فراٹے بھرتی کار میں سفر کرتے ہوئے جب پہلی نظر تاریخ کی
اس عظیم عمارت پر پڑتی ہے تو ذہن صدیوں کا فاصلہ لمحوں میں طے کرتے ہوئے اس
دور میں پہنچ جاتا ہے جب کوئی حسنِ ذوق رکھنے والا بادشاہ سج دھج کے چار یا
چھ گھوڑوں والی بگھی میں اپنی ساخت اور فنِ تعمیر میں منفرد اس قلعے میں
داخل ہوتا ہوگا۔ میلوں دور سے اس کے برج دیکھنے والوں کو سحر میں مبتلا کر
دیتے ہیں-
ہزاروں سال کی تاریخ اپنے اندر سموئے چولستان میں موجود قلعہ دراوڑ ہمارا
اہم ثقافتی ورثہ ہے. لیکن حکومت کی عدم توجہی کی بدولت یہ اہم اور قیمتی
اثاثہ اپنی زبوں حالی کا منہ بولتا ثبوت ہے. صدیوں پہلے بہاولپور کے
چولستان کا یہ علاقہ سر سبز و شاداب وادی پر مشتمل تھا ، اس سر سبز و شاداب
وادی کو دریائے ہاکڑا سیراب کرتا تھا اسی نسبت سے اس وادی کو وادئ ہاکڑا
بھی کہا جاتا تھا. لیکن آہستہ آہستہ یہ وادی صحرا میں تبدیل ہوتی چلی گئی
اور دریائے ہاکڑا ریت کے نیچے معدوم ہو گیا. آبی وسائل ، چراگاہیں جگہ جگہ
پھیلی آبادیاں مٹتی چلی گئیں اور انکی جگہ ریت اور ریگستان نے اپنے ڈیرے
ڈال لیئے. آج اس صحرا میں ماضی کی کئی شکستہ یادیں جو اس علاقے کی یادگار
ہیں ان میں تاریخی قلعہ دراوڑ شان و شوکت کے لحظ سے لازوال حیثیت کا حامل
ہے. یہ قلعہ ماضی کے دریائے ہاکڑا اور وادئ ہاکڑا کی کئی لازوال داستانیں
لیئے مہر بہ لب ہے. اسکی بلند و بالا فصیلوں نے وقت کے کئی نشیب و فراز
ریکھے ہیں .... جنگ و جلال کے کئی منظر اور فتح و شکست کے کئی واقعات اس کے
سینے میں دفن ہیں ! آج یہ عظیم قلعہ قصئہ پارینہ بن چکا ہے. اس تاریخی اور
شان وشوکت سے بھر پور قلعے کو دیکھ کر ایک بھولا بھٹکا شعر یاد آگیا :
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہ تھے
کب اس قلعے کی بنیادیں رکھی گئیں کون اسکے پہلے معمار تھے کن حکمرانوں کے
پرچم اسکے پیشانی پر سب سے پہلے لہرائے اس بارے میں تاریخ خاموش ہے. ہاں
ایک تاریخ اسکی یہ ملتی ہے کہ ایک راجا ججہ اور اسکے بھانجے نے اس قلعے کی
تعمیر میں اپنا حصہ ڈالا تھا لیکن کچھ اختلافات کی وجہ سے یہ پایہ تکمیل تک
نہ پہنچ پایا پھر بعد میں بہاولپور کے مشہور خاندان عباسی خاندان کے دور
میں اس قلعہ کی تعمیر مکمل کی گئی ... انسانی زنجیر کے زریعے پختہ اینٹیں
اوچشریف سے قلعہ تک پہنچائی گئیں اور اس قلعے کی تعمیر کا کام پایہ تکمیل
کو پہنچا.
پچھلے دنوں ہمیں بھی اس تاریخی قلعے کی زیارت کا موقع ملا یا یوں کہہ
لیجیئے کہ دیرینہ خواہش پوری ہوئی... لیکن جس قدر شدید خواہش تھی اس سے
کہیں زیادہ شدت سے دکھ نے بھی آن گھیرا.. قلعے کی پسماندہ حالت زار دیکھ کر
قلعے کے ساتھ ساتھ ہمارا دل بھی افسردہ سا ہو گیا ، یوں لگ رہا تھا جیسے
*ہیری پورٹر* کے *ہاگورٹ فورٹ* میں جنوں بھوتوں کی آرام گاہ میں قدم رکھ
دیا ہے. قلعہ ہر طرف سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ملا ، جس ریوار اور دروازے کو
ہاتھ لگایا تو ایسا لگا جیسے وہ ابھی ہمارے ہاتھوں سے ہوتا ہوا زمیں دوز ہو
جائے گا. ...قلعے کے اندر شاہی بیگمات کے لیئے بہت خوبصورت طرز تعمیر اور
آرائش سے سجا شاہی حصہ ہے جسے دیکھ کر یہ احساس ضرور جاگتا ہے کہ قلعے کا
یہ حصہ کسی دور میں انتہائی دیدہ زیب ہوگا !! قلعے کی اونچی فصیلوں کو دیکھ
کر اس کے جاہ و جلال سے ایک بار دل میں خوف کی لہر ضرور دوڑتی ہے لیکن جیسے
ہی ہم اندر کی طرف بڑھتے ہیں تو قلعہ کی سطح کی کم بلندی یہ ثابت کرتی ہے
کہ قلعے کے اندر زیرزمین بھی بہت سی تعمیرات پوشیدہ ہیں. لیکن آج یہ عمارت
ہمیں کسی بھوت پریت کی کہانیاں سناتی دکھائی دیتی ہے ، وہ چاہے پھر شاہی
رہائش گاہ ہو ، چاہے محافظ خانہ ہو ، چاہے نواب صاحب کی آرام گاہ، چاہے
فوجی بیرکیں ہو یا چاہے توشہ خانہ ہر اہک چیز اپنے زوال کی داستاں سناتی
دکھائی دیتی ہے. کسی بھی چیز کا اگر صحیح خیال نہ رکھا جائے تو رفتہ رفتہ
وہ چیز زوال کا شکار ہو جاتی ہے. حکومت جہاں اتنے اللے تللوں میں خزانہ
خالی کرتی ہے اگر اپنا تھوڑا بہت حصہ ملکی اثاثوں کو بچانے میں صرف کردے تو
میرا نہیں خیال کہ اللہ ان کے خزانوں میں کوئی کمی کر دے گا. آج ہمیں اس
تاریخی قلعے کے پاس کوئ ٹورسٹ گائیڈ نظر نہیں آتا تو ٹورزم کیسے ترقی کی
راہوں پر گامزن ہو جب ہم نے خود اپنا ملکی اثاثہ بربادی کی نظر کر دیا. اور
ویسے بھی اللہ اس قوم کی حالت کو تو بالکل بھی نہیں بدل سکتا جسے اپنی حالت
کا خود احساس نہ ہو . قلعے کے گرد جیپ ریلی کا انعقاد کر کے اور ریلی کے
نام پر ہلڑ بازی کر کے ہم اپنے کاموں سے سبکدوش ہو جاتے ہیں. اگر وقت کے
ساتھ ساتھ قلعے کی تزئین و آرائش کا تھوڑا بہت خیال رکھا جاتا تو آج ٹورزم
سے منسلک لوگوں کا بھی فائدہ ہوتا اور خود حکومت کے خزانے میں بھی کمی نہ
ہوتی...
ہاکڑا کے لاڑلے فرزند تیری عظمتیں
وقت کی تقویم سے ہیں ماورا
تو محافظ ہے اسی شاہراہ اعظم کا جس نے
طے کیے ہیں تہذ یب کے کتنے سفر.. |