مزاح نگاری کی جانب سفر

مزاح نگاری کی جانب سفر
بقلم خود
حالات کی ستم ظریفیوں نے ہماری طبیعت میں ظرافت کوٹ کوٹ کر بھری تھی جس نے شوخی و شرارت کا رنگ اختیارکرلیا تھا اور اسکول کے زمانے میں اس کا عملی مظاہرہ کلاس کے دوستوں کے ساتھ چھیڑچھاڑکی صورت میں کرتے تھے اور اساتذہ ہماری شرارتوں سے عاجز رہتے تھے اسی لئے اکثر متورم ہاتھ اور سرخ کان لئے ہوئے ہم گھر جایا کرتے تھے۔ ہاتھ اس لئے سوجے ہوتے تھے کہ استاد ہماری شرارتوں کا جواب ہماری ہتھیلیوں پر اپنی بید سے دیا کرتے تھے جبکہ سرخ کان بھی انہی کی استادی کا انعام ہوتے تھے لیکن جس دن ہم کلاس میں خاموش بیٹھے ہوتے تو ہماری خاموشی بھی اساتذہ کو تشویش میں مبتلا کئے رکھتی کہ شاید اب ہم کوئی نئی شرارت سوچ رہے ہیں۔ اس لئے وہ حفظ ماتقدم کے طور پر اس سے نمٹنے کے لئے پہلے سے ہی تیاری کرکے رکھتے تھے ۔کالج کے زمانے میں ہم نے باقاعدہ طلبہ سیاست میں بھی حصہ لیا اور کالج کے سب سے مقبول طالب علم بن گئے ۔ ہماری سیاست کسی طلبہ تنظیم کی مرہونِ منت نہیں تھی بلکہ ہماری ذاتی کاوشوں کا نتیجہ تھی۔کالج میں طلبہ یونین کے انتخابات میں بڑی گہما گہمی ہوتی تھی۔ وہاں ہر طلبہ تنظیم اپنے امیدواروں کے نام پلے کارڈز پر لکھوا کرگراؤنڈ میں نصب کرادیتی تھی جہاں طلباء کا اژدہام جمع ہوجاتا تھا لیکن جہاں ہم نے ان دونوں تنظیموں کے پلے کارڈز کے درمیان اپنا پلے کارڈ لکھ کر لگایا، طلباء کا مجمع ان تنظیموں کے پلے کارڈز کے اطراف سے منتشر ہوکر ہمارے پلے کارڈ کے گرد جمع ہوجاتا تھا اور مذکورہ تنظیموں کے امیدوار بے بسی سے ہمیں دیکھا کرتے تھے کیونکہ ہم اپنے پلے کارڈ کے مطابق ایک انفرادی عہدے کے امیدوار تھے اور اس پر لکھا ہوتا تھا ’’رفیع عباسی برائے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر‘‘ واضح رہے کہ ان دنوں ملک میں بھی ’’سویلین‘‘ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرکا دورحکومت تھا، اس لئے ہم بزعم خود دونوں تنظیموں کے مشترکہ امیدوارکی حیثیت رکھتے تھے۔
گریجویشن کے بعد اُس دورکے نامورکارٹونسٹ جمشید انصاری کی مہربانی سے انگریزی روزنامہ مارننگ نیوز میں ملازمت مل گئی جو ہماری صحافتی زندگی کا آغاز تھا۔ مضامین لکھنے کا شوق تو بچپن سے ہی تھا، اس اخبار میں ملازمت کے دوران متعدد ادبی شخصیات سے میل جول ہوا جنہوں نے مضامین لکھنے کے لئے ہماری کافی رہنمائی کی جس کے بعد ہمارے مضامین بڑے اخبارات و جرائد میں شائع ہونے لگے۔طنز و مزاح لکھنے کی تحریک ہمارے دوست اور محترم استاد، مزاح نگار اور صحافی نعیم ابرار اورممتاز دانشور اور صحافی محمد اختر جوناگڑھی نے پیدا کی اور جب ہمارے قلم سے مزاح بہنے لگا تو اس کے الفاظ اور جملوں کی اصلاح اختر جونا گڑھی نے ایک اچھے استاد کی طرح کی اور انہی کی ادب نوازی کی وجہ سے ہم مزاحیہ رنگ میں کئی اچھے مضامین لکھنے میں کامیاب ہوئے۔ نامور صحافی اور دانشور جناب محمود شام نے سرپرستی فرمائی اور انہی کی عنایات سے ہمارے مضامین ایک بڑے اخبار میں شائع ہوکر قارئین کی توجہ کا مرکز بننے لگے۔

زیر نظرکتاب ’’ نام میں کیا رکھا ہے‘‘ ہمارے طنزومزاح کے مضامین کا وہ مجموعہ ہے جو ملک و بیرون ملک کے اخبارات میں چھپتے رہے ہیں۔ ہماری مذکورہ تصنیف، ’’صاحبِ تصنیف‘‘ کی طرح گمنام یا بے نام ہے۔ ایک مزاح نگار کی خواہش صرف اتنی ہوتی ہے کہ اس کے مضمون کا ہر لفظ، ہر جملہ پڑھنے والے کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیردے ، یہی مسکراہٹ ایک تخلیق کار کی تخلیقی صلاحیتوں کے اعتراف میں ’’پرائیڈ آف پرفارمنس‘‘ کا عوامی ایوارڈ ہوتا ہے، اس لیے ’’نام میں کیا رکھا ہے…‘‘ ان مضامین میں ہمارے چبھتے ہوئے جملوں میں نعیم ابرار اور محمد اختر جوناگڑھی کی محبت کی چاشنی بھی گھلی ہوئی ہے۔ ہمارے مذکورہ مضامین نے جہاں ادبی حلقوں میں ہمیں روشناس کرایا وہیں بعض لوگوں کی روزی کا بھی ذریعہ بنادیا۔ مذکورہ مضامین سے ہمیں تو کوئی مالی فائدہ نہیں پہنچا لیکن بعض نیوزایجنسیز نے یہ مضامین انٹرنیٹ کے ذریعے سعودی عرب، دبئی، برطانیہ، امریکا اور دیگر ممالک کے اردو اخبارات میں چھپوا کر معقول رقم کمائی ۔

ہر شاعر و ادیب کی زندگی عشق و محبت کے مبینہ تجربات اور ناکامیٔ عشق پر آہ و زاری پر مبنی اشعار و واقعات پر مشتمل ہوتی ہے لیکن ہم نے جب ماضی کے عشّاق شیریں فرہاد، ہیررانجھا، لیلیٰ مجنوں، نوری جام تماچی اور مرزا صاحبان کے عشق کی گیتوں بھری داستانوں کو ملاحظہ کیا تو مذکورہ عشّاق کی زندگی ناکامیوں اور حسرت و یاس کا مجموعہ نظرآئی اس لئے اپنی حسرتوں میں مزید اضافے کی ہمت نہیں ہوئی۔
زیر نظرکتاب کیونکہ ہماری مضمون نگاری کی پہلی کاوش ہے اس لئے اس کے الفاظ و جملوں کے تمام جملہ حقوق غیر محفوظ ہیں۔ کتاب میں دئیے گئے تمام حالات، واقعات اور کردار مکمل طور سے فرضی ہیں۔ کسی مماثلت کی صورت میں بحیثیت مضمون نگار، ہم گردن زدنی سے محفوظ رہنے کے حقوق محفوظ رکھتے ہیں حالانکہ موجودہ دور میں ہمارے بھی سوائے حق رائے دہی، تمام بنیادی حقوق غیر محفوظ ہیں اس لئے ٹارگٹ کلنگ اور خودکش حملہ آوروں کے سروں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ہمیں اپنا سر بھی محفوظ نظر نہیں آتا۔

رفیع عباسی
5 ؍دسمبر 2012

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 213 Articles with 223193 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.