گزشتہ دو ہفتے مَیں اپنے دوست عبد الصمد انصاری کی اچانک
رحلت کے باعث ذہنی طور پر بہت ڈسٹرب رہا۔کمپیوٹر کھولنے کو جی ہی نہیں
چارہا تھا۔ اس دوران سیاسی موسم میں خوب گرما گرمی رہی، پاناما لیکس کے
فیصلے نے تاحال پوری قوم میں ہل چل مچائی ہوئی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں
سپریم کورٹ کا2/3کا فیصلہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ یہ فیصلہ 20اپریل2017 کو
سنا یا گیا تھا ۔اس فیصلے کے بعد جب سے جے آئی ٹی تشکیل پائی ہے عمران خان
نے حکمرانوں کو تگنی کا ناچ نچا یا ہوا ہے۔ ان کی نیندیں اچاٹ کی ہوئی ہیں۔
سپریم کورٹ کے احکامات پر تشکیل پانے والی جے آئی ٹی اپنا کام جس تیز
رفتاری ، انہماک، توجہ اور ایمانداری سے کررہی ہے وہ قابل تحسین ہے ۔اس پر
انگلیاں اسی جانب سے اٹھ رہی ہیں جن کے مفاد پر ضرب پڑھ رہی ہے۔ جے آئی ٹی
کو جو وقت سپریک کورٹ نے دیا تھا اُسے مقررہ وقت میں اپنے مقاصد حاصل کرکے
رپورٹ سپریم کورٹ کو پیش کرنا ہے۔ ایسا تب ہی ممکن ہوسکتا ہے کہ کمیٹی ایف
16 کی طرح پروزاز کرتے ہوئے مستعدی اور تیز رفتاری سے کام کرے۔ کمیٹی کو
سپریم کورٹ نے کیا کام سونپا تھا؟ یہی نہ کہ سپریم کورٹ کے پانچ میں سے دو
معزز جج صاحبان نے تو بہت واضح اور دوٹوک فیصلہ محترم نواز شریف کے بارے
میں دیدیا کہ وہ صادق اور امین نہیں، البتہ تین معزز جج صاحبان کا خیال تھا
کہ ابھی حتمی فیصلہ نہیں کرتے بلکہ ایک کمیشن یا کمیٹی تشکیل دے کر معلوم
کر لیتے ہیں کہ نواز ایند کمپنی واقعی بے گناہ ہے یا نہیں۔ یہ بھی طے پایا
کہ کمیٹی خود سپریم کورٹ تشکیل دے گی جو تحقیقات کے بعد ساٹھ دن کے اندر
اپنی رپورٹ سپریم کورٹ کو پیش کرے گی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کو نون لیگیوں
نے اپنے حق میں سمجھا اس لیے کہ ججوں کی اکثریت نے دو ججوں کے فیصلے سے
اتفاق نہیں کیا ، حالانکہ سپریم کورٹ کے پانچوں جج صاحبان اس بات پر متفق
ہیں کہ قبلہ وزیر اعظم میاں نواز شریف اپنی بے گناہی ثابت نہیں کر سکے ،
اور نہ ہی ان کے بیٹوں نے عدالت کو مطمئن کیا ۔ تین جج صاحبان کی رائے کہ
ایک اور موقع دیا جائے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا۔ اس عمل کو سپریم کورٹ
نے جے آئی ٹی کے ذریعہ آگے بڑھا یا۔
جے آئی ٹی نے کن لوگوں سے پوچھ گچھ کرنا تھی لازمی طور پر وزیر اعظم صاحب
سے ان کے بیٹوں سے، بیٹی سے، سمدی جی سے، اور اس قطری شہزادے سے جو میاں
صاحبان کی ہمدرد میں اکھاڑے میں بلاوجہ کود گیا۔ کیوں کہ جے آئی ٹی کورٹ
نہیں بلکہ تحقیقاتی ادارے کے طور پر کام کررہی ہے اس لیے اس کی حیثیت سپریم
کورٹ کی نہیں ۔ اس وجہ سے جن لوگوں کو جے آئی ٹی نے طلب کیا ، ان سے پوچھ
گچھ کرنے کے لیے ، ان کے اندر سے چیزیں نکلوانے لیے طلب کیا جاتا رہا،ان
مجرموں کوفائیو اسٹار ہوٹل میں دعوت کے لیے نہیں بلا یا جارہا تھا۔ تحقیقات
تو ملزموں سے ہی ہوا کرتی ہے۔ اب تو جناب نون لیگیوں نے طوفان سر پر کھڑا
کر لیا۔ جے آئی ٹی کو مشکوک بنانے کا ہر ہربہ استعمال کیا، جس نون لیگی کو
دیکھوں آنکھیں نکال نکلار کر ، پھنکارے بھر بھر کر جے آئی ٹی کے اراکین پر
چڑھائی شروع کردی۔ میاں صاحب کے صاحبزازگان کو متعدد بار بلایا گہا، ان کی
ایک فوٹو بھی لیک ہوگئی جس پر اور زیادہ طوفان کھڑا ہوا، حالانکہ وہ تصویر
اگر لیک ہوبھی گئی تھی اول تو ہونی نہیں چاہیے تھی لیکن اگر کسی نے یہ غلطی
کر بھی دی تو کیا ملزم کو الٹا لٹکایا ہوا تھا، ان کے ساتھ ظلم و زیادتی
ہورہی تھی، جے آئی ٹی کے اراکین کے سامنے میز اور کرسی پر وہ بیٹھے تھے،
گھبراہٹ، پشیمانی، خوف کے باعث انہوں نے سر اور کمر کو نیچے جھکا یا ہوا
تھا۔ملزموں کو عدالت کے کٹھیرے میں کھڑا کر کے تفتیش ہوا کرتی ہے۔ ماضی میں
نوز حکومت میں ہی پاکستان پیپلز پارٹی کے خواتین کے ساتھ اس طرح باعزت
طریقے سے تحقیقات ہوئیں،خواتین کو پولیس موبائل میں تھانے لے جایا جاتا رہا
ہے۔ آج ہی سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل ہوئی جس میں پی پی کی شہلا رضا کو
پولیس موبائل میں مردپولیس والوں کے ساتھ بیٹھا کر لے جایا جاتا رہا ہے۔
اسی طرح شرمیلا فاروقی کی تصویر سے بھی صاف عیاں ہے کہ اس پر ٹارچر کیا
گیا۔ کہتے ہے اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے، جس جس نے اپنے سیاسی مخالفین
پر ظلم زیادتی کی قدرت نے از خود ان کو نشان عبرت بنا دیا۔ ان میں خواہ
جمہوری حکمران ہوں یا فوجی حکمران ہوں ، سب اللہ کی گرفت میں آئے ۔ بعض بعض
کی تو اس قدر سخت پکڑ ہوئی کہ ان کی موت بھی درد ناک اور عبرت ناک
ہوئی۔اللہ ان کی بھی مغفرت کرے۔
نون لیگ کی قیادت نے واویلا مچایا کیوں کہ جے آئی ٹی نے نواز شریف کی
صاحبزادی مریم نواز کو تحقیقات کے لیے طلب کیا ۔ جے آئی ٹی نواز شریف سمیت
متعدد افرادد کو طلب کر چکی تھی، دونوں بیٹے حسن اور حسین کئی کئی بار طلب
کیے گیے،جے آئی ٹی کے سامنے شیر بنتے تھے یا گیدڑ کسی کو نہیں معلوم لیکن
باہر آکر جے آئی ٹی کے خلاف زہر اگلنا ان کا معمول تھا۔ گھنٹو تفتیش کرکے
باہر آنے والے اس قدر بپھرے ہوئے نہیں ہوتے تھے جتنے شاہ کے وفادار ہوا
کرتے تھے۔ عابد شیر علی شیری دکھانے میں ماہر۔ دانیال عزیزاپنی وفاداری
ثابت کرنے میں زمین آسمان کے قلابے ملانے میں پیش پیش، طلحہ چودھری، سعد
رفیق یہ وہ وفادار ہیں جنہیں جے آئی ٹی نے طلب نہیں کیا لیکن یہ جے آئی ٹی
کے بارے میں ایسی ایسی باتیں کرتے رہے ہیں کہ اگر جے آئی ٹی کی جگہ عدالت
ہوتی تو سب پر کنڈیم آف کورٹ لگ چکا ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ سمدی جی لال پیلے
ہوئے ، یہ نہیں بتایا کہ جے آئی ٹی کے اراکین نے آپ سے کیا کیا سوالات کیے
اور آپ نے کیا جوابات دئے، اس کے برعکس انہوں نے توپ کا دھانا عمران خان کی
جانب کھول دیا، اچھا اس سے قبل بھی نون لیگ کے لیڈروں نے عمران خان کو
تنقید کا نشانہ بنا یا لیکن نام لیے بغیر حتیٰ کہ میاں نواز شریف نے عمران
خان پر تنقید کی لیکن انہوں نے بھی عمران کا نام نہیں لیا لیکن سمدھی جی تو
بس تو آپے سے باہر فرمایا ،سرخ آنکھیں، ماتھے پر شکنیں، منہ سے جھاگ اگلتے
ہوئے اپنی توپوں کا دھانا عمران خان کی جانب فرمایا ’عمران ڈرپھوک ہے،
جھوٹا ہے ، جاہل، بد کردار ہے، جواری ہے، وہ اپنی شادی کو بھی چھپاتا رہا
اور مشرف کے جوتے چاٹتا رہا، اور نہ معلوم ذاتی نوعیت کی باتیں حتیٰ کے
عمران کی بہنوں اور بیوی بچوں کو بھی نہیں چھوڑا۔ان تمام باتوں کو سمدھی جی
آپ کا جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے سے کیا تعلق ہے۔ دوسروں کی ماں بہنیں ،
بیوی اور بیٹیوں پر ظلم ہوا ، وہ نظر نہیں آیا، جے آئی ٹی نے مریم نواز کو
طلب کیا تو سمدھی جی کے دل نہ تواں پر بہت گراں گزرا۔ سمدھی جی سیاست اسی
کا نام ہے، آج آپ کی کل دوسروں کی بارے ہے۔ جیسا کروگے ویسا بھروگے۔
آخر میں بی بی مریم جنہوں نے عملی سیاست میں باقاعدہ حصہ لینا شروع کردیا
ہے، اجلاس کرتی ہیں، وزیر اعظم سیکریٹیریٹ میں کارکنوں سے میل ملاقات کرتی
ہیں، یہی نہیں بلکہ انہیں میاں نواز شریف کا جانشین کہا جارہا ہے۔ ویسے بھی
عمر کے اعتبار سے وہ نانی بن چکیں ہیں ۔ اگر وہ خانہ دار خاتون ہوتیں ،
سیاست سے دور پرے کا واسطہ نہ ہوتا ، پھر انہیں جے آئی ٹی میں بلایا جاتا
تو وہ قابل اعتراض بات ہوتی لیکن اس وقت ان کی جو سرگرمیاں ، جائیداد میں
حصہ دار ہونے ، سیاسی معاملات میں سرگرم ہونے کی صورت میں انہیں جے آئی ٹی
میں بلانا کوئی غیر اخلاقی اور غیر قانون عمل نہیں معلوم ہوتا۔ پھر جب وہ
جے آئی ٹی روم گئیں بہت پر اعتماد ، کارکنوں کو ہاتھ ہلاتے ہوئے ، ہشاش
بشاش ، ہنستی مسکراتی، بھائیوں ، شوہر اور ایک عدد پولیس افسرجس نے انہیں
دیکھتے ہی سلوٹ بھی کیا، تمام تر سیکیوریٹی میں وہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش
ہوئیں۔ واپسی پر بھی بہت پر اعتماد اور مطمئن لگ رہی تھیں۔ پہلے تو یہ خیال
ہوا کہ وہ میڈیا کو فیس نہیں کریں گی بلکہ سیدھی واپس چلی جائیں گی لیکن وہ
بڑے ہی پر اعتماد اور ایک منجھی ہوئے سیاستداں کی طرح مائیک کے سامنے تشریل
لائیں اور بولنا شروع کیا۔ ان کے سامنے پیپر تو نہیں تھا لیکن ڈیبیٹ میں
حصہ لینے والوں کی طرح وہ فر فر بولے چلی جارہی تھیں، نپے تلے الفاظ، جملوں
کا بر محل اور خوبصورت استعمال، پیچ میں جب بھی کوئی میڈیا پرسن سوال کرنے
کی کوشش کرتا وہ اسے روک دیتیں ، ایسا انہوں نے تین بار کیا اور یہ انداز
ایسا تھا کہ جس سے یہ تاثر مل رہا تھا کہ وہ اپنی بات مکمل کرنے کے بعد
صحافیوں کے سوالات کے جوابات بھی دیں گی۔ ان کی تقریر، پہلے سے لکھی ہوئی
اور یاد کی ہوئی تھی، سینئر کالم نگار سید محمود انور صاحب نے اپنے کالم
میں مریم بی بی کی اس ڈیبیٹرانہ تقریر کے لیے لکھا کہ’ یہ تقریر یا بیان تو
عرفان صدیقی یا کسی اور سے لکھوا کر رٹ کر بولا گیا ہے‘۔انور صاحب کی رائے
میں وزن ہے، یہ کارنامہ مجھے بھی عرفان صدیقی صاحب کاہی محسوس ہوتا ہے۔
محمود انور صاحب نے روزنامہ جنگ کے رپورٹر صالح ظافر کو بھی تنقید کا نشانہ
بنا یا جس کا کام ہر روز نون لیگ ، نواز شریف کے حق میں زمین آسمان کے
قلابے ملاتے رہنا ہے، ہر چیز ایک حد ہوتی ہے۔ اخبار کھولیں مقررہ صفحہ پر
کالے چشمے کے ساتھ فوٹواور مداہ سرائی۔حق اور سچ لکھو، تمہیں اور تم جیسوں
کو نون لیگ کی کوئی خامی نظر ہی نہیں آتی۔ پاکستان میں ایک ظافر ہی نہیں
کئی صافر، ظاہر، باطن اور قاسم ایسے ہیں کہ جن کا یہی کام ہے۔ ایک زمانے
میں یہی کچھ عرفان صدیقی صاحب قبلہ بھی کیا کرتے تھے۔ ان کی کتاب ’کالم
کہانی‘ پڑھ لیجئے۔ انہیں تو وفاداری کا صلاح مل گیا، قاسمی صاحب اور پیمرا
کے چیئمین بھی اداروں کے سربراہان بنے ہوئے ہیں۔ بعضوں کے لیے یہ کافی ہے
کہ وہ وزیراعظم جب بیرون ملک دورے پر جائیں تو وہ باراتیوں میں شامل ہوں۔
بات مریم نواز کی میڈیا سے گفتگو کی ہورہی تھی۔ رٹی ہوئی تقریر کرتے کرتے
انہوں نے اختتامی نعرہ بلند کیا اور ہاتھ ہلاتے ہوئے یہ جا اور وہ جا ،
صحافی بیچارے ہاتھ ملتے ، سوال پوچھنے کے لیے ان کی جانب لپکتے رہ گئے اور
مریم نواز میڈیا کو ماموں بنا کر یہ جا اور وہ جا۔مریم نواز کا میڈیا کو
فیس نہ کرنا بتا رہا ہے کہ یہ سب کچھ پری پلان ہوا ہے۔ کیا کہنا ہے، کس کو
کہنا ہے، کیسے صحافیوں کو ڈاچ دینا ہے، کس طرح آخری جملے کہہ کر میڈیا کو
ماموں بنا کر واپس کرنی ہے۔ اس منصوبے میں مریم نواز اور منصوبہ ساز کامیاب
دیکھا ئی دیتے ہیں۔ لیکن ایسا کر کے مریم نواز نے اپنے بارے میں غلط تاثر
قائم کرایا، انہوں نے جس قدر اچھی تقریر کی تھی، ان کے انداز سے مخالفین کی
صفوں میں ٹھنڈ پڑتی دکھائی دی تھی میڈیا سے فرار نے مریم نواز کی تمام تر
پریزنٹیشن کو صفر کر دیا۔ |