مجدداسلام ا علیٰ حضرت امام احمد رضا قادری برکاتی
محدث بریلوی کی ولاد ت ۷۲ ۱۲ھ/ ۱۸۵۶ء میں ہوئی اور وصال ۱۳۴۵ھ/ ۱۹۲۱ء میں
ہوا ۔امام احمد رضا علیہ الرحمۃ والرضوان ایسی قابل رشک اور صد افتخار
شخصیت کا نام ہے جو علم و دانائی ، عبادت وریاضت ، زہد وتقوی ، صبر وقناعت
، عاجزی و انکساری کے بحر بیکراں تھے ۔آپ نازشِ مذہب وملت ،مینارِنورِعلم
اور فانوسِ رُشدو ہدایت ہے۔ آپ کی ذات مبارکہ علم و مشاہدہ ،فقہ وتدبر کا
ایسا عمیق سمندر ہے جس میں غوطہ لگانے والا ہل من مزید کا نعرہ بلند کر تا
دکھا ئی دیتا ہے ۔محا فظ کتب حرم حضرت علامہ شیخ سید اسماعیل بن خلیل مکی
رحمۃ اﷲ تعا لی علیہ آپ کی علمی تحقیقات اور فقہی جواہر پاروں کو دیکھ کر
پکار اُٹھے: (تر جمہ)قسم بخد ا!میں با لکل سچ کہتا ہوں اگر امام ا عظم
نعمان بن ثابت ابو حنیفہ رضی اﷲ تعا لیٰ عنہ آپ کا فتاویٰ ملاحظہ فرماتے تو
ان کی آنکھیں ٹھندی ہو تی اور اس کے مؤلف (امام احمد رضا ) کو اپنے خاص
شاگر دوں میں شامل فر ما تے ‘‘۔(الاجازۃالمتینہ لعلماء بکہ والمدینہ
،ص؍۱۰۷) مولا نا کوثر نیا زی تحقیقات ِرضویہ کی شان بیان کر تے ہوئے فرماتے
ہیں : ’’میں نے جو آپ کو امام ابو حنیفہ کا ثانی کہا ہے وہ صرف محبت میں یا
عقیدت میں نہیں بلکہ فتاو یٰ رضو یہ کا مطالعہ کر نے کے بعد یہ بات کہہ رہا
ہوں کہ آپ اس دور کے ابو حنیفہ ہیں ۔آپ کے فتاویٰ میں مختلف علوم و فنون پر
جو بحث کی گئی ہیں ان کو پڑھ کر بڑے بڑے علما کی عقل دنگ رَہ جاتی ہے ۔کاش
کہ اعلیٰ حضرت کی حیات اس دور کو میسر آجاتی تاکہ آج کل کے پے چیدہ مسائل
حل ہو سکتے کیونکہ آپ کی تحقیق حتمی ہوتی ،اس کے آگے مزید گنجائش نہ ہوتی
۔‘‘( امام احمدرضا،ص؍۳۳ )
مولانا ابو زہرہ رضوی علو م ِرضا پر تحقیق کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :
’’ابتداء کہا گیا کہ آپ پچاس علوم کے متبحر عالم تھے ۔پھر یہ تعداد ۶۰؍ پر
پہنچی، پھر ۷۵؍ علوم کے چرچے ہوئے ۔مزید تحقیق ہوئی تومعلوم ہوا کہ آپ کے
علوم کی تعداد ۱۱۴؍ہے ۔اب گذشتہ چند سالوں سے جدید انداز سے علومِ رضاپر
ریسرچ کا کام شروع ہواہے ،اس کے مطابق اعلیٰ حضرت کے علوم کی تعداد۲۰۰؍سے
متجاوزہوکر ۳۵۵؍کے قریب پہنچ رہی ہے۔‘‘ (امام احمدرضاخدمات واثرات،ص:۱۲)
ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی سرکار اعلیٰ حضرت کے مشہور رسالے ’’فوزمبین در رد
حرکت زمین‘‘کے مقدمہ میں تحریرفرماتے ہیں کہ:’’مشہور میٹرولوجسٹ البرٹ ایف
پورٹانے اپنے فلکی علوم کے ظن باطن میں یہ پیش گوئی کی تھی کہ ۱۷؍دسمبر
۱۹۱۹ء کو ستاروں اور قوت جاذبہ کے جمع ہونے کی وجہ سے دنیامیں زلزلہ آئے
گا۔جس کے نتیجہ میں دنیاایک قیامت صغریٰ سے دوچار ہوگی اور اس کے بعض اطراف
ہلاک ہوجائیں گے۔پورٹاکی اس پیشن گوئی سے پوری دنیاخاص طورپر ریاست ہائے
متحدہ امریکہ میں ایک طوفان برپاہوگیاتھا۔لیکن اس کی خبر جب امام احمدرضا
کو پہنچی توآپ نے پورٹاکی پیشن گوئی کا انہیں فلکی علوم کی روشنی میں
رَدفرمایاجن کے ظن میں اس نے پیش گوئی کی تھی اور اس کے رَد میں ایک رسالہ
بنام ’’معین مبین بہر دورشمس وسکون زمین‘‘ (۱۳۳۸ھ۱۹۱۷ء)تصنیف فرمایاحتی کہ
وہ دن آ ہی گیا جس کی جانب پورٹانے اشارہ کیاتھااور وہی ہواجوامام احمد
رضانے فرمایاتھا۔میٹرولوجسٹ کے جھوٹے علم کا دعوی جھوٹاہوااور امام کی سچے
علم کی حقانیت ثابت ہوگئی ‘‘۔(مقدمہ فوزمبین درردحرکت زمین، ص:۱۵)
امام احمدرضا کی نثر نگاری کے حوالے سے حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی
علیہ الرحمہ تحریر کرتے ہیں: ’’آپ کے لکھے ہوئے صفحات کی تعداد ایک لاکھ
بیس ہزارسے زیادہ ہے اور بعض محققین کے مطابق یہ تعدادسولہ لاکھ تک پہنچتی
ہے ۔‘‘(امام احمدرضاخدمات واثرات،ص:۱۴) آپ کی تحریرمیں اس قدر موادہوتاہے
کہ محقق عصر علامہ محمد احمد مصباحی صدر المدرسین الجامعۃ الاشرفیہ مبارک
پور کے بقول :’’اعلیٰ حضرت کے لکھے ہوئے ۲۰؍صفحات بڑے بڑے مصنفین کے ۲۰۰؍صفحات
پر بھاری ہوتے ہیں۔‘‘ممتازدانش ور کوثر نیازی نے تویہاں تک کہاتھاکہ’’اعلیٰ
حضرت کی بعض محققانہ تصانیف اس بلند معیار کی ہیں کہ ان کا ایک ایک صفحہ
موجودہ دور کے ذوق اور ضرورت کے مطابق (مالہ وماعلیہ کے ساتھ)پیش کیاجائے
توایک ایک کتاب تیار ہوجائے۔‘‘دراصل اعلیٰ حضرت کی عظمت یہی ہے کہ آپ نے
جوکچھ لکھاضرورت کے تحت لکھا،جتنالکھاانفرادی شان اورمخصوص طرزتحقیق میں
لکھا۔جبراًدیگر مصنفین کی طرح اوراق کو سیاہ نہ کیا بلکہ موضوع وہ منتخب
کیے جو کسی نے نہ چھوئے تھے ۔اس لیے ان کا ہر فرمان مستند،ہرتحقیق معتبراور
ہر تحریر معیاری ہے۔
رئیس القلم علامہ ارشدالقادری علیہ الرحمہ ملت کو پیغام دیتے ہوئے فرماتے
ہیں:’’اپنی تلخ نوائی کی معذرت چاہتے ہوئے اس مقا م پر یہ کہے بغیر نہیں
رَہ سکتاکہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی نے ہمیں لوح وقلم کاوارث بنایاتھااور ہم
نصف صدی سے منبر کی طرف دوڑ رہے ہیں ،اس کاانجام یہ ہے کہ اب اہل قلم ہماری
جماعت میں نہیں پیداہورہے ہیں ،کسی مفکر کودیکھنے کے لیے ہماری آنکھیں ترس
گئی ہیں ۔دنیاکاکوئی مذہب بھی ہوامیں تحلیل ہوجانے والے الفاظ کی بنیاد پر
زندہ نہیں رہاہے جب تک اس کی پشت پر فکر انگیز لٹریچر نہ ہو،نہ اسے استحکام
حاصل ہوسکتاہے اور نہ وہ نسلوں میں منتقل ہوسکتاہے ۔‘‘امام احمدرضاکی قلمی
خدمات کومنظر عام پر لانااس دور کااہم تقاضاہے ۔اے کاش!اُمت مسلمہ کے
باشعور افراد اس طرف مزید توجہ کریں ۔
٭٭٭ |