دومتلاطم دریاؤں کے درمیان سوات کا خوب صورت پہاڑی مقام،
جسے پھولوں کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے، ضلع سوات کے مرکزی شہر مینگورہ
سے64کلومیٹر، سیدو شریف سے 57اور مدائن سے 10کلومیٹر کے فاصلےپر ،بحرین کا
خوب صورت قصبہ واقع ہے۔ سطح سمندر سے سے اس کی بلندی 4500 ہے جس کی وجہ سے
یہاں موسم میں خوش گوار خنکی رہتی ہے۔ اس شہر کا حسن و جمال ، وادی سوات کے
دیگر علاقوں سے منفرد ہے۔ اس کی حدود پنجی گرام سے شروع ہوتی ہیں اور لامبٹ
تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اس کی آبادی تقریباً 45 ہزارنفوس پر مشتمل ہے، جو
زیادہ تر پشتونوں کے یوسف زئی اور کوہستانی (توررالی) قبائل پر مشتمل ہے جو
انتہائی جفاکش، مخلص، وضع دار اور مہمان نواز لوگ ہوتے ہیں۔ ویسے تو یہاں
اردو، انگریزی سمیت کئی زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں لیکن اس شہر کے
لوگوں کی مخصوص زبانیں پشتو اور تور والی ہیں۔ یہاں سے مانکیال کی 19 ہزار
فٹ بلند چوٹی برف کی سپیدچادرلپیٹے ہوئے انتہائی دل کش منظر پیش کرتی
ہے،مذکورہ چوٹی اپنی بلندقامتی کی وجہ سے سوات کے ہر حصے سے نظر آتی ہے،
جب کہ کوہ سجن یہاں کا بلند وبالا پہاڑ ہے جو ٹریکنگ پوائنٹ اور ہائیکنگ کے
لیے مشہور ہے۔ پورا بحرین ، بلند و بالا پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے، مشرقی سمت
فلک بوس پہاڑوں کے دامن میں دریائے سوات خوف ناک اور منہ زور موجوں کے ساتھ
رواں دواںہے۔ شہر کی ایک جانب مانکیال پہاڑ ہے تو دوسری طرف سحر طاری کرنے
والے قدرتی نظاروںسےسجا ہواگاؤں’’آئین‘‘ ہے۔مرکزی شہر کے شمال کی جانب
اگر سفر کریں تو سڑک سے ذرا ہٹ کر چند کلومیٹر کے فاصلے پر پہاڑوں کے
درمیان پنجی گرام نام کا چھوٹا سا دل موہ لینے والا تاریخی قصبہ ہے، اس میں
بدھ مت دور کی بے شمار یادگاریں ہیں۔ مانکیال کی چوٹی کے نشیب میں سرائے
بان اور ٹاپ باندہ کے مرغزار واقع ہیں، گرمیوں کے موسم میں چرواہے اپنے
مویشوں کو چرانے کے لیےاس علاقے میں لاتے ہیں۔ٹاپ بان اسکیٹنگ کے شائقین کے
لیے بھی ایک پرکشش علاقہ ہے۔۔ دریائے سوات کے پرشور پانی اور پہاڑی بلندیوں
کے درمیان ایک خوب صورت پارک بنایا گیا ہے جس میں بچوں کے لیے جھولوں کے
علاوہ بڑوں کی دل چسپی کے سامان بھی موجود ہیں۔
2010ءکے سیلاب کی تباہ کاریوں کےنتیجے میں دریاکے اطراف بنے ہوئے کافی
مکانات اور پل بہہ گئے تھے، جس کی وجہ سے یہاں سیاحوں کی آمد کا سلسلہ بھی
رک گیا تھا لیکن اب یہاں زندگی اپنے اصل رنگ میں لوٹ آئی ہے، اور لوگ دریا
کے کنارے پکنک منا کرلطف اندوزہوتے ہیں۔یہاں آنے والے سیاح تفریحی مقات کی
سیر کے بعد، جب تھک جاتے ہیں تو دریا کے کنارےسورج کی کرنوں سے غسل کرتے
ہیں یا مچھلیاں پکڑتےہیں جب کہ رات کو دریا کے پانی کے اوپر بچھی لکڑی کی
چارپائیوں کو جنہیں پانی میں بہنے سے روکنے کے لیے بڑے بڑے پتھروں سے
باندھا گیا ہوتا ہے،ان پر لیٹ کر لوک کہانیاں سنتے ہیں، جب کہ خنک موسم میں
سوات کے مشہور چپلی کباب کھانے کا ایک الگ مزا ہے۔ سیلاب کی وجہ سےدریائے
سوات پر لکڑی کا معلق پل ٹوٹنے کی وجہ سے لوگ سریت کے قصبے سے چیئر لفٹ کے
ذریعےدریا کی دوسری طرف جاتے ہیں۔ مدائن اورکالام کی وادی کا راستہ یہیں سے
گزرتا ہے اس لیے ان کی طرف جانے والے سیاح بھی یہاں ایک دو روز قیام کرتے
ہیں۔
بحرین کی وادی کاقدیم نام’’برانڑیال‘‘ تھا، جب کہ اس سےقبل بدھ مت کے زمانے
میں اس کا نام ’’بھونال‘‘ رکھا گیا تھا، جو صدیوں پُرانا نام ہے۔ والی سوات
میاں گل عبدالودو، جنہیں بادشاہ صاحب بھی کہا جاتا ہے،جب اس علاقے میں
تشریف لائے اوریہاں فطرت کے حسین رنگ اور دل کش نظارے دیکھے، دو دریاؤں کو
بحرین کے دونوں اطراف سے بہتے ہوئے،ایک مقام پر ان کا خوب صورت سنگم دیکھا
تو ان کے دل و دماغ پر اس کا سحر طاری ہوگیا۔ بادشاہ صاحب مختلف دنیاوی و
دینوی علوم پر دسترس رکھتے تھے،کئ زبانوں کے ماہر تھے۔ عربی زبان میں سمندر
یا دریا کو بحر کہتے ہیں، مذکورہ وادی کیوں کہ دریائے سوات اوربپھرتے ہوئے
دریائے دارال کے درمیان میں واقع ہے، اس لیے ، ان کی مناسبت سے انہوں نے اس
شہر کا عربی نام ’’بحرین‘‘تجویز کیا۔یہ دونوںدریاؤں کے اطراف میں سر سبز
درختوں اور خوش رنگ و معطر پھولوں کے گلدستوں سے مہکتی ہوئی فضا میںسیر و
تفریح کا ایک بہترین مقام ہے، جہاں مئی سے لے کر اگست تک موسم گرما کے دور
ان سیاحوں کا اژدہام رہتا ہے۔سیاحت اور تفریح کی غرض سے آنے والے لوگوں کے
لیےیہاں بے شمار سہولتیں اور زندگی کی مسرتیںموجود ہیں۔جدیدسہولتوں سے
آراستہ کئی جدید ہوٹل ہیں، جن کی کھڑکیوں اور بالکونیوںسے دریا ئے سوات
اور دارال وگردونواح کے علاقے کے مناظر نہایت دل فریب لگتے ہیں۔مینگورہ سے
یہاں تک آمد و رفت کا ذریعہ ویگن، بس اور فلائنگ کوچ سروس ہے۔ بحرین روڈ
انتہائی خوب صورت بنایا گیا ہے، بلند و بالا درختوں کے بیچ میں تارکول کی
سیاہ بل کھاتی سڑک پر سفر انتہائی خوش گوار اور آرام دہ معلوم ہوتا ہے،یہ
سڑک بحرین کے علاقے میں آکر ختم ہوجاتی ہے ۔ یہاں زندگی کی تمام جدید
سہولتیں موجود ہیں،اس پہاڑی مستقرپر جدید ہوٹل، ٹیلی فون، انٹرنیٹ سمیت کسی
چیز کی کمی کا احساس نہیں ہوتا جب کہ بازاروں میں نوادرات کے علاوہ زندگی
کی ضرورتوں کی تمام اشیاء با آسانی دستیاب ہوجاتی ہیں۔ بحرین کے مقامی
باشندے گھریلو دست کاری اور لکڑی پر نقش و نگاری کے کام میں مہارت رکھتے
ہیں اور ان کی کاری گری کےنمونے وادی سوات میں ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ یہاں
پر لکڑی کے منقش ستونوں سے تعمیر کی گئی مساجد اور عمارتیں سیاحوں کی توجہ
کا مرکز ہیں اور بعض مکانات اور مساجدمکمل طورسے لکڑی پر نقش و نگاری کا
کام کرکے بنائی گئی ہیں۔ ان مکانات کی تعمیر میں استعمال ہونے والی لکڑی پر
انتہائی دل کش انداز میں کام کیا گیا ہےاور انتہائی مہارت سے جھالریں، بیل،
بوٹے، پھولوں کے گل دستے ، خوش نما انداز میں تخلیق کیے گئےہیں۔ اس نوع کی
تعمیرات صرف بدھ مت کی عبادت گاہوں میں ہی نظر آتی ہیں۔ دریائے دارال اور
دریائے سوات کا جس مقام پر ملاپ ہوتا ہے، وہاں ایک طویل و عریض چٹانی پتھر
پرایک خوب صورت مسجد بنائی گئی ہے جو فن تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہے۔ یہ
مقام دارال اور سید گئی جھیلوں کی طرف جانے کے لیے ایک بیس کیمپ بھی ہے شام
کے وقت بحرین کا منظرسحر انگیز اورخواب ناک ہو جاتا ہے۔ وادی کی تفریح کرتے
ہوئے بحرین کے ایک سرے سے دوسرے سرے کی طرف جاتے ہوئے ، لوگ خود کو ایک نئی
دنیا میں محسوس کرتے ہیں، خنک ہوا کے جھونکے، پہاڑی ندی نالوں،دریا اور آب
شاروں کا شور،عجیب سی نغمگی کا احساس پیدا کرتا ہے۔ بحرین کے بازارقدیم اور
جدید طرز تعمیر کا نمونہ ہیں، شام کی ملگجی روشنی میں سیر و تفریح کی غرض
سے آنے والے ملکی و غیرملکی افراد کی ٹولیاں، وادی کے مختلف حصوں اور
کالام جانے والی سڑک پر چہل قدمی کرتی ہیں، اس وقت یہ علاقہ یورپ کے کسی
خوب صور ت اور پر ہجوم بازار کا تاثر پیش کرتا ہے۔
اس وادی کا ایک دل فریب پہاڑی مستقر کولالئی نامی قصبہ ہے جو سطح سمندر سے
تقریباً پانچ ہزار فٹ کی بلندی پر ہے، یہاں دریا کے کنارے ایک خوب صورت
ریسٹ ہاؤس بنایا گیا ہے جس کے اطراف میں سبزے سے ڈھکے ہوئےپہاڑ ،برفانی
چوٹیاں اور دریائے سوات کا شفاف پانی دل فریب منظر پیش کرتا ہے، یہاں ہر سو
فطرت کے حسین رنگ بکھرے نظر آتے ہیں۔ بحرین کی سیر کرتے ہوئے کئی مقامات
پر دریائے سوات اور دریائے دارال پر لکڑی اور رسیوں کی مدد سے معلق پل
بنائے گئے ہیں جن پر سے پیدل چلنے والے افراد کے علاوہ بھاری گاڑیاں بھی
گزر کر ایک کنارے سے دوسرے کنارے کی طرف جاتی ہیں۔ یہاں کے بازاروں میں صبح
سے رات گئے تک سیاحوں کا ہجوم رہتا ہے جہاں دکانوں پر سوات کی تہذیب و
ثقافت کی عکاسی کرتی ہوئی مقامی ہنرمندوں کے ہاتھ سے بنائی گئی دست کاری،
سواتی کمبل، شالیں، زری کی سواتی ٹوپیاں، سلی سلائی پوشاکیں، خواتین کے
ملبوسات، ٹی کوزی، سفری بیگ اور خواتین کے پرس غیرملکی سیاحوں کی توجہ کا
مرکز ہوتے ہیں، جو انہیں خرید کر اپنے ملک، سوغات کے طور پر لے جاتے ہیں۔
بحرین کا شہد اور سیاہ زیرہ پاکستان بھر میں مقبول ہے۔ وادی کے مغرب میں
کوہ ہندوکش کے نشیب میں دارال ڈھنڈ جھیل واقع ہے جو برف پوش پہاڑوں اور
گلیشیئرپگھلنے کی وجہ سے وجودمیں آئی ہے۔ اس کے اطراف میں لہلاتے درخت،
سبزہ زار اور خوش رنگ پھول کھلے ہوئے نظر آتے ہیں جو سیاحوں کو اپنے سحر
کی گرفت میں لے لیتے ہیں۔قریب میں واقع گاؤں کے باشندے جو سیاحوں کو مختلف
خدمات فراہم کرتے ہیں، اس جھیل سے منسوب دیومالائی کہانیاں سناتے ہیں۔
دریائے دارال کے ساتھ ساتھ حال ہی میں ایک چھ کلومیٹر طویل سڑک تعمیر کی
گئی ہے جس کا اختتام ایک تفریح گاہ پر ہوتا ہے۔ دریائے دارال پر تعمیرکیا
گیا رسیوں کا پل اس علاقے کی دل کشی میں اضافہ کرتا ہے۔ مرکزی بازار سے
چارکلومیٹر کے فاصلے پر بجاٹ نامی آب شار ہے۔ یہاں تک جانے کے لیے کوئی
پختہ سڑک نہیں ہے، لوگ پیدل سفر کرتے ہوئے اس مقام تک پہنچتے ہیں۔ سفر کے
دوران راستے میں کئی خوب صورت گاؤں آتے ہیں اور ان کی خوب صورتی سے متاثر
ہوکر سیاحوں کا دل یہیں رہنے کو چاہتا ہے۔ جب وہ آب شار پر پہنچتے ہیں تو
اس کے گردونواح کا مناظر انتہائی خواب ناک معلوم ہوتا ہے، پچاس فٹ کی بلندی
سے نیچے گرنے والے پانی کا شور ایک عجب سماں باندھتا ہے۔ بحرین کی سیر کے
لیے یا یہاں سے گزرکر دوسرے تفریحی مقامات کی طرف جانے والے سیاح، دو
دریاؤں کے حسین کے طلسماتی منظر، دریا کے وسط میں بنی ہوئی عمارتوں، رہ
گزاروں اور مسجد کے سحر میں ایسے کھو جاتے ہیںکہ بحرین سے واپسی کے بعد بھی
وہاں کے حسین مناظر انہیں اپنے سحر میں جکڑے رہتے ہیں۔ |