مسلم لیگ “ن“ کا محتاط رویہ

دنیا کی جمہوریت کا مطالعہ کر نے سے پہلے وہاں کی تہذیب و تمدن خصوصاً وہاں کی معشیت اور خواندگی کا مطا لعہ کر لیا جا ئے تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اچھی سے اچھی آمریت سے بری سے بری جمہوریت بہتر ہے اور جمہوریت ہی بہترین بدلہ ہے اور اس وقت یعنی مطالعہ کے بعد ہم ہر طرح سے جمہوریت کو غلط نہ کہتے تھے اور نہ آئندہ کبھی کہیں گے لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے بارے میں بارے بات کریں جس کا پیدا ہو نے والا ہر بچہ سینکڑوں ڈالرز کا مقروض ہے جس کے سرکاری ادارے ایڈمنسٹریشن کی بجا ئے سیا ستدانوں کے اشارے پر چلتے ہیں جس میں ہر عام و خاص اعلیٰ افسر کو لوٹ مار یعنی کرپشن کی سو فیصد چھوٹ ہے اور اگر ”غلطی“سے کسی افسر کی کرپشن منظر عام پر آ بھی جا ئے تو اس آفیسر کو تحفظ دینے کے لئے ہر جا ئز و ناجا ئز حربہ استعمال کرنا شاید سیاستدانوں کی اولین تر جیح ہو تا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایسے ترقی پذیر ملک میں ما ضی کی حلیف کو حریف بنتے اور حریف کو حلیف بنتے ایک منٹ بھی نہیں لگتا یہ سب اسی وجہ سے ہو تا ہے کہ یہاں قومی مفادات کی بجا ئے ذاتی مفادات کو فوقیت حاصل ہے جس کی واضح مثال این آ ر او سے فیضیاب ہو نے والوں کی لمبی لسٹیں اور کرپشن میں ملک پاکستان کی ترقی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی واضح مثال ”متحدہ مسلم لیگ“کے قیام کا اعلان ہونا اور اس کے پہلے صدر و چیئرمین سمیت دیگر اراکین کے نام سا منے آ نا کو ئی حیرت کی بات نہیں اور مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق کو شا مل کر نے اور انہیں سا تھ ملانے کی بھی دعوت دینا کو ئی انہونی بات نہیں اور نہ ہی یہ سیاست کا حرف آ خر ہے لیکن سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ متحدہ مسلم لیگ کے قیام کے فوراً بعد مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق کو اس میں شامل ہو نے کے لئے ہمارے بعض مبصرین اتنے بے چین نظر کیو ں آ تے ہیں اور جو پا رٹیاں پہلے سے اپنا وجود برقرار رکھتی ہیں انہیں متحدہ مسلم لیگ میں زم کر نے کا کیوں سوچ رہے ہیں کیو نکہ مسلم لیگ ن اب پہلے سے کہیں زیادہ نظریات کے ساتھ ملک کی دوسری پارٹی بن چکی ہے اور اس کے قا ئدین سمیت اس کا ہر ممبر ،رکن اور خصوصاً پا رٹی ورکر کی ایک اپنی شنا خت بن چکی ہے اور یہی کچھ مسلم لیگ ق میں ہے کیا ان پارٹیوں کے وجود کو ختم کر کے ہم جمہوریت کو پروان چڑھا نے کا سوچ سکتے ہیں؟اگر یہ دو بڑی مسلم لیگیں کام کر رہی ہیں اور عوامی مقبولیت میں بھی متحدہ مسلم لیگ سے کہیں آگے ہیں اور ان پارٹیوں کی طرف سے ایک ترقیاتی گراف عوامی حلقوں میں مو جود ہے۔ تو یہ کیسے متحدہ مسلم لیگ میں شامل ہو سکتی ہیں؟ اب باری اور بال متحدہ مسلم لیگ کے کور ٹ میں ہے کہ وہ اپنی نئی اصلا حات کی بنا ء پر عوامی مقبولیت حاصل کر ے اور ملک پاکستان کے ہر کو نے سے اپنے حما یتی پیدا کر کے انہیں ایک نئی شناخت دے اگر تو متحدہ مسلم لیگ اپنے اس ایجنڈے پر کامیاب ہو تی ہے اور لوگوں کی فلا ح و بہبود کے لئے کام کر تی ہے تو یقیناً مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق کبھی بھی متحدہ مسلم لیگ کی مخالفت نہیں کر یں گی اور اگر متحدہ مسلم لیگ کام کر کے دیکھا ئے تو مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق یقیناً ان کے شا نہ بشا بہ ہو نگی اور مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق کی یقیناً متحدہ مسلم لیگ سے ایسی ہی تو قع رھے گی اس سے ایک فا ئدہ یہ ہو گا کہ جو مفاد پر ست سیاستدان ایک پار ٹی سے دوسری پارٹی اور دوسری سے تیسری میں جاتے ہیں ان کا راستہ بند ہو جا ئے گا اور ملک پاکستان کی عوام اور اداروں کو نئی لیڈر شپ بھی میسر آئے گی چا ہے وہ متحدہ مسلم لیگ کا پلیٹ فارم ہو یا مسلم لیگ ن یا مسلم لیگ ق کا پلیٹ فارم ہو۔ ہمیں تمام مسلم لیگوں کو اکٹھا کر نے کی بجا ئے انہیں علیحدہ علیحدہ اس لئے بھی رکھنا ہو گا کہ کہیں ان میں سے اگر ایک غلط کام کر ے تو دوسری جماعتیں نظریہ وقت یعنی منافقت نہ کر نے لگ جا ئیں جس سے پہلے کی طرح نقصان تو ہو تا رہے گا لیکن پار ٹی کا نقصان نہ ہو گا اور اس موجود وقت میں مسلم لیگ ن نے جو محتا ط رویہ اپنایا رکھا ہے اسے نہ صرف پارٹی میں بلکہ عام عوامی حلقوں نے بھی بے حد سراہا ہے اور اپنے قائد سے آئندہ بھی ایسے فیصلوں کی توقع کی ہے جس سے پارٹی ورکر زکا وقار مجروح نہ ہو کیو نکہ متحدہ مسلم لیگ سے اتحاد ہو نے کی صورت میں سیٹ ایڈجسٹ منٹ اور پار ٹی عہدہ میں بہت سا رے ورکرز کا وقار مجروح ہو تا ہے جو سالہا سا ل سے اپنی سیا سی وفاداریاں نبھا رہے ہو تے ہیں اور اس دور میں جسے سا ئنسی دور جسے معاشی دور جیسے میڈیا کا دور جسے عدل کا دور جیسے القا بات سے یاد کیا جا رہا ہے وہاں سے ایسے فرسودہ اتحاد جیسی قبا حتیں ختم ہو نے سے یقیناً ایک نیا سورج یعنی نوجوان قیادت کو موقع ملے گا جو اقبال کے شاہین کا کردار ادا کر نے میں پیش پیش ہو گا ہم اس مو قع پر مسلم لیگ ن کے قا ئد کو ناصرف مبارکباد بلکہ خراج تحسین پیش کر تے ہیں جنہوں نے مسلم لیگ ن کی نئی لیڈر شپ کی بنیاد رکھ دی ہے جس کی یقینا دوسری پار ٹیاں بھی تقلید کر یں گی اور آ نیوالا وقت ان پارٹیوں کے سربراہوں کو سلام پیش کر ے گا جو ذاتی مفاد کی بجا ئے عوامی مفاد کو تر جیح دے رہے ہیں ایسے میں مسلم لیگ ق بھی اپنا وجود ختم کر نے کی بجائے مسلم لیگ ن کی طرح محتا ط رویہ اپنا ئے اسی میں اس کی بقاء ہے۔
Muhammad Waji Us Sama
About the Author: Muhammad Waji Us Sama Read More Articles by Muhammad Waji Us Sama: 118 Articles with 130201 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.