-1992ء)،حضرت مولانا جلیل احمد
کیرانوی (وفات: 1968) اور حضرت مولانا ظہور احمد دیوبندی (1900-1963)
–رحمہم اللہ– جیسے اساطین علوم وفنون سے استفادہ کیا۔ فراغت کے بعد 13/سال
تک اپنے محترم استاذ شیخ سید فخر الدین احمد –رحمہ اللہ– کی زیر نگرانی رہ
کر علمی استفادہ کرتے رہے۔ اسی دوران علی گڑھ سے "ادیب کامل" کا امتحان،
اول پوزیشن سے پاس کیا اور "سر سید میڈل" سے نوازے گئے۔
استاذ محترم شیخ بجنوری کی تعلیم وتربیت میں جہاں آپ کی رات دن کی محنت،
جہد مسلسل اور آپ کے اساتذہ کرام کی رہنمائی نے اہم رول ادا کیا؛ وہیں آپ
کے پھوپھا حضرت مولانا سلطان الحق فاروقی –رحمہ اللہ– کی تربیت کا بھی بہت
بڑا دخل تھا۔ آپ اپنے پھوپھا محترم کی تربیت کو سراہتے ہوئے ایضاح البخاری
کا "انتساب" کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "پھوپا جان حضرت مولانا سلطان الحق
ذاکرفاروقی رحمہ اللہ (المتوفی: 1407ھ)سابق ناظم کتب خانہ دار العلوم،
دیوبند، اس دنیائے آب ورنگ میں، راقم کے لیے حقیقی مسبّب الاسباب کے بعد،
سب سے بڑے مربّی تھے۔ اس سلسلے میں انھیں جن جانکاہیوں کا سامنا کرنا پڑا،
انھیں خداوند قدوس بہتر جانتے ہیں۔اس موقع پر اپنی اس متاع حقیر کو انھیں
کے نام سے منسوب کرتا ہوں۔" (ایضاح البخاری 1/3)
حضرت الاستاذ کا تقرر، دار العلوم، دیوبند میں، استاذ کی حیثیت سے سن 1972ء
میں ہوا۔ آپ نے 45/سال تک دار العلوم، دیوبند میں مخلصانہ خدمات انجام دی۔
آپ دار العلوم میں تدریسی ذمے داری کے ساتھ ساتھ مختلف مواقع سے چند دوسری
اہم انتظامی ذمے داریاں بھی بحسن وخوبی انجام دیتے رہے۔ آپ 1982 سے 1984 تک
ماہ نامہ "دار العلوم" (اردو) کی ادارت کی ذمے داری انجام دی اور ماہ نامہ
کے مدیر محترم رہے۔ 1985ء میں آپ شعبہ تعلیمات کے ناظم کی حیثیت منتخب کیے
گئے اور آپ نے اس مفوضہ ذمے داری کو بڑے حسن اسلوب کے ساتھ نبھایا۔ 1988ء
میں، مجلس شوری نے آپ کو دار العلوم دیوبند کے شعبہ تحقیق وتالیف اور صحافت
"شیخ الہند اکیڈمی" کا نگراں منتخب کیا۔آپ کی نگرانی میں، "شیخ الہند
اکیڈمی" سے متعدد معیاری اور علمی کتابیں شائع ہوئیں۔ تقرری کے وقت سے
تادم واپسیں، 45/سال دارالعلوم میں رہے؛ بل کہ دار العلوم کے ہی ہو کر رہ
گئے اور مختلف ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ، علم وفن کی اکثر کتابوں کا درس
دیا۔ ابھی حال میں، مشہور محدث أبو عيسى محمد بن عيسى بن سَورة بن موسى بن
الضحاك (متوفى: 279ھ) کی کتاب: سنن الترمذي،جلد: اول اور البلاغۃ الواضحۃ
کے اسباق آپ سے متعلق تھے۔ اللہ تعالی آپ کی خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے!
اٹھائے کچھ ورق لالے نے، کچھ نرکس نے، کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی داستاں میری
حضرت الاستاذ کوئی کثیر التصانیف مصنف نہیں تھے؛ مگر جو بھی تصنیف آپ کے
قلم سے نکلی، اس کی زبان بڑی سلیس، صاف ستھری اور دلکش ہے۔ آپ کی مشہور
تصنیف "شوری کی شرعی حیثیت" ہے، جو اپنے موضوع پر انوکھی اور اکلوتی ہے
کتاب ہے۔ اصول فقہ کے موضوع پر استاذ محترم حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب
اعظمی –حفظہ اللہ– کے ساتھ، آپ نے مشترکہ طور پر "تسہیل الأصول" نامی رسالہ
لکھا جو دار العلوم، دیوبند کے درجہ عربی چہارم میں داخل درس ہے۔ اسی طرح
آپ نے "مقدمہ تفہیم القرآن کا تحقیقی وتنفیدی جائزہ" لکھا جو شائع شدہ ہے۔
آپ کو حدیث شریف سے بھی مثالی تعلق تھا؛ چناں چہ جہاں برسوں حدیث شریف کی
تدریسی خدمات انجام دی، وہیں اپنے مشفق ومربی استاذ شیخ فخر الدین صاحب
–رحمہ اللہ– کی تقریرِ بخاری بھی "ایضاح البخاری" کے نام سے ترتیب دیا، جو
ترتیب، زبان وبیان اور علمی مواد کی وجہ سے بخاری شریف کی اعلا درجے کی شرح
ہے۔
استاذ محترم نے فضیلت کے سال میں شیخ الحدیث حضرت مولانا سید فخرالدین احمد
کی بخاری شریف کے درسی افادات قلم بند کیے تھے۔ فراغت کے اگلے
سال(1378ھ-1959ء)دار العلوم میں رہ کر، حضرت شیخ کے درسی افادات کو دوبارہ
بہ اہتمام ضبط کیا۔ سال کے خاتمہ پر اپنے بڑوں ، بزرگوں اور دوستوں کے
مشورے سے، اس درسی افادات کو ترتیب دے کر شائع کرنے کا ارادہ کیا؛ چناں چہ
دونوں سال کے افادات کو سامنے رکھ کر، آپ نے تیسرا مقالہ تیارکیا اور
درمیان میں ذیلی سرخیاں قائم کی۔ پھر اس کی اشاعت کا انتظام کیا اور بہ نام
"ایضاح البخاری" شائع کرکے، جہاں اپنے مشفق استاذ کی درسی تقریر کو محفوظ
کیا؛ وہیں اساتذہ وطلبۂ حدیث کی خدمت میں، ایک اہم قیمتی سوغات بھی پیش کی۔
ایضاح البخاری کی اب تک 6/جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔ اللہ تعالی حضرت الاستاذ
کے اس کار عظیم کا اپنے شایانِ شان بدلہ نصیب فرمائے!
حضرت الاستاذ بلند پایہ محدث ومنتظم ہونے کے ساتھ ساتھ اردو زبان وادب کے
کہنہ مشق ادیب اورصاحب دیوان شاعر بھی تھے۔ نثرنگاری ہو یا نظم نگاری، آپ
لکھتے تو ادبی شہہ پارے بکھیرتے جاتے۔ شعرو سخن میں آپ مفسر قرآن، مملکت
شعر وسخن کے خاموش تاج دار حضرت مولانا محمد عثمان کاشف الہاشمی –رحمہ
اللہ– کے شاگردوں میں تھے۔ آپ شاعری کی ہر صنف پر دسترس رکھتے تھے۔ آپ نے
بہت کم شعری کلام کہے؛ مگر جو کچھ بھی کہا، اسے ارباب علم وادب نے سراہا
اور دادِتحسین سے نوازا۔ آپ نے دار العلوم، دیوبند کے صدسالہ اجلاس
(1980ء=1400ھ) کی مناسبت سے "ترانۂ دار العلوم، دیوبند" لکھا۔ اس ترانے کو
جو شہرت ملی، وہ شاید ہی کسی اور ترانہ کو ملی ہوگی۔ آپ کا مجموعۂ کلام
"نغمۂ سحر" کے نام سے کئی سالوں پہلے چھپا اور علماء وادباء نے اس کی بڑی
پذیرائی کی۔
لطف گویائی میں تیری ہمسری ممکن نہیں
ہو تخیّل کا نہ جب تک فکر کامل ہم نشیں
شیخ بجنوری نے 45/سال تک، دار العلوم، دیوبند میں اپنی تدریسی خدمات پیش
کرکے، ہزاروں آرزومندوں وتشنگان علوم دینیہ کو سیراب کیا۔ احاطۂ دار العلوم
میں، طلبہ کے لیے شیخ بجنوری کی محبت والفت دیدنی تھی۔آپ سے کوئی طالب علم
ملنے جاتا؛ تو آپ خوش طبعی اور کشادہ دلی سے ملتے۔ طلبہ کے لیےشیخ کی شخصیت
ایک باپ نما شفیق وکریم استاذ ومربی اور ناصح و واعظ کی تھی۔ آپ کی زبان
بڑی میٹھی اور پیاری تھی۔ آپ طلبہ کو ہمیشہ "بیٹے" کے لفظ سے مخاطب کرتے
تھے۔ آپ جب لفظ "بیٹے" کا تلفظ کرتے تھے؛ تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا
کہ آپ کا دل پیار ومحبت سے معمور ہے۔ ہاں، یاد آیا کہ کلاس میں، کسی طالب
علم کے نام کے ساتھ "بھائی" بھی لگادیا کرتے تھے؛ مگر یہ لفظ ان کے معمول
کا نہیں تھا؛ بل کہ مزاح فرمانے کےلیے کبھی کبھار ایسا کرتے تھے۔
سن 2003ء میں، راقم الحروف کو حضرت والا سے معروف محدث ابن ماجہ أبو عبد
الله محمد بن يزيد القزوينی –رحمہ اللہ– (متوفى: 273ھ) کی حدیث کی کتاب
"سنن ابن ماجہ" پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی؛ پھر 2004 ء میں، "تکمیل ادب" میں
"البلاغۃ الواضحۃ" پڑھنے کا شرف حاصل رہا۔ آپ تکمیل ادب کی درس گاہ میں
آتے؛ تو طالب علم عبارت پڑھتا۔ پھر آپ سبق کی تشریح کرتے۔ البلاغۃ الواضحۃ
میں، ہر سبق کے اختتام پر تمرین میں، طلبہ چاہتے کہ تمرین اردو زبان میں بہ
عجلت کرکے سبق سے چھٹکارا حاصل کیا جائے؛ مگر حضرت کہتے کہ بیٹے ایسا نہیں!
تمرین تو آپ کو عربی میں ہی کرنی ہوگی۔ اب آپ عربی زبان وادب کے طالب علم
ہیں۔ بہرحال، طلبہ کو تمرین عربی میں ہی کرنی ہوتی تھی اور دوران تمرین اگر
کوئی غلطی ہوتی؛ تو آپ اصلاح فرماتے۔ طلبہ کی غلطیوں پر آپ ناراض نہیں
ہوتے؛ بل کہ ان غلطیوں کی اصلاح خندہ پیشانی کے ساتھ کرتے۔ دوران درس کبھی
آپ کے چہرے سے ناگواری کے آثار نمایاں نہیں ہوتے۔ دوران درس آپ کا لب ولہجہ
پیار ومحبت سے لبریز ہوتا اور آپ کو ہمیشہ یہ خیال رہتا کہ:
وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے
دیکھ! کوئی دل نہ دکھ جائے تری تقریر سے
حضرت الاستاذ نے اپنی عمر عزیز کی تقریبا 77/بہاریں دیکھ چکے تھے۔ اِن دنوں
آپ پر پیرانہ سالی کے آثار نمایاں تھے۔ آپ کی طبیعت بھی ادھر کچھ مہینوں سے
ناساز تھی۔ چند مہینے قبل سوشل میڈیا پر یہ خبر نشر ہوئی تھی کہ آپ شدید
بیمار ہیں۔ مگر اُس وقت اللہ تعالی نے آپ کو رو بصحت کیا۔ آپ کا وقت موعود
آچکا تھا؛ چناں چہ اپنے ہزاروں شاگردوں، قدر دانوں اور اہل خانہ سے منھ موڑ
کر اور ان کو روتا بلکتا چھوڑ کر، بغیر کسی پیشگی اطلاع کے 20/مئی، 2017 کا
سورج نکلے سے پہلے غروب ہوگئے۔ آپ کی نماز جنازہ اُسی دن، بعد نماز ظہر،
تقریبا ساڑھے تین بجے حضرت الاستاذ مولانا قاری سیّد محمد عثمان صاحب
منصورپوری –حفظہ اللہ–، استاذ حدیث: دار العلوم، دیوبند نے "احاطۂ مولسری"
میں پڑھائی اورہزاروں لوگوں نے آپ کو دیوبند کے "قبرستان قاسمی" میں سپرد
خاک کردیا۔ یقین ہے کہ آپ کے شاگرد، قدردان اور اولاد واحفاد آپ کے حق میں
دعا اور ایصال ثواب کرکے، آپ کے رفع درجات کا ذریعہ بنیں گے۔ دعا ہے کہ
اللہ تعالی حضرت الاستاذ کی مغفرت فرماکر،جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے
اور پس ماندگان کو صبر جمیل! آمین!
اے جہاں آباد! اے گہوارۂ علم وہنر
ہیں سراپا نالۂ خاموش تیرے بام ودر
٭٭٭ |