اکیس جو ن کو افطار پارٹی کی دعوت مجھے الفلاح بینک پتوکی
برانچ کے منیجراعجازعلی صاحب نے باوساطت سید ندیم مقصودجعفری کے پہنچائی
سید صاحب کا کہنا تھا کہ آپ کی شرکت ضروری ہے میں نے کہا میں کوشش کروں گا
کیونکہ آج مجھے ایک اور دوست کی جانب سے بھی افطار ڈنر کی دعوت موصول ہو
چکی ہے اب آپ دونوں کی جانب سے دیے گئے افطار ڈنر میں سے ایک میں شرکت کر
سکوں گا جبکہ دوسرے سے معذرت طلب کروں گا تو سید ندیم صاحب نے کہاکہ آپ
جانتے ہو کہ اعجازعلی صاحب ایف ایم 92پر ہفتہ وار ایک پروگرام باقاعدگی سے
کرتے ہیں اس افطار پارٹی پر آپکو مدعو کرنے کا مقصد بھی یہ ہی تھا کہ چند
لمحے ہم سب دوست اکھٹے بیٹھ سکیں میں نے کچھ وقت ان سے مانگا کہ مجھے دیں
تاکہ میں دوسرے دوست سے اسکے افطار ڈنر میں شریک نہ ہو سکنے کا سبب بیان کر
سکوں لہذا میں نے فوری طور پر جناب عامرچوہدری صاحب کو فون کر کے تمام بات
بتائی، شکر گزار ہو ں عامرچوہدری صاحب کا جنھوں نے کہا چوہدری صاحب کوئی
بات نہیں ہم کل پر اپناافطار ڈنر رکھ لیتے ہیں جس پر میں نے ان کا شکریہ
ادا کیا اور دوبارہ سید ندیم صاحب کو کال ملائی اور اعجاز صاحب کی افطار
پارٹی میں آنے کا عندیہ دیا اب اگلا مرحلہ ہمارے لیے بڑا اہم تھا کیوں کہ
آج اکیس جون کووطن عزیزپاکستان اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون کم عمر وزیر
اعظم کی تاریخ پیدائش تھی جس پر مجھے ایف ایم 92کے پروگرام آپکی آواز میں
سامعین سے چند باتین تاریخی حوالوں سے شیئر کرنا تھیں لہذا میں نے سید ندیم
مقصود جعفری صاحب کو کہا کہ آج ہم پروگرام آدھا گھنٹہ پہلے شروع کر لیتے
ہیں تاکہ بے نظیر بھٹو کی تاریخ پیدائش پر پروگرام بھی ہو جائے اور اسکے
بعد افطار پارٹی میں شرکت بھی، جس پر سید ندیم مقصود جعفری نے فوری ہامی
بھر لی لہذا ہمارا پروگرام آپکی آواز سید ندیم مقصود جعفری اور محمد
مظہررشید چوہدری کے ساتھ معمول کی نشریات سے آدھا گھنٹہ پہلے شروع ہوا جس
میں سامعین سے شیئر کی گئی چند معلومات آج کالم "سانچ" کے قارئین کی خدمت
میں پیش ہیں۔ بے نظیر بھٹو (اپنے والد کی پنکی)21جون 1953کو کراچی میں
سابقہ وزیر اعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور
بیگم نصرت بھٹوکے گھر پیدا ہوئیں بے نظیر بھٹو تمام بہن بھائیوں مرتضی
بھٹو،شاہنواز بھٹو اور صنم بھٹو سے بڑی اور بے حد لاڈلی تھیں بچپن سے ہی
اپنے والد کے ساتھ رہیں اور ان کے نقش قدم پر چلنے لگیں سیاست
،ہمدردی،بھائی چارہ اور عوام کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنا انہوں نے اپنے والد
سے سیکھا ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی چہیتی بیٹی کو انگریزی زبان سیکھنے کے
ساتھ ساتھ اردو زبان بولنے کو ترجیح دی بے نظیر بھٹو نے ابتدائی تعلیم لیڈی
جیننگز نرسری سکول اور کونونٹ آف جیسزاینڈ میری سکول اس کے بعد دو سال
راولپنڈی پریز نٹیشن کونونٹ میں بھی تعلیم حاصل کی جبکہ بعد میں انہیں مری
کے جیس اینڈ میری میں داخل کروا دیا گیا انہوں نے 15سال کی عمر میں اولیول
کا امتحان پاس کیا1969میں ہارورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور1973میں
پولیٹیکل سائنس میں گریجویشن مکمل کیا تعلیم کا سفر جاری رکھتے ہوئے انہوں
نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیا جہاں سے انہوں نے فلسفہ،معاشیات اور
سیاسیاست میں ماسٹر کیابے نظیر بھٹو اپنی تعلیم مکمل کر کے 1977میں اس
ارادے کے ساتھ وطن واپس لوٹیں کے خارجہ امور نبھائیں گی لیکن ان کی آمد کے
دو ہفتے بعد ہی حالات کی خرابی کابہانہ بنا کر ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت
کا تختہ اس وقت کے جنرل ضیاء الحق نے الٹ دیا اور ملک میں مارشل لاء نافذ
کر دیاذوالفقار علی بھٹو کو جیل جبکہ بے نظیر بھٹو کو گھر میں نظر بند کر
دیا 1979میں ذوالفقار علی بھٹو کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک متنازع کیس
میں پھانسی کی سزا سنا دی 1984میں بے نظیر بھٹو کو جیل سے رہائی ملی تو
انہوں نے دوسال تک برطانیہ میں جلا وطنی گزاری اسی دوران پارٹی رہنماؤں اور
نمائندگان نے انہیں پارٹی سربراہ بنانے کافیصلہ کیا 1986میں مارشل لاء
اٹھائے جانے کے بعد بے نظیر بھٹو لاہور ایئر پورٹ پہنچیں جہاں ان کا فقید
المثال استقبال کیا گیا اگست 1987میں نواب شاہ کی اہم شخصیت حاکم علی
زرداری کے صاحبزادے آصف علی زرداری کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں
لیکن اپنے سیاسی مشن کو جاری رکھا 17اگست1988کو جنرل ضیاء الحق طیارہ حادثے
کے بعد ملک میں نئے سیاسی دروازے کھلنے لگے16نومبر1988میں ملک عام انتخابات
منعقد ہوئے جس میں پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی سب سے زیادہ
نشستیں حاصل کیں یوں بے نظیر بھٹو نے 2دسمبر1988 کومسلم دنیا کی پہلی خاتون
وزیر اعظم کاحلف اٹھایا لیکن اس وقت کے صدر مملکت غلام اسحاق خان نے پیپلز
پارٹی کی حکومت پر بے پناہ کرپشن اور بدعنوانی کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی
حکومت کواگست 1990میں برطرف کر دیا اور 2اکتوبر 1990میں ایک بار پھر عام
انتخابات ہوئے جس میں مسلم لیگ نواز اور بے نظیر کی مخالف جماعتوں نے
الائنس بنایا جس کا نام اسلامی جمہوری اتحاد رکھا اور انتخابات میں اکثریت
بھی حاصل کی یوں میاں محمد نواز شریف ملک کے وزیر اعظم اور بے نظیر قائد
حزب اختلاف منتخب ہوئے لیکن غلام اسحاق خان نے ایک بار پھر نواز شریف پر بد
عنوانی اور کرپشن کو الزام لگایا اور پھر اسمبلیاں توڑ دیں جس کے بعد
اکتوبر 1993میں ملک میں ایک بار پھرعام انتخابات ہوئے جس میں پیپلز پارٹی
معمولی اکثریت حاصل کر کے کامیاب ہوئی اور بے نظیر بھٹو ایک بار پھر ملک کی
وزیر اعظم اور فاروق احمد لغاری صدر مملکت منتخب ہوئے لیکن پیپلز پارٹی کے
اپنے ہی صدر نے 1996میں بدامنی،بدعنوانی ،کرپشن اور ماروائے عدالت قتل کے
اقدامات کے باعث بے نظیر حکومت کا تختہ ایک بارپھر الٹ دیا بے نظیر نے اپنے
بھائی مرتضیٰ بھٹو کے قتل اور حکومت کے خاتمے کے کچھ عرصہ بعد خود ساختہ
جلاوطنی اختیار کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات میں دبئی میں قیام کیا اسی عرصہ
کے دوران بے نظیر بھٹو نے کئی سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی کیں 14مئی
2006میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جسے
میثاق جمہوریت کا نام دیا اور اس عزم کا ارادہ کیا کہ جمہوریت کو بحال کرنے
اور کسی کو اپنے لیے استعما ل نہیں ہونے دیں گے دوسری پیش رفت تب ہوئی جب
28جولائی 2007کو جنرل پرویز مشرف نے ابو ظبہی میں بے نظیر سے ملاقات کی جس
کے بعد بے نظیر بھٹو تقریباً ساڑھے آٹھ سالہ جلاوطنی گزارنے کے بعد وطن
واپسی کا ارادہ کیا 18اکتوبر کو کراچی ائیر پورٹ پہنچنے پر تاریخی استقبال
کیا گیا بے نظیر بھٹو کا قافلہ مزار قائد کی جانب گامزن تھا جس میں زور دار
دھماکے ہوئے جس کے نتیجے میں 100سے زائدافراد شہید جبکہ سینکڑوں افراد زخمی
ہوئے قیامت صغریٰ کے اس منظر کے دوران بے نظیر بھٹو کو بحفاظت بلاول ہاؤس
منتقل کیا گیا بے نظیر بھٹو اپنے بچوں سے ملاقات کرنے دبئی گئیں لیکن
3نومبر کو ایمرجنسی کے نفاذ کا سنتے ہی وطن وپسی لوٹیں اور ٹی وی چینلز
،ریڈیو اسٹیشن اور ہر فورم پر سپریم کورٹ کے ججز کی بحالی کا مطالبہ کیا
اور فوجی حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز کیا اسی عرصے کے دوران نگران حکومت
بن چکی تھی جس کے نتیجے میں مختلف پارٹی اپنے اپنے امیدوار لا رہی تھی اس
صورت حال میں پیپلز پارٹی نے میدان میں اپنے امیدوار بھی ہر حلقے سے کھڑے
کر دیے 27دسمبر 2007کو بے نظیر بھٹو انتخابی عمل کے دوران لیاقت باغ میں
ایک بڑے اجتماع سے خطاب کر کے اپنی اگلی منزل کی جانب رواں دواں ہوئیں تو
کارکنان بے نظیر سے اپنی محبت کا اظہار نعرے لگا کر کر رہے تھے جس کو سنتے
ہی بے نظیر نے اپنے کارکنان کو داد دینے کا ارادہ کیا اور گاڑی کی چھت سے
ہاتھ ہلا کر جواب دینا شروع کیا لیکن ابھی زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ ایک
نامعلوم شخص نے بے نظیر پر فائرنگ کر دی اور کچھ ہی فاصلہ پر موجود خودکش
بمبار نے اپنے آپ کو اُڑا لیا گاڑی کے ڈرائیور نے کسی اور خطرے کو دیکھے
بغیر گاڑی کو راولپنڈی جنرل ہسپتال کی جانب بھگا دیا لیکن ذوالفقار علی
بھٹو کی صاحبزادی اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم اور دختر پاکستان
کا لقب پانے والی بے نظیر بھٹو زخموں کے تاب نہ لاتی ہوئی دنیا فانی سے کوچ
کر گئیں ان کی وصیت کے مطابق پیپلز پارٹی کا سربراہ ان کے صاحبزادے بلاول
زرداری کو بنا دیا گیا پیپلز پارٹی نے حکومت بننے کے بعد بے نظیر قتل کیس
کی تحقیقات اپنے پرانے مطالبے کے مطابق اقوام متحدہ سے کروانے کا مطالبہ
کیا جس کو قبول بھی کر لیا گیا آصف علی زرداری نے اپنے ایک بیان میں یہ بھی
کہا تھا کہ "ہم جانتے ہیں کہ بی بی شہید کا قاتل کون ہے"لیکن دوسری برسی کے
موقع پر ایسا بیان پھر نہیں آیا مرزا اسلم بیگ کے مطابق بے نظیر کو بلیک
واٹر نامی تنظیم نے قتل کروایا کچھ مبصرین اور حلقوں میں یہ تاثر بھی عام
ہے کہ بے نظیر کو ڈاک چینی( سابق نائب صدر امریکہ )نے قتل کروایا لیکن کچھ
کا خیال ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کیونکہ بے نظیر کے قتل سے امریکہ کو شدید
نقصان پہنچا ہے تاہم جو کچھ بھی تھا یہ تو اﷲ تعالی کی ذات بہتر جانتی ہے
کہ اس قتل میں کون ملوث تھا ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ وطن عزیز ہی نہیں
اسلامی دنیا کی ایک اہم خاتون رہنما ہم سے جدا ہو گئی اﷲ تعالی انکے درجات
کو بلند کرے آمین ٭ |