رفیع عباسی: اردوکے طنزیہ، مزاحیہ ادب میں ایک خوشگوار اضافہ

ایک خوشگوار اضافہ
قاضی اختر جونا گڑھی
اردوکے طنزیہ اور مزاحیہ ادب میں، قحط الرّجال جیسی صورت حال کافی طویل عرصے سے چلی آرہی ہے۔ پطرس بخاری (جو اپنے بارہ مضامین کی وجہ سے، ادب میں شہرتِ دوام حاصل کرچکے ہیں)، ابنِ انشاء اور مشفق خواجہ جیسے طنزنگار اور مزاح نویس اب ڈھونڈے سے بھی نظر نہیں آتے۔ یہ لوگ اردو ادب میں، طنزومزاح کی آبرو تھے۔ اب ان جیسا دُور دُور دکھائی نہیں دیتا۔ ویسے تو عظیم بیگ چغتائی، شوکت تھانوی، شفیق الرحمن اور رشید احمد صدیقی وغیرہ نے بھی طنزومزاح کو برتا ہے، لیکن جو بات پطرس بخاری، ابنِ انشاء اور مشفق خواجہ کی طنزیہ اور مزاحیہ تحریروں میں تھی وہ اب کہیں نظر نہیں آتی۔ استاد مہدی حسن خان صاحب بلاشبہ گائیکی کی دنیا کے ایک عظیم ترین فن کار ہیں، لیکن انہیں یہ مقام اُس وقت تک نہیں مل سکا جب تک ایشیاء کی آواز یعنی لتا منگیشکر نے یہ نہیں کہہ دیا کہ ’’مہدی حسن کے گلے میں بھگوان بولتا ہے‘‘۔

اس طویل تمہید کی ضرورت مجھے یوں پیش آئی کہ بعد مدّتِ دراز کے صحیح معنوں میں، طنزومزاح سے بھرپور تحریریں میری نظر سے گزری ہیں۔ یہ تحریریں میرے ساتھی اور اردو کے ابھرتے ہوئے طنزومزاح نگار رفیع عباسی کی ہیں۔ پہلے پہل ان کی فطری عاجزی، انکساری اور کم گوئی کو دیکھ کر میں یہ سمجھا کہ یہ خاموش رہنے والا شخص جسے ’’سوائے مسکرانے کے‘‘ دنیا کا کوئی اور کام نہیں آتا، ہرگز ہرگز اِن خوشگوار تحریروں کا خالق نہیں ہوسکتا… لیکن یہ میری غلط فہمی تھی۔ میں نے رفیع عباسی کی صلاحیتوں کا غلط اندازہ لگا رکھا تھا۔ نہ اس نے کبھی اونچی آواز میں بات کی، نہ یہ جتلایا کہ وہ طنزومزاح لکھنے پر اتنی قدرت رکھتا ہے۔ ہر بڑے تخلیقی فن کار کی طرح رفیع عباسی کی شخصیت میں گہری اِنکساری اور عاجزی پائی جاتی ہے…وہ بہت کچھ جانتا ہے، بہت کچھ سمجھتا ہے۔ اس کا مشاہدہ بہت تیز، اس کی نظریں بے حد گہری اور اس کا اشیاء اور افرادکو دیکھنے اور سمجھنے کا انداز بے انتہا گیرائی کا حامل ہے لیکن مجال ہے جو کبھی وہ اپنی زبان سے ان تمام باتوں کا اظہارکردے، ہاں وہ ان باتوں کو اپنی تحریروں کے ذریعے آپ کے سامنے لائے گا تب آپ کو بھی یہ پتہ چلے گا کہ وہ اشیاء اور افراد کے مابین درپردہ تضادات کو دیکھنے کی کیسی قوتِ بینائی رکھتا ہے۔ اس کا مشاہدہ کتنا تیز اور حِس مزاح کتنی طاقتور ہے۔
رفیع عباسی نے اکثرو بیشتر ہمارے سماج اور معاشرے کے عام مسائل کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ اس کی معلومات بہت وسیع ہیں، جن سے وہ حسبِ ضرورت کام لیتا رہتا ہے۔ اسے الفاظ اور اُن کے مترادفات اور تلازمات سے گہری آشنائی ہے۔ اس کے طنزیہ اور مزاحیہ مضامین، ہنسی ہنسی میں آپ کو ایسے مسائل کا ادراک بخش دیں گے جن کے بارے میں آپ نے کبھی سوچنے کی زحمت بھی نہ کی ہوگی۔ اس کے فقرے، جملے اور پیراگراف اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس جہاں سے سَرسرَی نہیں گزرا۔ اسے معلوم ہے کہ ہر جا…جہانِ دِیگرموجود ہے جسے دیکھنے کے لئے ایک مخصوص نظر کی ضرورت ہے۔

مجھے خوشی ہے کہ یہ نظر، یہ بصیرت اور بصارت رفیع عباسی کو بدرجۂ اتم حاصل ہوئی ہے۔ نہ جانے وہ کس گہرے دکھ، ملال اور رنج میں مبتلا ہے لیکن اس کا یہی گہرا دکھ اسے ایک دن طنزومزاح کی بلندیوں تک پہنچائے گا۔ اب ہمیں فکر اور تردّد کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے درمیان رفیع عباسی جیسا طنزومزاح نگار موجود ہے جس کی خوشگوار آواز اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کی تحریریں اردو کے طنزیہ اور مزاحیہ ادب میں ایک بیش قیمت اضافہ ہیں۔

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 208 Articles with 191104 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.