عبد الصمد انصاری کا سفرِ آخر

عبد الصمد انصاری

رمضان میں میرے معمولات کی نوعیت قدرِ مختلف ہوتی ہے،میری ہی کیا ہر مسلمان کے شب و روز مختلف ہوتے ہیں۔ گھر کے احباب سے فارغ ہوکر سحری تک کچھ لکھنا یا پڑھنا، سحری کے بعد نماز اور دیگر عبادات کے بعد سوجانا اور ظہر تک سوتے رہنا۔ معمول کے مطابق میں سورہا تھا ،سوتے وقت موبائل بھی سائیلنٹ پر کر کے سوتا ہوں۔20 جون ،25واں روزہ تھا کوئی ۱۱بجے احساس ہوا کہ موبائل پر گھوں گھوں ہورہی ہے۔ دیکھا تو ایک میسج میری ایم اے کی کلاس فیلو عذرا قریشی کاتھا لکھ تھا "Samdani Sahab, pls call Samad Ansari. Heard some bad news abtout him.Azra"یہ پیغام منگل 20جون 2017کو 12.18پر موصول ہوا۔ میسج پڑھ کر دل بیٹھ سا گیا، گھبراہٹ کے عالم میں اٹھ کھڑا ہوا،موبائل پر کچھ کال بھی تھیں جن کے نام میرے سیو نہیں تھے۔گھبراہٹ اور تشویش کے ساتھ صمد انصاری کے سیل پر کال کرتا رہا، ان کے دو نمبر میرے پاس تھے دونوں پر کال کرتا رہا بیل تو جارہی تھی لیکن کوئی اٹھا نہیں رہا تھا۔ وہ اٹھاتا بھی کیسے اسے تو دنیا سے رخصت ہوئے کئی گھنٹے گزر چکے تھے۔ اب میری تشویش میں اضافہ ہوا جو کال آئی ہوئی تھیں ان میں سے ایک پر کال کی تو مجھے اسی قسم کی خبر سننے کو ملی ،اب میں دم بہ خود ہوکر رہ گیا ، گویا معاملا عذرا قریشی کے میسج کی جانب جارہا تھا۔اس کے باوجود یقین نہیں آرہا تھا اور آتا بھی کیسے۔ نہ بیمار ہونے کی اطلاع، نہ کوئی اور پریشانی کی خبر پھر یہ سب کچھ کب اور کیسے ہوگیا؟ فوری طور پر تیار ہوا اور صمدانصاری کے گھر کی جانب جلدیا، راستہ مشکل اور طویل ہوتا جارہا تھا، دل بیٹھتا ہوا محسوس ہورہا تھا، صمد اور اس کا 42 سال کاساتھ ذہن میں ایک فلم تھی جو چل رہی تھی اور میں گاڑی ڈراؤ کر رہا تھا۔یا اللہ تو نے یہ کیا کیا۔ دوستوں کی دنیا میں اب تو میں بالکل ہی تنہا ہوگیا۔اسی سوچ میں صمد کے گھر گلشن اقبال پہنچ گیا۔ان کا فلیٹ دوسری منزل پر ہے،ابھی گیٹ پر چوکیدارسے کچھ معلوم کرنے کی کوشش میں تھا کہ ایک نوجوان موٹر سائیکل پر خاتون کے ہمراہ کچھ اسی قسم کی گفتگو کسی اور سے ہورہی تھیں، میں نے ان خاتون سے مخاطب ہوتے ہوئے اپنا نام بتا یا اور صمدا انصاری کے بارے میں خبر کی تصدیق چاہی ، انہوں نے کہا کہ میں سعود کی ممانی ہوں آپ کا ذکر صمد بھائی بہت کیا کرتے تھے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ صبح تین بجے یہ حادثہ پیش آیا اور انہیں تو ایدھی کے سردخانے میں رکھ دیا گیا ہے ، رہے سہے حواس بھی جاتے رہے، میں نے کہا کہ سعود کہاں ہیں ، بتا یا کہ وہ اپنی نانی کے گھر عزیز آباد میں ہیں۔ میں صمدکے ساتھ ان کی سسرال جاتو چکا تھا لیکن اس وقت میری کیفیت ایسی نہ تھی کہ میں وہ گھر تلاش کر سکتا، خاتون نے کہا کہ ہم وہیں جارہے ہیں ، آپ ہمارے ساتھ چلیں ، میں ان کے پیچھے ہولیا اور عزیز آباد پہنچا سعود اپنے ماموں کے ہمراہ موجود تھے۔ تصدیق تو پہلے ہی ہوچکی تھی اس بچے کو سینے سے لگا یا ،اس کے سینے سے میرے دوست کی مہک آرہی تھی ، وہ مہک جسے اس دنیا سے رخصت ہوئے کئی گھنٹے ہوچکے تھے، یہ مہک میرے ساتھ گزشتہ42 سال سے تھی لیکن مجھے ایسا ہی محسوس ہورہا تھا کہ جیسے میں اپنے دوست سے بغل گیر ہورہا ہوں، افسردگی کے ساتھ، غمگین ، اداسی، مغموم ، رنجیدہ ، صدمے، قلق اور چور چور بدن کے ساتھ سینے سے سعود لگا تھا لیکن سوچوں میں میرا دوست صمد انصاری تھا ۔ایک بیٹی فائزہ لاہور سے صبح ہی آچکی تھی دوسری مدیحہ کو لندن سے آنا تھا جسے پہنچنے میں وقت لگنا ہی تھا اس لیے ان کا جسدِ خاکی آج صبح سے ایدھی کے سرد خانے میں رکھوا دیا گیا جہاں وہ دنیا کے تمام رشتوں سے آزاد اپنے ہی ہم جیسوں کے ساتھ چین کی نیند سورہے ہیں۔ اپنے آپ کو سنبھالا ، خاص طور پر سعود کے صبر کو دیکھ کر مجھے حوصلہ ہوا ، اس بچے کو اللہ نے ہمت ، برداشت اور صبر دیا ہوا تھا۔ موت تو بر حق ہے ، کسی کو نہیں معلوم کہ اس کا بلاوا کب اور کس وقت آجائے، ہمیں ہر حال میں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوتا ہے کہ موت بر حق ہے ۔میری کیفیت صمد انصاری کی ایک غزل کے اس شعر کی سی تھی ؂
دل بھی زخمی نہیں اور آنکھ میں آنسو بھی نہیں
حال اچھا ہے مگر ایسا اچھا بھی نہیں

صمد صاحب کے بیٹے سعود نے جو تفصیل اپنے ابو کے دنیا سے رخصت ہوجانے کی بتائی وہ ایک اعتبار سے خوش کن و خوش نصیبی کی ہے ، ہم سب کی یہی خواہش اور تمنا ہوتی ہے کہ اللہ ہمیں چلتے ہاتھ پاؤں اس دنیا سے اٹھا لے ، اللہ تو ہمیں کسی کا محتاج نہ کرنا، صمدبھی یہ دعا کیا کرتے تھے ان کی یہ دعا تو قبول ہوئی ، بڑے سکون اور اطمینان کے ساتھ انہوں نے اپنی جان فرشتۂ اجل کے سپرد کردی ۔کلام مجید کی سورۃ السجدہ کی آیت 11میں کہا گیا ’’کہہ دو کہ موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تمہاری رُوحین قبض کر لیتا ہے پھر تم اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤ گے‘‘۔ اور صمد بھی اُس لمحہ اپنے پروردگار کی جانب لوٹ گئے۔ بقول سعود،وہ اپنی والدہ کے ہمراہ عید کی خریداری کے لیے اپنے ابو کو گھر چھوڑگئے تھے ، اس عمر میں پہنچ کر ہماری یہی خواہش ہوتی ہے کہ اس قسم کی مصروفیات ہم پر زبردستی نہ ہی ڈالی جائیں۔ دنوں کی واپسی صبح سحری کے وقت تین بجے ہوئی، دروازہ اندر سے بند تھا ،صمد نے خود آکر دروازہ کھولا، بیگم اور سعود کا گرم جوشی سے استقبال کیا ’’ہاں بھئی شاپنگ کر آئے‘‘، یہ وہ لمحہ تھا جب موت کا فرشتہ دروازے پر موجود تھا اور وہ بھی اس بات کا انتظار کر رہا تھا کہ میرا مہمان از خود میرے لیے دروازہ کھولے ،میرا استقبال کرے، اور ایسا ہی ہوا ، سعود کے بقول جوکرتا ان کے لیے لیا تھاانہیں دکھایا ، صمد نے اس کی تعریف کی، اس دوران کسی بھی قسم کی کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی،اسی لمحہ لاہور سے فائزہ کا فون آگیا ، سعود کی امی اس سے مہوِ گفتگو تھیں، صمد ہنستے مسکراتے ہوئے بستر پر لیٹے اور لیٹتے ہی آنکھیں موند لیں۔سعود نے ہلکی سے آواز محسوس کی جیسے انسان خرانٹے لیتا ہیں ۔ سعود کو استعجاب ہوا کہ اتنی جلدی خرانٹے ، اس نے مڑ کردیکھا تو آنکھیں بند منہ سے کچھ جھاگ۔ تین بجے دروازہ کھلا اور 3.10پر موت کے فرشتے نے اللہ کے حکم سے ان کی روح قبض کر لی۔ یہ جا اور وہ جا۔ انا اللہ و ان علیہ راجیعون۔

صمد انصاری سے اپنے مراسم ، دوستی کی تفصیل بیان کرنا یہاں مناسب نہیں،کسی اور مضمون میں 42 سالہ رفاقت کا حال لکھونگا بشرطیکہ زندگی نے ساتھ دیا۔ یہاں پر اپنے دوست کے سفرِ آخر کو قلم بند کرنا مقصود ہے۔ صرف اس قدر تحریر کردوں کہ صمد میرا ایسا دوست اور ایسی خوبیاں لیے ہوئے تھا کہ جس کا خاکہ میں’’ عبد الصمد انصاری ‘دھیمہ سالہجہ ۔ تھوڑی سی شوخی‘‘ کے عنوان سے نے 18 مئی 2011 کو قلم بند کرچکا ہوں اور یہ میری خاکوں کی کتاب’’جھولی میں ہیرے اور موتی‘‘ شائع شدہ 2012میں موجود ہے۔ اُس وقت میں سرگودھا میں تھا جامعہ سرگودھا کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس سے وابستہ تھا۔ تعلقات کی ابتدا کے حوالے سے میں نے لکھاتھا اور صمدانصاری کے بارے میں یہ میرا پہلا تاثر تھا ’’1974کا ایک دن تھا سبزواری صاحب کے کمرے میں ملاقات ہوئی۔ نوجوان دیکھنے میں خوبصورت ،منا سب، گور ارنگ، کتابی چہرہ، غلافی آنکھیں، کشادہ پیشانی، چوڑا سینہ، مضبوط جسم، آنکھوں میں سوجھ بو جھ کی چمک،ستواں ناک جس کے نیچے قینچی استرے کی دسترس سے محفوظ سپاٹ میدان یعنی کلین شیو، کالے گھنے بالوں میں اب رنگنے کے باوجود سفیدی نمایاں، سنجیدہ طرز گفتگو، دل میں اتر جانے والی مسکراہٹ، المختصر صورت شکل، وضع قطع،چہرے مہرے سب سے شرافت ، تحمل ، وضع داری اور معصومیت کا خوشگوار اظہار۔کچھ کچھ شباہت کسی اداکار کی سی تھی، پہلے تو خیال ہوا کے شاہد موصوف اداکار بھی ہوں لیکن یہ راز بعد میں عیاں ہوا کہ میرا خیال بڑی حد تک درست تھا، یہ خود تو اداکار نہیں البتہ معروف ادا کار قاضی واجد انکے ماموں زادبھائی ہوتے ہیں۔ گویا بہ ذوق خاندان سے تعلق رکھتے ہیں‘‘۔ 1974سے دوستی کا جو سفر شروع ہوا تھا وہ 20جون2017کو اختتام پذیر ہوا اور یہ دوستی رسمی، عارضی،کبھی کھبار ملاقاتوں کی نہ تھی بلکہ میری زندگی میں کوئی اور بحیثیت دوست اس قدر قریب نہیں رہا ۔ ہم ایک دوسرے کے بہت قریب، بہت ساتھ ، گھریلوں تعلقات،میں صمدکے ہر عزیز رشتہ دار سے واقف اور وہ میرے خاندانی معاملات سے آگاہ، میری بیوی ، بچے یہاں تک کہ بھائی بہن سب صمدصاحب سے آگاہ ہیں۔ ہماری دوستی کا سفر اس وقت شروع ہوا جن صمد مارٹن کوارٹر سے مکہ چوک اور پھر گلشن اقبال اور میں آگرہ تاج کالونی، دستگریر، نارتھ کراچی، گلشن اقبال اور اب سفورہ چورنگی پر آگیا، ہماری رہائشیں بدلتی رہیں لیکن ہماری دوستی کے تانے بانے ساتھ ساتھ ریل کی پٹری کی طرح چلتے رہے۔ اس دورن سرد و گرم حالات بھی آئے، ان سے میری ذاتی رنجش کبھی نہیں ہوئی بلکہ دوسروں کی رنجشوں اور زیادیوں میں ہمارے درمیاں تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا ، بلکہ میں نے سخت سست کہا ، صمد پھر بھی اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے مجھے قائل کرنے کی سعئ کرتے رہے۔اس قسم کے معاملات ہم دونوں کی ذات کے حوالے سے نہ تھے بلکہ ہمارے مشترکہ دوستوں کے عمل کے نتیجے میں تھے۔

’’صمد انصاری کے اندر ایک شاعر اور ادیب موجود تھا لیکن اس معاملے میں وہ لاپروا رہا۔ کم لکھا پر اچھا لکھا،ادبی مزاج خاندانی ہے، لیکن اس نے اپنے اندر کے قلم کار کو پوری طرح باہر آنے ہی نہیں دیا، شعر کہتا تھا اور اچھے شعر کہے، لیکن بد قسمتی یہ کہ اس نے نہ تو جم کر نثر لکھی اور نہ ہی اپنے اندر کے شاعر کو آزادی سے ساتھ باہر آنے دیا، گویا یہ زندگی کے کسی بھی حصہ میں اس جانب سنجید ہ نہیں رہا، باوجود اس کے کہ یہ نثر لکھنے والوں کے درمیاں رہا انہوں نے لاکھ ٹکریں ماریں کہ یہ سنجیدگی سے نثر لکھے، لیکن اس نے ان کی ایک نہ سنی ، جب خودجی چاہا لکھا، اسی طرح شاعروں کی صحبت میں رہا ، لیکن شاعری میں بھی اسی طرح ڈنڈی مارتا رہا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے دامن میں چند غزلیں،
چند نظمیں اور کچھ پیروڈیز ہوں گی، اسی طرح چند مضامین بھی۔ہاں دو کتابوں کا شریک مصنف ضرور ہے ‘‘۔دوسروں کے لیے کچھ کرنے کی لگن پائی جاتی تھی۔ ان کی شاید دادی ہوتی ہیں توقیر فاطمہ ان کے شعری مجموعہ پر مجھ سے پیش لفظ لکھنے کے لیے اس قدر بے چینی کہ کوئی حد نہیں، موج دریا کے مجموعہ کلا م ’موج دریا‘ پر لکھوانے میں بے قرار، ریاضؔ انصاری پر لکھنے پر مجھے مجبور کردیا ۔ میں کہا بھی کرتا کہ یار تم مجھ سے اچھے شاعراور لکھاری ہو تم خود لکھو لیکن بس دوسروں کے لیے فنا فل ہونا اس کی عادت تھی۔ کیا کیا خوبیوں کا مالک تھا وہ شخص ، جس نے جو کہا خاموشی اختیار کر لی۔ خوبیوں کا مجوعہ تھا وہ شخص۔ انسانی کمزوریوں سے کوئی مبر ہ نہیں۔

صمد انصاری کی ایک خوبی یہ تھی کہ انہیں وقت ، حالات اور لمحہ موجود کے حوالہ سے اشعار اور واقعات بہت جلد سوجھ جاتے تھے اور یہ اُسی وقت شعر سنادیتے یا اس سے مناسبت رکھتا ہوا کوئی قصہ، جیسا کہ میں نے کہا کہ ہم دونوں اپنے حلقہ دوستی میں ہر خوشی اور غمی میں اکثر ساتھ ہی جایا کرتے تھے، کبھی وہ مجھے لے لیتے ، کبھی یہ فریضہ میں ادا کرتا ۔پروفیسر ڈاکٹر عبد المعید کا انتقال ہو اتو جامعہ کراچی کے قبرستان میں ہم ایک ساتھ تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر سید جلا ل الدین حیدراﷲ کو پیا رے ہوئے تو ہم دونوں نے انہیں بوجھل دل کے ساتھ وادی حسین قبرستان میں دیگر ساتھیوں کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے الوداع کہا، ڈاکٹر انیس خورشیدکے انتقال کے بعد ہم نے مل کر ان کی قبر پر پھولوں کی چادر چڑھائی، اختر حنیف صاحب کے انتقال پر ہم ساتھ ساتھ تھے،ہمارے ایک شاگرد سمیع الدین کو اچانک کسی موزی مرض نے آدبوچا، دیکھتے ہی دیکھتے صحت مند اور خوبرو جوان چٹ پٹ ہوگیا، قبرستان میں صمد انصاری اور میں ساتھ ہی تھے۔ رات کی تاریکی میں جبکہ چاند کی روشنی بھی ماند تھی، شاید ایسی جوان موت پرچاندبھی افسو س کررہا تھا۔ ہم نے اپنے اس شاگرد کو لحد میں اتارا، دل انتہائی دکھی اور افسردہ تھا، لیکن اﷲ کی مرضی جسے جب چاہے اپنے پاس بلالے، مصلحت خدا وندی سمجھ کر سوائے صبر کے انسان کچھ نہیں کرسکتا۔

صمد انصاری کا تعلق ہندوستان کی ریاست گوالیار سے ہے،انہوں نے اِسی ریاست کے شہر ’لشکر‘ میں 10 اکتوبر1944 میں جنم لیا۔قاضی خاندان سے تعلق ہے ان کے خاندان کے اکثر احباب اپنے نام کے ساتھ ’قاضی‘ لگاتے ہیں۔ ان کے جدِ امجد ہندوستان کی معروف شخصیت عبدا لمناف انصاری ہیں جن کا سلسلہ نسب حضرت ابو ایوب انصاری سے جا ملتا ہے۔صمد اپنے والدین کے سب سے چھوٹے بیٹے ہیں،1963میں جب یہ کالج کے سیکنڈ ائیر میں تھے والدہ کا انتقال ہو گیا ، ان کی بقیہ تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ان کی والدہ بہنو ں اور بھائیوں نے پوری کی، چھوٹے ہونے کے باعث لاڈلے بھی تھے، بھائیوں نے انہیں خوب خوب آزادی دے رکھی تھے، دوران تعلیم موٹر سائیکل اور کار کا استعمال کیا کرتے تھے، جامعہ میں پہنچے تو ہاتھوں ہاتھ لیے گئے، شکل صورت پر کشش، ہینڈسم ، چاکلیٹی مسکراہٹ اور سونے پر سہاگہ یہ کے چار ویل موجود ،دوستوں خصوصاً لڑکیوں کے متوجہ ہونے کے تمام تر لوازمات موجود تھے۔اسلامیہ کالج سے بی ایس سی کرنے کے بعد لائبریری سائنس میں داخلہ لیا، بہت اچھا وقت جامعہ میں گذارا، شعبہ کی طلبہ سوسائٹی کے صدر بھی رہے، الیکشن لڑتے اور لڑواتے بھی رہے۔ اپنے زمانے میں ادبی، سماجی و ثقافتی پروگرام منعقد کرنے میں طاق تھے۔موسیقی سے لگاؤ تھا، موویز دیکھنے کا شوق تھا، اکثر رات میں جب وہ مکہ چوک پر رہا کرتے اور میں ان کے نذدیک آصف نگر میں رہتا تھا ان سے ٹاکرہ ہوجایا کرتا ، معلوم ہوتا کہ کوئی انڈین فلم لیے ہوئے ہیں وہ زمانہ وی سی آر کا تھا۔ اپنے اپنے شوق کی بات ہے۔ انڈین فلموں کے بارے میں ان کی معلومات وسیع تھیں۔اکثر انڈین گانا گنگنایا کرتے۔دوستوں کی محفل سجانے کے لیے ہر دم تیار و کامران رہا کرتے۔ اس حوالے سے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔

صمد انصاری کے گھر کا ماحول علمی اورشاعرانہ تھا،خاندان کا تقریباً ہر شخص شاعری کے ہنر سے واقف تھا انکے بزرگوں میں ریاض جیوری ، معین الدین شیدا ،عبدالرحمن دریاؔ ، پروفیسر یوسف جمال ، محفوظ الرؤف اور آصف جمال خاصے معروف ہیں بڑی بہن اور بھائی شعری ذوق رکھتے تھے۔ ان کی چھوٹی بہن حبیبہ شعر کہا کرتی تھیں۔ صمد انصاری میں شعری ذوق ابتدا ء ہی سے تھا آٹھویں کلاس میں بچوں کی نظموں سے شاعری کی ابتداء ہوئی ، روزنامہ جنگ میں بچوں کے صفحہ میں ان کی نظمیں شائع ہوئیں۔پاکستان میں اولین رہائش مارٹن کواٹر میں تھی ،گلو کار ایم کلیم ، احمد رشدی ، مسرور انوراور راغب مراد آبادی ان کے ہمسائے تھے۔گھر کا ماحول شاعرانہ تھا، ان کے گھر ادبی نشستیں بھی ہوا کرتیں تھیں سلیم احمد، اطہر نفیس ، خالد علیگ، صادق مدہوش، شیدا گجراتی، اسد محمد خان اور ساقی فاروقی ان شعری نشستوں میں شریک ہو ا کرتے۔صمد انصاری مشاعرے کے شاعر نہیں تھے لیکن انہیں بے شمار موقع محل کی مناسبت سے شعر یادتھے، شعر کہتے بھی تھے۔پیروڈی کے بھی ماہر تھے۔مجلسی انسان تھا، دوستوں میں رہنا، ہنسی مزاق ، تفریحی ماحول کے شوقین ، دوستوں کے دوست، یاروں کے یار، جس محفل میں ہو ، نمایاں نظر آتے ، برملا شعر سنانایا گفتگو کی مناسبت سے کوئی چٹکلا چھوڑنے میں مہارت رکھتے تھی۔
وفاشعار ہیں ہم دوستی میں یکتاہیں
ملے نہ دادِ وفا اس کا غم نہیں کرتے

انتقال کے دوسرے روز یعنی 21جون26واں روزہ بعد نماز ظہر ان کے بڑے بھائی عبدالااحد انصاری مرحوم کا گھر جوکہ مکہ چوک پر ہے سے سفر آخر پر لے جانا طے ہوا۔ میرے لیے یہ جگہ اور ان کے بڑے بھائی اجنبی نہ تھے میں کئی بار اس گھر میں اور عبدالااحد انصاری سے شرفِ ملاقات حاصل کرچکا تھا۔ کچھ سال قبل تک صمد اسی جگہ یعنی مکہ چوک پر ہی رہا کرتے تھے۔ وقت مقررہ پر میری ہمت مجھے وہاں لے گئی، احباب موجود تھے، ہر فرد افسردہ، آنسوں بہا رہا تھا، بین کرتی ہوئے ان کی بیٹیاں اور صابر بیٹا اور دیگر عزیز و عقارب نوحہ کنا تھے۔لاہور اور لندن سے ان کی بیٹیاں اپنے باپ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت کرنے دوڑی چلے آئیں تھی ، ایک دن اور ایک رات میرے دوست نے ایدھی کے سرد خانے میں گزاری تھی، نئے دوست ملے ہوں گے، موضوعات نئے ہوں گے ، انہیں بھی صمد نے میری دوستی کے قصے اور شاعری سے مَحظو ظ کیا ہوگا۔چٹکلے چھوڑے ہوں گے۔ شعر سنائے ہوں گے۔ میں وہاں پہنچا ہی تھا کہ سعود کے کوئی ماموں مجھے صمدکا آخری چہرہ دکھانے کے لیے لے چلے، میرے لیے ایک ایک قدم اٹھانا بھاری اور مشکل سے ہو رہا تھا ۔ صمد سفید پوشاک میں ملبوس گہوارے میں اطمینان، بے فکری ، نہ پریشانی ، نہ تفکر، آنکھیں بند ، چہرہ پر طمانیت، سکون ، نہ مُضطَر ، نہ مُظطَرب لیٹے تھے ۔کھلی آنکھوں نے بند آنکھوں کو دیکھا ،کھلی آنکھوں کو شکوہ کرتی بند آنکھیں محسوس ہوئیں، کھلی آنکھوں نے شکوہ کا احساس کیا ، ندامت ہوئی، شرمندگی محسوس کی، کاش میں اپنے دوست کی بات مان لیتا، اب کیا ہوسکتا تھا۔ چند ماہ بلکہ چند سالوں سے وہ مجھے ایک مسئلہ پر قائل کرنے کوشش کر رہے تھے اور میں تھا کہ ٹس سے مس نہیں ہورہا تھا۔ میں قریب تر گیا ،اور قریب حتیٰ کہ اپنے دوست کے دونوں کاندھوں اور بازؤں کو چھوا، اپنی غلطیوں اور کوتائیوں کی معزرت چاہی، جلد ملاقات کا یقین دلا یا، ماتھے کو چھواتو وہ ٹھنڈ کی وجہ سے پانی سے تر تھا میں نے کفن کے پلو سے اس پانی کو خشک کیا،اپنے دوست کے ماتھے کا بوسہ لیا ، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اجاذت چاہی ،اور بوجھل دل کے ساتھ واپس ہولیا۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں چند سال قبال صمدا انصاری کے بڑے بھائی عبدالا احد انصاری کا گہورہ رکھا تھا ۔ بھائیوں کی محبت تو دیکھیے کہ بڑے بھائی نے اپنا سفر آخر جہاں سے شروع کیا تھا چھوٹے نے بھی اسی رسم کو برقرار رکھا اوراپنے سفر آخر اسی مقام سے شروع کیا۔ صمدکے بڑے بھائی ان کے بڑے بھائی ہی نہ تھے بلکہ ان کے والد کی حیثیت رکھتے تھے، انہوں نے ہی صمد کو لاڈ پیار سے پروان چڑھایا تھا، ناز نخرے اٹھائے تھے، صمد جب جامعہ کراچی میں کار پر آیا کرتے تھے، ایک جانب لمریٹا ان کا ٹریڈ مارک تھا تو دوسری جانب وہ طالب علمی کے زمانے میں فور ویل استعمال کیا کرتے تھے۔ یہ سب ان کے انہیں بھائی عبدالا احد انصاری کی محبت اور چاہت ہی تھی۔میرے جد امجد شیخ محمد ابراہیم آزادؔ کا شعر ؂
ہم نشیں پوچھتے کیا ہو میرے دل کی حالت
صدمہ کیا دے گئے دنیا سے جانے والے

سفر آخر کا آغاز ہوا، سارے عزیز رشتہ دار ، دوست احباب ساتھ چلے، مسجد قریب ہی تھی ، ظہر کی نماز کے بعد جنازہ کی نماز ادا ہوئی۔ رمضان المبارک میں مساجد میں نمازیوں کی تعدادعام طور پر زیادہ ہی ہوا کرتی ہے ، صمد کی خوش نصیبی دیکھیں کہ بڑی مسجد نمازیوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ جس کی نماز جنازہ میں اس قدر بھاری تعداد میں نمازی ہوں اور وہ بھی روزہ کی حالت میں اس کہ جنتی ہونامجھے تو پورا یقینی ہے۔ اب یہ قافلہ عزیز رشتہ داروں، خاندان کے احباب، علمی و ادبی شخصیات اور دوستوں کے ہمراہ سفرِ آخر پر روانہ ہوا۔ ان کی آخری منزل ملک پلانٹ (عیسیٰ نگری) قبرستان تھی۔میں اپنی گاڑی میں تنہا ہی تھا۔ قافلہ دستگیر سے 13ڈی ہوتا ہواحسن اسکوائر سے واپس لیاقت آباد کی جانب ٹرن ہوا اور قبرستان پر پہنچ گیا۔ اس سفر میں میرے اعصاب پر میرا دوست اور اس کے ساتھ گزارا ہوا طویل وقت سوار رہا۔کبھی کچھ سوچتا کبھی کچھ، کبھی یہ خیال آتا کہ کاش ایسا نہ ہوا ہوتا، صمد کچھ وقت اور زندہ رہ جاتے، اس دوران کسی صاحب کا فون آیا ، ہیلو کیا تو انہوں نے فرمایا’ سر ’صمدانی سر‘ کے انتقال کا معلوم ہوا بہت افسوس ہوا، تدفین کب ہوگی‘۔میرے لیے یہ کوئی خاص بات نہ تھی اکثر احباب مجھے صمد اور صمدکو صمدانی ہی سمجھا کرتے تھے۔ آج جب کہ میں ان کے تعزیتی اجلاس میں شرکت کے لیے نکل رہا تھا کنیڈا سے میرے اور صمدکے دوست کا میسیج فیس بک پر دیکھا، لکھا تھا ’’صمدانی صاحب کے انتقال کا علم ہوا بہت افسوس ہوا‘‘۔ان باتوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دنیاوی تعلقات میں میرا اور صمدا نصاری کا تعلق کس قسم کا تھا۔ اپنے دوست کی موت مجھے اپنی ہی موت محسوس ہوتی ہے۔ اللہ اس کی مغرفت کرے۔کچھ ہی دیر میں قافلہ قبرستان پہنچ گیا۔خوش قسمتی دیکھیں کہ جوں ہی گہوارہ بس سے باہر نکا لا گیا میں قریب ہی تھا اور مجھے چاروں کاندھے دینا نصیب ہو گیا۔قبرستان ایک ایسا دارالمقابر ہے جہاں ایک خاص نظم و ضبط ہے، کوئی مکین اپنی حد سے تجاوذ نہیں کرتایعنی انکروچمنٹ نہیں ہوتی، یہ تو ہم انسانوں کی بستیاں ہیں جہاں کا ہر رہائشی اس کوشش میں رہتا ہے کہ اس کا بس چلے تو اپنے گھر کے سامنے کی گلی یا سڑک کو بھی اپنے گھر میں شامل کرلے۔کاش ہم شہر خاموشاں کے مکینوں سے ہی کچھ سبق سیکھیں۔ اب وقتِ آخر تھا۔ سب لوگ سر جھکائے لحدِصمدکے گرد جمع تھے۔ میں کوشش کرکے لحد کے نذدیک تر ہوگیا، اپنی صحت اور کمر کی تکلیف کے باعث اپنے دوست کے جسد خاکی کو اپنے ہاتھوں آغوش لحد کے سپرد نہ کرسکتا تھا تاہم اس منظر کو نزدیک سے دیکھتا رہا ۔غم و حُزن کی اس کیفیت میں سوچ کا مہور میرا دوست ہی تھا۔ قبرستان میں کتنے ہی لوگ ابدی نیند سو رہے ہیں۔ یکا یک مجھے کلام مجید کی سورۃ ’طٰہٰ ‘ کی آیت 55 کا خیال آیا جس میں اﷲ تعالیٰ نے کہا ہے کہ ’’اسی زمین میں سے ہم نے
تمہیں پیدا کیا اور اسی زمین میں پھر واپس لوٹائیں گئے اور اسی سے پھر دوبارہ تمہیں نکال کھڑا کریں گئے‘‘۔اسی حوالے سے کہاوت مشہور ہے کہ پہنچی وہی پے خاک جہاں کا خمیر تھا‘۔ بیشک ہمیں واپس لوٹ کر جانا ہے۔یہ شعر اس وقت کی صورت حال کی عکاسی کرتا ہے ؂
ہجوم سلسلۂ رفتگان دکھائی دیا
زمین پر ہی مجھے آسماں دکھائی دیا

قبر کی تاریکی ، خوف اور دیگر باتیں اپنی جگہ لیکن اس وقت صمدانصاری کی لحد ان کے مزاج کے عین مطابق صاف ستھری، کشادہ، روشن، اونچائی پر، سر پر سائیہ دار درخت اور سادہ سی لگی لیکن کچھ دیر بعد جب اس لحد کے اندرونی منظر کو دنیا کی نظروں سے اوجھل کردیا جائے گا اور دنیاوی روشنی سے تعلق نہ رہے گا یقیناًخدا کی رحمت کی روشنی اُسے منور رکھے گی۔کچھ ہی دیر میں لحد کو اوپر سے ٹاپ دیا گیا ، احباب نے لحد پر مٹی ڈال کر اہل قبر سے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے میرے دوست کا جسد خاکی منوں مٹی تلے چلا گیا۔ ہندوستان کی ریاست گوالیارکے شہرلشکر‘ میں 10 اکتوبر1944 میں شروع ہونے والی زندگی کا اختتام پاکستان کے شہر کراچی میں21جون 2017 میں
73 سال کی عمر میں ہوا۔ ڈاکٹر اسلم فرخی کا یہ شعر حسب حال ہے ؂
آج اپنے ہی ہاتھوں تجھے مٹی میں دباآئے
کل تک تیرے جینے کی دعا مانگ رہے تھے

کسی شاعر نے کیا خوب کہا محسوس ہوتا ہے کہ صمد انصاری کے دنیا سے رخصت ہوجانے کی کیفیت کو ہی بیان کردیا ہے ؂
رنج کتنا بھی کریں ان کا زمانے والے
جانے والے نہیں لوٹ کے آنے والے
کیسی بے فیض سی رہ جاتی ہے دل کی بستی
کیسے چپ چاپ چلے جاتے ہیں جانے والے
ایک پل چھین کے انسان کو لے جاتا ہے
پیچھے رہ جاتے ہیں سب ساتھ نبھانے والے
5جولائی2017

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 866 Articles with 1438755 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More