آئو جذبات جذبات کھیلتے ہیں، تم میرے جذبات سے کھیلو!
میں تمہارے جذبات سے کھیلوں گا۔ اس طرح ایک نیا ’جذباتی ہندوستان ‘ بنائیں
گے۔۔۔!
۔۔۔منکووووووول۔۔۔
ملک میں ان دنوں جذبات بھڑکانے کا کھیل عروج پر ہے۔ ہندو نیتا ہو یامسلمان
لیڈر ہر کوئی اپنی قوم کے جذبات بھڑکانے میں مصروف ہے۔ اکثریتی طبقے کی طرف
سے بھی جذبات سے کھیلنے کا کام جاری ہے اور اقلیتی طبقات کے کچھ افراد بھی
جذبات سے کھیلنے میں مصروف ہیں۔ہندو مسلمانوں کے مذہبی جذبات بھڑکارہے ہیں
، تو مسلمان ہندوئوں کے دیوی دیوتائوں کے بارے میں بُرا کہہ کر ان کے جذبات
سے کھیل رہا ہے ، جس سے ہندوستان کی برسوں پرانی روایت گنگا جمنی تہذیب
دائو پر لگی ہوئی ہے۔ ملک کے سبھی لیڈروں کی تقاریر اشتعال انگیزی سے پر
ہے۔ ہندو مسلمان کو دھمکی دے رہا ہے اور مسلمان ہندوں کو۔ کوئی کسی کی مردہ
ماں بہن کو قبر سے نکال کر بے حرمتی کرنے کی کہہ رہا ہے ،گالیاں بک رہا ہے
، عزت و حرمت پامال کررہا ہے ، تو کوئی ہندو تنظیموں کو للکار کر ان سے تلک
و ٹوپی کا سوال کررہا ہے۔ کوئی پاکستان جانے کا مشورہ دے رہا ہے تو کوئی
یہیں رہ کر اپنے حقوق کی بازیابی کا مطالبہ کررہا ہے۔ ان دونوں میں کون سچا
ہے ، کون جھوٹا ،کیا حقیقت ہے ؟کیا فسانہ ؟اس سے عوام بخوبی واقف ہیں ، کون
ملک کے مفاد میں ہے ، اور کون ملک کے لیے نقصاندہ ، اس سے بھی سیکولر ازم
اور جمہوریت پر یقین رکھنے والے آگا ہ ہیں۔
ہندواور مسلمانوں میں بڑھتی ہوئی خلیج کو دیکھ کر ایسا لگنے لگا ہے کہ کہیں
ہندوستان پھر تقسیم نہ ہوجائے۔ آج صورت حال سے واضح ہورہا ہے کہ ملک رہنے
والے ایک نہیں ہیں ، اور یہ احساس قلب پر دستک دے رہا ہے کہ کہیں وہی حالات
دوبارہ نہ پیدا ہوجائیں جو1947میں تقسیم ہند کے وقت ہوئے تھے۔ اور جس صورت
حال کاہندوستان شکار ہوا تھا ،اگر ایسا ہوتا ہے تو ہندوستان سرخ ہندوستان
میں تبدیل ہوجائے گا، سرزمین ہند لاشوں اَٹی ہوں گی،غم و اندوہ میں ڈوبے
ہوئے افراد کے چہروں پر آنسوئوں کے دھارے بہتے ہونگے ور انکے قلوب سے
اٹھتی چیخیں دب کر رہ جائے گی، گلے تک کا سفر طے نہیں کرسکیں گی ،کسی کو
کچھ سنائی نہیں دے گا۔ اس کشت وخون کی بہتی ندی میں دونوں قومیں ڈوب جائیں
گے ، ان کا صرف نقصان ہی ہوگا فائدہ نہیں۔ ہاں البتہ فائدہ ان فرقہ پرستوں
کا ہوسکتا ہے جو لاشیں گرانے پر یقین رکھتے ہیں، جو لہو پینے کے عادی ہیں،
جو لاشوں پر کرسی کے پائے رکھتے ہیں۔ حالانکہ ایسا ممکن نہیں ہے کیوں کہ
اکثریتی طبقے کے وہ افراد جن کا سیکولر ازم اور جمہوریت پر ایمان ہے وہ یہ
یقین رکھتے ہیں کہ ہندو مسلم اتحاد ہی ملک کی سلامتی کا ضامن ہے ، وہ کھل
کر مسلمانوں کا ساتھ دے رہے ہیں، ہر جگہ انہیں سپورٹ کررہے ہیں۔ حالیہ دنوں
میں مسلمانوں پر ہورہے مظالم کا انہوں نے کھل کر ساتھ دیا، اور ان کے حق کے
لیے حکومت وقت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا اور کررہے ہیں۔ ناٹ ان مائی
نیم تحریک پوری شدت سے ملک میں جاری ہے، اْمید کی جاسکتی ہے اس تحریک کے
اثرات جلد ہی مرتب ہوں گے ۔ اب ہمیں چاہئے کہ ہم ان نفرت کے سوداگروں سے
خود کو بچائیں، ان نیوز چینلوں سے جن کا کام ہی نفرت کی اشاعت ہے دور رہیں
،ان کی خبروں کابائیکاٹ کریں، ان ٹی وی سیریلوں کا جو آج کل ہندو مسلم
معاشرہ کی غلط تشریح کرکے ہندو مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کرنے والے قصوں کو
دکھارہے ہیں ،ان کا بائیکاٹ کریں۔ اگر ہم اس طرح ان لوگوں کے خلاف آئیں گے
تو ہمارے مستقبل کا ہندوستان خوشگوار رہے گا، اگر ہم ان کے دام فریب میں
آگئے تو ملک کا اللہ ہی خیر کرے۔ ہمیں امید ہے ان سیکولر ازم کے پاسداروں
سے جنہوں نے ہمیشہ ہندوستانی اقلیت کا ساتھ دیا ہے اور دے رہے ہیں ، وہ جب
تک ہیں اور ان کی سوچ والے جب تک رہیں گے ہندوستان پر کوئی آنچ نہیں آئے
گی۔ لاکھ فرقہ پرست اشتعال انگیزی کریں یہ اپنے صبروضبط سے لاء اینڈ آرڈر
کا پاس ولحاظ رکھتے ہوئے انہیں منہ توڑ جواب دیں گے، ان کے عزائم نیست
ونابود کردیں گے، ان کی فکر کو دبادیں گے۔
ضرورت ہے ہم ایک دوسرے کے قریب آئیں، انہیں سمجھیں، سمجھائیں ، ان کی نفرت
بھری باتوں کو سن کرمشتعل ہونے کے بجائے مصلحت سے کام لیتے ہوئے انہیں
انہیں بتائیں کہ یہ جو باتیں آپ تک پہنچائی گئی ہیں ان کی کوئی اصل نہیں
ہے۔ آپ فرقہ پرستوں کی باتوں میں آکر ملک کا نقشہ نہ تبدیل کریں، اسلام
امن پسندوں کا مذہب ہے، اسلام میں ناحق قتل جائز نہیں، وہ ایسا مذہب ہے
جہاں راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانے پر بھی ثواب ملتا ہے ، تو سوچیں وہ کیوں
ہندوستان کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکائیں گے۔ ہمیں انہیں باور کرانا ہوگا
اس کے لیے ہمیں زمینی سطح پر محنت کرنی ہوگی جس طرح آر ایس ایس نے زمینی
سطح پر محنت کی ہے ، اور اس کی اس محنت کا انہیں آج یہ ثمرہ مل رہا ہے کہ
وہ اکثریتی طبقے کے چند افراد کو ،برسوں سے گنگا جمنی تہذیب پر رکھنے والے
لوگوں کو گاندھی نظریے سے ہٹا کر گوڈسے کی راہ پر لے آئے ہیں۔ ہمیں بھی
اسی طرح محنت کرنی ہوگی اور بہت جلد کرنی ہوگی اس کے لیے کسی تنظیم کی
ضرورت نہیں ، ہر کوئی اپنے سے شروع کرے اور مخلص ہوکر شروع کرے ، ان شاء
اللہ ہمیں اس کا پھل ملے گااور ہم کامیاب ہوجائیں گے۔ ملک کو نفرت کی
آندھی میں دھکیلنے والوں کے عزائم خاک کردیں گے اور ہندوستان کو خاک وخون
میں لت پت ہونے سے بچالیں گے۔ ہمیں برادران وطن کو یہ بھی باور کرانا ہوگا
کہ اگر اسلام دہشت گردوں کا مذہب ہوتا، وہ جبراً مذہب تبدیل کروانے پر یقین
رکھتے تو ہندوستان میں ساڑھے نو سو سال تک مسلمانوں کی حکومت رہی، زمام
اقتدار ان کے ہاتھوں میں رہا، وہ ہندوستان کے سیاہ وسفید کیمالک رہے ، لیکن
کبھی انہوں نے برادران وطن کو تکلیف نہیں دی، کبھی جبراً تبدیلی مذہب پر
مجبور نہیں کیا،کبھی ان کی مذہبی رسومات کو تبدیل کرانے کے درپے نہیں ہوئے،
کبھی ان کے مقدس مقامات کی بے حرمتی نہیں کی، کبھی کوئی مندر نہیں ڈھایا۔
اگر وہ ایسا کرتے تو ساڑھے نو سو سال کے طویل عرصے میں ہندوستان میں ہندو
نام کی کوئی چیز نہیں رہتی، اور ہندوستان خالص مسلم ملک ہوجاتا اور آزادی
کے بعد جو ہندو سوکروڑ ٹھہرے اور مسلمان پچیس کروڑ یہ اْلٹا ہوسکتا تھا
ہندو پچیس کروڑ رہتے اور مسلمان سوکروڑ ، لیکن ان بادشاہوں نے ایسا نہیں
کیا۔ اس الزام کی حقیقت سے انہیں آگاہ کرانا ہوگا۔ ہندو مسلم اتحاد کے لیے
ضروری ہے کہ ہم فرقہ پرستوں کا کھل کر مقابلہ کریں ’ناٹ ان مائی نیم کی
تحریک کو پورے ملک میں زور وشور سے چلائیں، سیاسی پارٹیوں اور سیاسی
تنظیموں کو اس سے دور رکھیں کیوں کہ منکول کی رائے کے مطابق ، جہاں سیاست
آجاتی ہے وہاں سودے ہوتے ہیں قوم کے مفاد کی باتیں نہیں اوریہ سیاسی
پارٹیاں صرف اور صرف جذبات سے کھیلنا جانتی ہیں کیوں کہ انہیں ملک کو
’جذباتی ہندوستان ‘بنانا ہے۔ |