بچپن میں رات کے وقت لوڈشیڈنگ کے دوران موم بتی جلا کر اس
کے آس پاس بیٹھ جایا کرتے تھے،قصے کہانیوں میں گھنٹا گزر جاتا تھا اور موم
بتی بھی گزر(پگھل ) جاتی تھی،انچ آدھا انچ بچی موم بتی کو بلب کی روشنی میں
دیکھتے تھے اور یقین نہیں آتا تھا کہ یہ پگھل کر ختم ہوگئی ہے ۔ویسے ہی
زندگی بھی گزرتی جا رہی اور بہت تیزی کے ساتھ ، کم عقلی او رکم فہمی کا
معیار یہی ہے کہ ماضی کل کی بات لگتا ہے او رمستقبل دور بہت دوردھندلا سا
دکھتا ہے ۔کم عقلی اور کم فہمی کا معیار اس سے ابتر او رکیا ہو گا کہ بھرے
قبرستان میں ہمارا رویہ یہی ہوتا ہے کہ مرنا صرف اسی نے تھا جو مرگیا ہم نے
تو ہمیشہ اس فانی دنیا میں رہنا ہے ۔دنیا کے حصول کے لیے بھاگ دوڑ نے
بینائی کے ہوتے ہوئے بھی اندھا کیا ہوا ہے اور بینائی کی موجودگی میں اندھا
ہوناخسارے کا پست ترین مقام ہے ۔
رمضان المبارک کے دوسرے عشرے میں جماعت اسلامی کے اقبال ملک کی طرف سے
افطار پارٹی کی دعوت بالواستہ موصول ہوئی ۔افطار پارٹی،جلسہ اور حلف برداری
کی تقریب کے بعد تھی افطار کے لیے جو چیزیں میسر آئیں اس لحاظ سے یہ دعوت
افطاری میرے لیے فقیرانہ تھی لیکن جلسے جلوسوں میں مجھ جیسوں کو ساتھ ہوتا
ہی ایسا ہے ۔خیر شاگردوں کے علاوہ جو دو چار رفیق ہیں ان میں اقبال ملک بھی
شامل ہیں ۔ جماعت اسلامی کی طرف سے ہونے والے پروگرامز میں مجھے کسی نہ کسی
ذریعہ سے دعوت کا پیغام بھجوادیتے ہیں او رمیں بھی ان کی محبت کو دیکھتے
ہوئے کبھی اس بات سے انکارنہیں کیاکہ ملک صاحب نے براہ راست مجھے خود دعوت
نہ دی ہاں البتہ کوئی مصروفیت ہو تو اس وجہ سے عموماً شرکت کرنے سے رہ جاتا
ہوں ۔اقبال ملک اٹک شہر کے ان دو چار سیاسی شخصیات میں شامل ہیں جو حقیقی
عوامی راہ نما ہونے کے ساتھ ساتھ پڑھے لکھے ہیں ۔ حقیقی عوامی راہ نما اور
حقیقی پڑھے لکھے ہونے کی وجہ سے شرافت ، عوام کے ساتھ رکھ رکھاؤ اور اخلاق
میں بھی اٹک کی باقی سیاسی شخصیات سے منفرد ہیں ۔ تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ
سے درس و تدریس کے ساتھ کافی عرصہ سے منسلک ہیں اور فروغ تعلیم میں اپنا
کردار صرف نعروں سے نہیں لگا رہے ہیں بلکہ عملی طور پر کام کر کے دکھا رہے
ہیں ۔
جماعت اسلامی نے اپنے تنظیمی قواعد و ضوابط کو دیکھتے ہوئے 2013کے الیکشن
میں انھیں اٹک کی صوبائی نشست PP15کے لیے ٹکٹ دیا مگر انھیں کامیابی حاصل
نہ ہوسکی جس کی وجہ ان کی شخصیت یا ان کی جماعت کی پالیسیاں نہیں بلکہ وہ
نظام ہے جس کی بدولت ووٹر ذہنی طور پر اتنے مفلوج اور غلام ہوچکے ہیں کہ وہ
تیز طرار اور پرانے چہروں کے علاوہ کسی اور کو اسمبلی میں دیکھنا ہی نہیں
چاہتے بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ پرانے چہروں کے علاوہ کسی اور کو
اپنے مصائب کا مسیحا سمجھتے ہی نہیں ہیں، جس کی وجہ سے یہ پرانے اور تجربہ
کار ایسی مسیحائی کرتے رہے کہ عوام ذہنی غلامی کی ایسی زنجیر میں جکڑ چکے
ہیں جس میں نکلنا مشکل سے مشکل ہوتا جارہا ہے اور یہی اس نظام کی بناوٹ کی
سب سے بڑی وجہ ہے ۔اسی حوالے سے مجھے ایک ذاتی تجربہ یاد آگیا ہے جو میں
یہاں ـ’’غور و فکر ‘‘ کرنے والوں کے لیے لکھنا مناسب سمجھوں گا:
ہمارے گھر کے سامنے ایک کریانہ کی دکان ہے جس کے مالک کا نام عرفان ہے ہم
انھیں عرفان انکل او ران کے دوست یار عرفان فوجی کہتے ہیں ۔ عرفان انکل
نہایت محنتی او رجفاکش ہیں۔ ان کی محنت کا اس سے بڑا ثبوت او رکیا ہوگا کہ
میں نے ان کی دکان کو ہمیشہ کھلا او رعرفان انکل کو اس میں کام کرتے ہی
دیکھا۔2013کے الیکشن سے پہلے رمضان المبارک میں جب بجلی کا بحران شدید ترین
تھا تو میں گھر سے نکل کر ان کی دکان کے سامنے لگے درخت کی چھاؤں میں بیٹھ
کر لوڈشیڈنگ کے تین ساڑھے تین گھنٹے گزارہ کرتا تھا ۔بحران اس وقت اتنا
شدید تھا کہ لگتا تھا کہ تین ساڑھے تین گھنٹے بعد آنے والی بیس پچیس منٹ کی
بجلی بھی اختتام کے مراحل سے گزر رہی ہے ۔ملکی حالات پر عرفان انکل روز
مجھے لیکچر دیا کرتے تھے اور ملک کے گھمبیر مسائل کی وجہ وہ ملکی جمہوریت
اور اس جمہوریت پر قابض دو خاندانوں خاص کر زرداری اور نوازشریف کو قرار
دیتے تھے ، کبھی کبھی مہنگائی ، نہ انصافی ، ظلم و زیادتی سے دل برداشتہ ہو
کر عرفان انکل اپنی زبان سے پھول بھی نچھاور کرتے تھے ۔
میں عرفان انکل کے اس رویہ اور سوچ پر حیران تھا اور یہی سمجھتا تھا کہ اس
بار الیکشن میں انقلاب او رتبدیلی آکر ہی رہے گی ۔عرفان انکل سے روز تین
چار گھنٹے کا لیکچر سن کر میں تمام افراد کو عرفان انکل ہی سمجھتا تھا اور
ملک کے حالات کے ٹھیک ہونے کی قوی امید لگا کر 2013کے الیکشن کا انتظار
کرنے لگا۔ خیر رمضان المبارک گزرا تو جیسے جیسے الیکشن کے دن قریب آنا شروع
ہوئے لوڈشیڈنگ بھی کم ہونا شروع ہوئی اور میرا عرفان انکل کے پاس جا کر
بیٹھنا بھی کم ہو گیا ۔ الیکشن ہونے سے دو تین ماہ قبل جب نعروں اور جیو ے
جیوے کی صدائیں گلی کوچوں میں گونجنا شروع ہوئیں تو ایک دن میں عرفان انکل
سے حالات حاضرہ پر لیکچر سننے کے لیے چلا گیا ۔ عرفان انکل سے میں نے جب
ووٹ کے بارے میں پوچھا تو بولے میں نواز شریف کو ووٹ دوں گا ، یہ سن کر میں
حیران و ششدر رہ گیا اور حواس باختہ ہو گیا ۔ حواس ٹھکانے آئے تو میں نے
عرفان انکل سے اس کی وجہ پوچھی تو موصوف بولے :بھائی ان کی اپنی فیکٹریاں
ہیں کارخانے ہیں کل اگر ملک کے حالات خراب ہوتے ہیں تو یہ خاندان اپنی
فیکٹریاں او رکارخانے بیچ کر ملک کو بچا لیں گے او رملک کا بچنا ہی ہمارا
بچنا ہے ۔اس پر میں نے عرفان انکل کو یاددلایا کہ یہ فیملی تو پچھلے تیس
سال میں کسی نہ کسی طرح حکومت میں شامل رہی ہے اس دوران ملک کیسے کیسے سخت
حالات سے گزرا تو اس وقت انھوں نے کون سی فیکٹریاں او رکارخانے ملک کے لیے
بیچے الٹا قرض اتارو ملک سنوارو کا پیسہ بھی گمنام ہو گیا ہے ۔ میری بات
غور سے سننے کے بعد موصوف بولے تب اور بات تھی اب اور بات ہے اور دیکھنا
ایسا ہی ہوگااور دیکھنا اگلے پانچ سال اگر ان کی حکومت ہوئی تو ملک کی
تقدیر بدل جائے گی ۔میں عرفان انکل کی یہ بات سن کر حیران تو ہوا مگر امید
اچھی رکھتے ہوئے میں نے عرفان انکل کو بس اتنا کہا کہ اﷲ کرے ایسا ہی
ہوجیسا آپ کہہ رہے ہیں اور عرفان انکل کو دکان پر چھوڑ کر گھر آگیا۔
آ ج اس واقعہ کو گزرے چار سال کا عرصہ بیت چکا ہے ملک خداداد کا بچہ بچہ جو
پہلے ہزاروں روپوں کا مقروض تھا اب لاکھوں کا مقروض ہوچکا ہے ، حکمرانوں کے
کارخانے اور فیکٹریاں بنتی او رپھلتی پھولتی جارہی ہیں او ربینک بھرتے
جارہے ہیں ، جمہوریت جمہوریت میں عوامی خدمت کے دعوے عروج پر ہیں مگر
جمہوری خدمت ۔۔۔ایک سوالیہ نشان ۔۔۔چار سال بعد آج افطار پارٹی میں جاتے
ہوئے میں نے عرفان انکل کو دیکھا ملا اور ان کو کاؤنٹر پر کھڑے حکمرانوں کا
آڑے ہاتھوں لیتا سنا میں ہلکا سا مسکرایا اور افطار پارٹی کی طرف بڑھا ۔
رکشہ میں بیٹھے میں عرفان انکل کے خیال کو ذہن سے نکالتے ہوئے سوچ رہا تھا
کہ 2013کے الیکشن میں ناکامی کے بعد رمضان المبارک میں محترم اقبال ملک
صاحب نے ایک افطار پارٹی کا انتظام کیا تھا جس میں راقم کو بھی دعوت دی گئی
، افطار پارٹی کے استقبالیہ میں اقبال ملک صاحب ملے تو سہی مگر چہرے کے
تاثرات یہ بتا رہے تھے کہ اپنی ہار پر وہ کافی رنجیدہ ہیں ، رنجیدگی کم سہی
مگر تھی ضروراور ہونی بھی چاہیے کیوں کہ ایک فرد جو بنا لالچ اور خیر خواہی
کے جذبہ سے غلامی کی زنجیر میں جکڑی قوم کو آزاد کرانا چاہے اور اسے عوام
ہی ٹھکرا دیں تو رنجیدگی تو ہوتی ہے ۔ مگر انسان سے تو کوشش کے بارے میں
سوال ہوگا جو اقبال ملک صاحب آپ نے اپنے تئیں کی او رکر رہے ہیں ۔
چار سال بیت چکے ہیں وقت موم بتی کی طرح پگھل گیا ،اقبال ملک یتیم بچوں کے
لیے بنائے گئے عظیم پراجیکٹ آغوش اور الخدمت ہاسپٹل کی عظیم و الشان بلڈنگ
کے پاس کھڑے افطار پارٹی کے لیے لوگوں کو خوش آمدید کر رہے تھے ، میں ان سے
ملا ان کا چہرہ امید سے چمکتا ہواپاکستان کے روشن مستقبل کی آس لگائے ہمیں
خوش آمدید کہہ رہاتھا۔ 2018قریب ہے اور ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے عوام کو
ایک اور چانس میسر ہے اور ایسے چانس سالوں بعد ملتے ہیں ۔
|