ولادت حضور اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان فاضل بریلوی رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ

(آج10؍شوال المکرم آپؒ کی یوم ولادت پرخصوصی تحریر)

اولیاء کرام کاورودمسعودبیشتران ہی مقامات وعلاقوں میں ہواکرتاہے جہاں کفروشرک ،گمراہی،بدمذہبی،بے حیائی،دین حق سے دوری،سنت رسول کے خلاف ورزی اورمعصیت عروج پرہوایسی جگہوں پراولیاء اﷲ اپنے قدم رنجہ فرماکرلوگوں کے قلوب واذہان میں سنتِ رسول کوعام اورمحبت مصطفی ﷺکاچراغ روشن کرتے ہیں اورکیوں نہ ہوں جبکہ ان کامقصدزیست ہی یہی ہے،ان کی زندگی کامقصدالحب فی اللّٰہ والبغض فی اللّٰہ ہے،اسی سلسلۃ الذہب کی ایک اہم کڑی حضوراعلیٰ حضرت ،عظیم البرکت ،امام اہلسنت،مجدددین وملت،پروانہ ٔ شمع رسالت،عالم شریعت،واقف اسرارحقیقت ،مخزن علم وحکمت،امام عشق ومحبت،پیکررشدوہدایت،عارف شریعت وطریقت،تاجدارولایت،شیخ االاسلام والمسلمین،سراج الفقہاوالمحدثین،زبدۃ العارفین والسالکین،تاج المحققین،سراج المدققین،حامی السنن،ماحی الفتن ،بقیۃ السلف،مجدداعظم امام احمدرضاخان فاضل بریلوی قدس سرہٗ العزیز کی ذات بابرکات ہے۔آپ قدس سرہ العزیزکی ذات گرامی محتاج تعارف نہیں،ہرسنی صحیح العقیدہ شخص خواہ وہ عوام میں سے ہویاخواص سے اپنے اعتبارسے آپ کے تجدیدی وعلمی کارناموں سے بحسن وخوبی واقف ہے۔آپؒکے جداعلیٰ سعیداﷲ خان قندھارکے قبیلہ بڑہیچ کے پٹھان تھے۔مغلوں کے دورمیں ہندوستان تشریف لائے اورمعززعہدوں پرفائز رہے ۔ان کے بیٹے سعادت یارخان حکومت کی جانب سے ایک جنگی مہم سرکرنے روہیل کھنڈآئے۔فتح یابی کے بعدان کایہیں انتقال ہوااس کے بعدان کے صاحبزادے اعظم خان نے بریلی آکرسکونت اختیارکرلی۔کاظم علی خان بدایوں کے تحصیلداران ہی کے بیٹے تھے۔

ان کے بیٹے رضاعلی خان (متوفی1282ہجری)تھے۔یہ اپنے وقت کے قطب اورولی کامل اورروہیل کھنڈکے بزرگ ترین علماء میں تھے ۔اس خاندان میں انہیں کے زمانے سے دنیوی حکمرانوں کادورختم ہوا۔اورفقرودرویشی کارنگ غالب آیا۔ان کے صاحبزادے حضرت مفتی نقی علی خان ؒ(متوفی1297ہجری)علوم ظاہری وباطنی دونوں سے متصف جلیل القدرعالم دین تھے۔

حضوراعلیٰ حضرت عظیم البرکت ،مجدددین وملت،امام عشق ومحبت امام احمدرضاخان فاضل بریلوی قدس سرہٗ العزیزانہیں (یعنی حضرت مفتی نقی علی خان ؒ)کے صاحبزادے ہیں۔آپؒ کی ولادت باسعادت بریلی شریف میں 10؍شوال المکرم 1272ہجری مطابق 14؍جون 1856 ؁ء شنبہ کے دن ظہرکے وقت ہوئی۔یعنی انقلاب 1857 ؁ء سے ایک سال قبل ایک فکری انقلاب کابے باک نقیب دنیامیں تشریف لایا۔آپ ؒکا اسم شریف محمدرکھاگیا۔اورتاریخی نام’’المختار‘‘جدامجدرضاعلی خان علیہ الرحمہ نے آپ ؒکا نام احمدرضاتجویز فرمایا۔آپ نے خوداس آیت کریمہ سے اپناسنہ ولادت نکالاہے۔’’اولٰئک کتب فی قلوبہم الایمان وایدیہم بروح منہ‘‘ترجمہ:یہ ہیں وہ جن کے دلوں میں اﷲ تعالیٰ نے ایمان نقش فرمایاہے اوراپنی طرف کی روح سے ان کی مدد فرمائی ہے ۔آپ کے زمانۂ طفولیت کے واقعات کوسامنے رکھاجائے توحضرت شیخ سعدی شیرازی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کاوہ شعریادآتاہے کہ!
بالائے سرش زہوش مندی
می تافت ستارہ بلندی

آپ نے چارسال کی عمرشریف میں قرآن کریم کاناظرہ ختم کیا۔اورچھ سال کی عمرشریف میں ربیع الاول شریف کے موقع پربہت بڑے مجمع کے سامنے مسلسل پونے دوگھنٹے نفیس اندازمیں تقریرفرمائی ۔آٹھ سال کی عمرشریف میں درسی کتاب ’’ہدایۃ النحو‘‘کی شرح تصنیف فرمائی جوآپ کی سب سے پہلی تصنیف ہے۔دس سال کی عمرمبارک میں درس نظامیہ کی مشہورومعرف کتاب مسلم الثبوت پرحاشیہ لکھا۔اورچودہ سال کی عمرمبارک میں فارغ التحصیل ہوگئے ۔عربی ،فارسی کی ابتدائی کتب مرزاغلام قادربیگ سے پڑھی۔شرح چغمینی کے چنداسباق مولاناعبدالعلی رامپوری سے پڑھی جوعلم ہئیت میں بہت مشہورتھے۔علم جفروتکسیرحضرت سیدشاہ ابولحسین احمدنوری مارہروی سے حاصل کیا۔اور5؍جمادی الا ُخریٰ 1294ہجری مطابق 17؍جون 1877؁ء کوآپ حضورپرنورمولاناسیدآل رسول مارہروی قدس سرہٗ العزیز سے مریدہوئے اورحضرت مُرشدگرامی سے باطنی تعلیم حاصل فرمائی۔اورباقی جمیع علوم عقلیہ ونقلیہ والدماجدحضرت علامہ مفتی نقی علی خان صاحب قدس سرہٗ العزیزسے حاصل کئے۔14؍شعبان المعظم کو آپ نے فراغت حاصل کی ۔آپ فرماتے ہیں کہ جس دن میں فارغ ہوااسی دن مجھ پرنماز فرض ہوئی اسی دن رضاعت کے مسئلہ کاجواب لکھ کروالدماجدکی خدمت میں پیش کیا جوبالکل صحیح تھا۔والدمحترم نے اسی دن سے ہی فتویٰ نویسی کاکام آپ ؒکوسپردفرمادیا۔آپ ؒ کی تصانیف تقریباً پچاس فنون میں ہیں جن کی تعدادایک ہزارکے قریب ہے۔اورآپ نے علوم ومعارف کے وہ دریابہائے کہ تلامذہ ومعتقدین کاتوکہناہی کیابلکہ معاصرین ومخالفین بھی یہ کہنے پرمجبورہوگئے کہ آپ ؒقلم کے بادشاہ ہیں۔انہیں چیزوں سے متاثرہوکرعلماء عرب وعجم نے بالاتفاق آپ ؒکوچودہویں صدی ہجری کامجدداعظم تسلیم کیا ۔اورحرمین شریفین زادہمااﷲ شرفاوتکریماً کے مشائخ عظام وعلماء کرام نے معزز القابات وخطابات سے نوازاجوآج بھی اہل حق کے نزدیک ایک مسلم حقیقت ہے۔
ذی الحجہ
1296 ہجری مطابق دسمبر1878 ؁ء میں پہلی مرتبہ آپ نے حج ادافرمایااورمدینہ طیبہ پہنچ کرسرکارمصطفیٰ ﷺ کی بارگاہ اقدس میں حاضری دی۔ پھردوسراحج ذی الحجہ 1323ہجری مطابق فروری 1906؁ء میں اداکیا آپ نے ڈھائی ماہ مکہ شریف میں قیام فرمایاپھرربیع الاول 1324 ؍ہجری مطابق اپریل 1906؁ ء میں سرکاراعظم پیارے مصطفیٰ ﷺ کی بارگاہ عالیہ میں حاضرہوئے ایک ماہ تک مدینہ طیبہ میں رہ کربارگاہ رسالت کی زیارت کرتے رہے۔مکہ معظمہ اورمدینہ طیبہ کے بڑے بڑے علماء آپ کے علمی کمالات اوردینی خدمات کودیکھ کرآپ کے نورانی ہاتھوں پرمریدہوئے اورآپ کواپنااستادوپیشوامانا۔ اوراسی مرتبہ ’’الدولۃ المکیہ ‘‘نامی کتاب علم غیب مصطفی ﷺ کے ثبوت میں مکہ مکرمہ میں صرف آٹھ گھنٹے کے اندرتصنیف فرمائی۔آپ نے ہوش سنبھالنے کے بعداپنی ساری زندگی اسلام کی خدمت اورسنیت کی نشرواشاعت میں صرف فرمائی ۔تقریباًایک ہزارکتابیں لکھیں جن میں ’’العطایاالنبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ‘‘ بہت ہی ضخیم کتاب ہے جوقدیم نسخے کے حساب سے 12؍جلدوں پرمشتمل ہے اورجدید نسخے مع ترجمہ30 ؍جلدوں پرمشتمل ہے۔آپ نے قرآن کریم کاصحیح ترجمہ اردوزبان میں فرماکرلوگوں پربہت بڑااحسان فرمایا۔آپ کوجملہ علوم عقلیہ ونقلیہ میں مہارت کے ساتھ ساتھ شعرگوئی میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔لیکن آپ کی شاعری لغویات وخرافات سے بالکل پاک وصاف ہوتی۔حمدباری تعالیٰ ونعت سرورکونین ﷺاوراولیاء کرام کی تعریف وتوصیف آپ کی شاعری میں پائی جاتی ہے اورعشق رسول ﷺآپ کاخاص موضوع تھا۔عام شاعروں کی طرح دنیوی حاکموں کی تعریف میں آپ نے کبھی کوئی شعرنہیں لکھا۔ایک مرتبہ نانپارہ کے حاکم کی تعریف میں قصیدہ لکھنے کے لئے کہاگیاتوآپ ؒ نے یہ شعرتحریرفرمایا!
کروں مدح اہل دول رضاؔ پڑے اس بلا میں میری بلا
میں گداہوں اپنے کریم کامیرادین پارۂ نان نہیں

آپ کے اشعارمیں سوزوگداز،کیف وجذب،فصاحت وبلاغت،جوش وبیان اورپاس شریعت غرض کہ آپ کے کلام میں ہرطرح حسن صوری ومعنوی بدرجۂ اتم موجودہے ۔احکام شریعت کااس طرح لحاظ وپاس آپ کے کلام میں پایاجاتاہے کہ کوئی شعرقرآن وحدیث کے خلاف ثابت نہیں کرسکتابلکہ خودآپ فرماتے ہیں کہ میں نے قرآن کریم سے ہی نعت گوئی سیکھی ہے۔آپ کے نعتیہ کلام کا مجموعہ’’حدائق بخشش‘‘کوجام کوثرکہاجائے تویقینابجاہوگا۔آپ کانعتیہ کلام اہل ایمان ومحبت کے سازوروح کادل نواز نغمہ معلوم ہوتا۔یہی وجہ ہے کہ ذوق سلیم رکھنے والے آپ کاکلام سن کرجھوم جاتے ہیں۔حضورمحدث اعظم ہندعلیہ الرحمۃ والرضوان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ لکھنؤ کے ادیبوں کی شاندارمحفل میں اعلیٰ حضرت کا’’قصیدۂ معراجیہ ‘‘میں نے اپنے اندازمیں پڑھاتوسب جھومنے لگے میں نے اعلان کیاکہ اردوادب کے نقطۂ نظرسے میں ادیبوں کافیصلہ اس قصیدہ کی زبان کے متعلق چاہتاہوں ۔توسب نے کہاکہ اس کی زبان توکوثرکی دھلی ہوئی زبان ہے۔اسی قسم کاایک واقعہ دہلی میں بھی پیش آیا،توسب نے کہاکہ ہم سے کچھ نہ پوچھئے آپ پڑھتے رہئے اورہم عمربھرسنتے رہیں۔آپ نے 25؍صفرالمظفر1340؍ہجری مطابق 28؍اکتوبر1921؁ء کوجمعہ کے دن دوبجکراڑتیس منٹ پروصال فرمایا(اناﷲ واناالیہ راجعون)۔آپ کامزارمبارک شہربریلی شریف کے محلہ سوداگران میں مرجع خلائق ہے۔مولیٰ تعالیٰ ہم سب کوآپ کے فیوض وبرکات سے مالامال عطافرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین۔

Md Sadre Alam Misbahi
About the Author: Md Sadre Alam Misbahi Read More Articles by Md Sadre Alam Misbahi: 87 Articles with 87396 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.