بلوچستان معدنیات کے ساتھ ساتھ زرعی حوالے سے بھی کافی
زرخیز ہے،یہاں کافی تعداد میں گندم،چاول،مکئی،جوار،دالیں،سبزیات اور مختلف
اقسام کی پھلیں پیدا ہوتی ہیں۔مگر بد قسمتی سے یہاں زراعت کے شعبے کو نظر
انداز کیا جاتا رہا ہے۔
رواں سال کے آخر میں ٹماٹر کے فصل نے کسانوں اور زمینداروں کو بہت بڑے
خسارے سے دوچار کیا۔یہاں کے کسانوں کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کی یہاں
قرضے لینا بہت ہی مشکل ہے،کیونکہ اس حوالے سے کوئی حکومتی اقدامات نہیں
ہیں۔اگر ہیں بھی تو امراء کیلئے ہیں۔
دوسری بات فصل تیار ہونے کے بعد کسان پریشان ہوجاتا ہے کہ وہ اپنا مال کہاں
فروخت کرے،اس حوالے سے وہ سندھ اور پنجاب کے بیوپاریوں کے ہاتھوں اونے پونے
بھاؤ اپنا اناج بیچ کر خسارے میں جاتا ہے،کیونکہ یہ بیوپاری حضرات ٤١(اکتالیس
کلو) کو ایک من تصور کرتے ہیں،حالانکہ پورے پاکستان میں چالیس کلو ایک من
ہوتا ہے۔گویا ایک جمہوری حکومت ہونے کے باوجود بھی یہاں اندھیر نگری ہے۔
رواں سال گندم کا فصل مارچ کے وسط سے ہے تیار ہوچکی تھی،مگر حکومت بلوچستان
یہ گندم خریدنے ٢٧(ستائیس مئی) کو پہنچ گئی،یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت
بلوچستان اس طاق میں تھی کہ غریب اپنا اناج بیچ دیں تاکہ حکومتی کارندے
گندم خریداری میں کرپشن کریں۔یا وہ امراء سے گندم خرید کر کے انہیں ریلیف
پہنچائیں۔یاد رہے بلوچستان میں بہت سے نامور شخصیات ہزاروں من گندم اٹھاتے
ہیں۔
بلوچستان میں ایسے کئی واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔دھرتی بلوچستان ایک
“بیورغ“ کے انتظار میں ہے کہ وہ آکر ایسے کرپٹ عناصر کو مٹاکر انصاف کا بول
بالا کرے،اور ایک بار پھر بلوچستان خوشی اور امن کا گہوارہ بنے۔آمین۔
|