سانحہ نہیں ٹلتا سانحے پہ رونے سے

پاراچنار میں گزشتہ دنوں ایک اور سانحہ رونما ہوا جس میں ۷۵ سے زائد افراد کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے اس سے پہلے بھی اس چھوٹے سے قصبے میں بیسیوں ایسے سانحات رونما ہو چکے ہیں جن میں مقامی لوگوں کی ایک بڑی تعداد موت کا شکار ہو چکی ہے ذرا آپ ہمارے حکمرانوں اور ہمارے محافظوں کی اہیلیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ محض پچاس ہزار آبادی والے قصبے پارا چنار کو دہشت گردوں سے محفوظ بنانے میں ناکام رہے ہیں اس بے وارث اور مظلوم قصبے میں پے در ب=پے سانحات بتاتے ہیں کہ یہ سانحہ بھی آخری ثابت نہیں ہو گا کچھ عرصے بعد ایک اسی طرح کا ایک اور سانحہ رونما ہو گا اور ہمارے محافظ اور حکمران وہی گھسے پٹے الفاط دہرا رہے ہوں گے۔

زندگی اور موت کا سفر ازل سے جاری ہے ہر ذی روح کو بالاخر موت کا مزا چکھنا ہے لیکن بعض اموات ایسی ہوتی ہیں جو غیر معمولی صدمے سے دوچار کر دیتی ہیں وطن عزیز پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ حضرت قائد اعطم محمد علی جناح کی وفات کے بعد نا اہل حکمرانوں نے پاکستان کو"سانحوں" کی سرزمین بنا دیا ذرا تاریخ میں نگاہ دوڑائیں تو پاکستان کی تاریخ صدمات اور سانحوں کے ذکر سے بھری پڑی ہے تاریخ سے کسی کو کیا لینا دینا آپ ذرا گزشتہ ایک سال پر نظر ڈال لیں تو واضح ہو جائے گا کہ پاکستان کو کس طرح دہشت گردوں اور نا اہل لوگوں کے سپرد کر دیا گیا ہے چلیں ایک سال کو چھوڑیں گزشتہ ایک مہینے یا ایک ہفتے کا ہی جائزہ لے لیں ایک سے بڑھ کر ایک سانحہ رونما ہوتا چلا جا رہا ہے کہ لیکن ہم ہیں کہ مزید بے حس سے بے حس ہوتے چلے جا رہے ہیں پشاور آرمی سکول کا سانحہ رونما ہوا تو کہا گیا کہ اس سانحے کے بعد پوری قوم متحد ہے اور دہشت گردوں کا آخری دم تک پیچھا کیا جائے گا۔

لیکن بدقسمتی کہیئے کہ یہ سانحہ آخری ثابت نہ ہوا اور سانحے پہ سانحہ رونما ہوتا رہا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ سب سے بڑی بدقسمتی تو یہ ہے کہ ہر سانحے کے بعد نا اہل حکمران وہی بیانات دہرا دیتے ہین جن کے مطابق دہشت گردوں کا آخری دم تک پیچھا کیا جاتا ہے لیکن وہ دوبارہ واپس آ جاتے ہیں اور قوم کو نئے سانحے سے دوچار کر کے چلتے بنتے ہیں اور اسی طرح یہ ڈرامہ پورا سال چلتا رہتا ہے ابھی حال ہی میں کوئٹہ اور پاراچنار میں بے گناہوں کو آگ و خون مین نہلا یا گیا لیکن ناہل حکمرانوں کی طرف سے وہی پرانا بیان اور بس

پاراچنار میں گزشتہ دنوں ایک اور سانحہ رونما ہوا جس میں ۷۵ سے زائد افراد کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے اس سے پہلے بھی اس چھوٹے سے قصبے میں بیسیوں ایسے سانحات رونما ہو چکے ہیں جن میں مقامی لوگوں کی ایک بڑی تعداد موت کا شکار ہو چکی ہے ذرا آپ ہمارے حکمرانوں اور ہمارے محافظوں کی اہیلیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ محض پچاس ہزار آبادی والے قصبے پارا چنار کو دہشت گردوں سے محفوظ بنانے میں ناکام رہے ہیں اس بے وارث اور مظلوم قصبے میں پے در ب=پے سانحات بتاتے ہیں کہ یہ سانحہ بھی آخری ثابت نہیں ہو گا کچھ عرصے بعد ایک اسی طرح کا ایک اور سانحہ رونما ہو گا اور ہمارے محافظ اور حکمران وہی گھسے پٹے الفاط دہرا رہے ہوں گے۔

ہم کتنے بے حس ہو چکے ہیں پاکستان کا کوئی علاقہ بتا دیجئے کہ جہاں دہشت گردی کا واقعہ رونما نہ ہوا ہو کوئی ایسا فرقہ یا مذہب بتا دیجئے جس کے پیروکار ایک خاص مکتب فکر کے دہشت گردوں کے ظلم کا نشانہ نہ بنے ہوں حتی بعض معتدل وہابی شخصیات کو بھی شدت پسند تکفیریوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا لیکن اس سب کچھ کے باوجود جب کبھی کسی خاص مکتب فکر کو ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو اسی مکتب کے لوگ احتجاج کرتے نظر آتے ہیں اور باقی سارے خود کو محفوط سمجھتے ہوئے خاموشی کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔

پاراچنار کے سادہ لوح محبت و ایثار کے جذبے سے لبریز اور اخلاق کے پیکروں کا گناہ صرف یہ ہے کہ یہ لوگ شیعہ ہیں اسی لئے ہمیشہ ان کو تکفیریوں کے ظلم کا نشانہ بننا پڑتا ہے تازہ سانحہ کے وقوع کے بعد صرف شیعہ لوگ مختلف دھرنوں میں حکومت سے امن و امان کے قیام کا مطالبہ کرتے رہے پاکستان میں بسنے والے تمام مکاتب اور مذاہب کے لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ جب ایک نام نہاد خود ساختہ امیر المومنین نے پاکستان میں شیعوں کی نسل کشی کا سلسلہ شروع کیا تو اول تو شیعہ ہی طالبان کے ظلم کا نشانہ بنے لیکن گزشتہ دھائی میں پوری دنیا نے دیکھ لیا کہ ان بھیڑیوں نے نا صرف شیعہ بلکہ تمام مکاتب کے لوگوں کو ظلم کا نشانہ بنایا سو پارا چنار جیسے سانحے کو معمولی قرار دے کر چپ سادھ لینا کوئی عقل مندی نہیں اسی طرح کسی بھی سانحےپر آنسو بہا لینا کافی نہیں اس سے کسی بھی نئے سانحے کا راستہ نہیں روکا جا سکتا بلکہ پاراچنار جیسے سانحات کو وقوع پذیر ہونے سے روکنے کے لئے من حیث القوم سب مکاتب کو اپنے حقوق کے لئے اٹھنا ہو گا۔
ورنہ بقول پیرزادہ قاسم
سانحہ نہیں ٹلتا سانحے پہ رونے سے

سحر سید
About the Author: سحر سید Read More Articles by سحر سید: 4 Articles with 2485 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.