رواں مون سون کا آغاز شدید ترین بارشوں سے ہوچکا ہے
، اور محکمہ موسمیات نے رواں مون سون میں شدید طوفانی بارشوں کی پیش گوئی
کی ہے۔ گزشتہ دنوں ہونے والی بارشوں اور پہاڑوں پر برف پگھلنے کے باعث
مختلف دریاؤں میں سیلاب کی صورتحال پیدا ہورہی ہے ،اور آئندہ ہونے والی
مذید بارشوں سے سیلاب کا خطرہ مذید بڑھ سکتا ہے۔ طوفانی بارشوں اور قدرتی
آفات سے بچاؤ تو آج کی ترقی یافتہ دنیا میں بھی ممکن نہیں، چین اور بھارت
سمیت خطے کے کئی ممالک طوفانی بارشوں اور سیلاب کی زد میں آجاتے ہیں اور
وہاں بھی بڑے پیمانے پر نقصانات ہوتے ہیں، البتہ اتنا ضرور ہے کہ بہتر
منصوبہ بندی، احساس ذمہ داری اور بروقت اقدامات سے نقصان کی شدت کو از حد
کم کیا جاسکتا ہے۔موجودہ دور کے بہت سے ممالک میں بہتر نظم و نسق، مستحکم
بنیادی ڈھانچے، انسانی زندگی کے تحفظ کی خاطر کیے جانے والے اعلیٰ پیمانے
کے انتظامات کی بدولت بارشوں، سیلاب اور طوفانی برف باری کے نتیجے میں پیدا
ہونے والی مشکلات پر فی الفور قابو پانے کی کوشش کی جاتی ہے اور ناگہانی
آفات کے موقع پر عوام کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑا جاتا جبکہ مملکت
خداداد پاکستان میں حالات اس کے برعکس ہیں یہاں سنگیں مسائل پر کمیٹیاں
بنتے بنتے اور ان پر کام شروع ہوتے اتنا عرصہ لگتا ہے کہ پانی سر سے گزر
جاتا ہے۔پاکستان میں عوام کے تحفظ کے لیے مناسب اقدامات نہ ہونے کے برابر
ہیں، اعلیٰ حکومتی شخصیات اور اداروں کی غفلت و لاپرواہی کے نتائج گزشتہ
سالوں میں آنے والے سیلاب کے دوران قوم بھگت چکی ہے۔ جبکہ اگر پاک فوج،
رفاہی اداروں اور علاقائی رضا کاروں کی طرح حکومتی ادارے اور متعلقہ حکام
بھی عوام کے تحفظ کی خاطر مکمل سنجیدگی، دلچسپی ،خلوص اور احساس ذمہ داری
سے کام لیں تو یقینا ممکنہ سیلاب کے نقصان سے بچا جاسکتا ہے۔ یہاں اس امر
کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ گلوبل وارمنگ ، موسمیاتی تغیر، اور خطے کی آب و
ہوا میں تبدیلی کے باعث ماہرین کے مطابق بارشوں کی شدت میں اضافہ اور سیلاب
کے خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔ اور اب ایک مرتبہ پھر موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث
شدید بارشوں اور بڑے پیمانے پر سیلاب کے خطرات کو محسوس کیا جا رہا ہے۔مذید
یہ کہ بھارت نے دریائے چناب کا پانی دس ماہ سے روک رکھا تھا جس کی وجہ سے
دریائے چناب کا پانی محض اٹھارہ ہزار کیوسک تھاجبکہ حالیہ بارشوں کے بعد اس
کی مقدار بڑھ کر چالیس ہزار کیوسک ہوئی تھی ، مگر بھارت کی جانب سے اچانک
پانی چھوڑے جانے پر سیلاب کا خطرہ مذیدبڑھ سکتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا
ہے کہ ان حالات سے ممکنہ بچاؤ کے لیے حکومت نے اب تک کیا حکمت عملی اختیار
کی ہے؟ ۔ 2009 ء کے سنگین سیلاب کے بعد ملک بھر کے زرائع ابلاغ اور قومی
حلقوں نے نئے، بڑے ڈیموں کی تعمیر کی ضرورت پر زور دیا تھالیکن اس وقت کی
حکومت نے اس انتہائی سنجیدہ معاملے کوسیاسی مفادات کی بناہ پر نظر انداز
کردیا۔ نئے ڈیموں کی تعمیر ہماری معیشت و زراعت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کے
مترادف ہے ، کیونکہ پانی کے محفوظ ذخائر کی بدولت ہم نہ صرف زر عی خود
کفالت حاصل کر سکتے ہیں بلکہ دو لاکھ میگاواٹ یومیہ مقدار تک کی بجلی بھی
حاصل کرسکتے ہیں۔ فرائض شناسی ، ذمہ داری کا احساس اور عوام کے ساتھ حقیقی
وابستگی ہو تو کم وسائل کے باوجود عوام کو جان و مال کا تحفظ فراہم کرنا
ممکن ہوسکتا ہے ۔ہمارے حکمرانوں کو لازمی طور پر اپنی ذمہ داریوں کا احساس
کرتے ہوئے، ملک کو بحرانوں سے نجات اور ممکنہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے
بچانے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر حفاظتی اقدامات مکمل کرنا چاہیے، یہ نہ ہو کہ
حکمران محض کمیٹیاں بناتے رہیں اور پانی ایک بار پھر سر سے گزر جائے۔ غربت
و مہنگائی کے ستائے عوام پاکستان مذید کسی نئی آفت اور نئے بحران کو جھیلنے
کی سکت بالکل نہیں رکھتے۔
٭……٭……٭ |