ہماراظالمانہ نظام

جمشید دستی کی بھی سنی گئی کئی دنوں سے اخبارات میں پڑھ رہے تھے کہ ایم این اے جمشید دستی کو گرفتار کرلیا گیا ان پرکچھ معمولی نوعیت کے الزامات تھے ۔مگر جیل سے ان کی صدائے احتجاج بلند ہوئی کہ ذہنی طور پرتشدد کرکے اذیت دی جا رہی ہے ،ظلم سے نجات دلائی جائے ،ساری قوم نے دیکھا کہ جمشید دستی پر ریاست کے وڈیروں نے اپنی رٹ پوری طاقت کے ساتھ نافذ کی اور انھیں یہ پیغام دیا گیا کہ جوانکشافات تم کر رہے ہواس سے باز آجاؤ ورنہ انجام اس سے بھی برا ہوگا ،قارئین کرام!کو یاد ہوگا کہ جمشید دستی نے میڈیا کے سامنے وہ شراب کی بوتلیں پیش کی تھیں جو پارلیمنٹ لاجز میں نشہ کے بعد پھینک دی جاتی تھیں ،جمشید دستی نے یہ بھی کہا تھا کہ پارلیمنٹ لاجز میں چرس ودیگر نشہ کی بدبو بھی آتی رہتی ہے ان انکشاف سے پارلیمنٹ کے معزز ارب پتی عیاش پارلمینٹیرین کے صادق وامین ہونے پراعتراض کیا جانے لگا تھاجمشید دستی نے اسی طرح کے اور بھی جرات مندانہ اقدام کئے ،جن کی پاداش میں انھیں جیل کی ہوا کھانی پڑی۔چند ایک سیاست دانوں نے یہ بھی ارشاد فرما دیا کہ جمشید دستی اگر جیل کی ہوا برداشت نہیں کر سکتے تھے تو انھیں (سچ بول کر) پنگے نہیں لینے چاہیں تھے ،ہمارے نزدیک ان کی حمایت میں جو سیاسی رہنماء اور پارٹیاں میدان میں آئیں وہ اینٹی گورنمنٹ تھیں اور اس ایشو سے سیاسی فائدہ اور ذاتی شتہیر چاہتی تھیں ،اگر یہ مقصود نہ ہوتا تو وہ لوگ بھی دستی کی حمایت میں نہ نکلتے کیونکہ وہ بھی سرمایہ دار اور وڈیرے ہی تھے لیکن مصیبت یہ تھی کہ وہ اپوزیشن کا رول ادا کر رہے تھے ۔
جمشید دستی ایک مڈل کلاس کا آدمی ہے ۔ عام لوگوں میں اس کا اٹھنا بیٹھنا ہے ،غریبوں کادوست ہے عوام کے راج کی بات کرتا ہے اورسب سے بڑا مسٔلہ یہ ہے کہ عوام کے راج کا مطالبہ ان وڈیروں ،ارب پتی سیاستدانوں اور اس انسان ساختہ،انسان دشمن کرپٹ نظام سے کرتا ہے جو غریب کش ہے ان کے نزدیک غریب کی حیثیت ایک اچھوت سے زیادہ نہیں ، جو عوام کے ساتھ بیٹھنا صرف الیکشن کے دنوں میں میں فرض عین سمجھتے ہیں بعد میں مکمل حرام۔سوچنے کی بات ہے کہ جو نظام اور اس کے کرتے دہرتے ایک غریب پرور لیڈر کو پسند اوربرداشت نہیں کرسکتے وہ غریبوں کو حقوق کیسے دے سکتے ہیں؟حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ پاکستان کا ظالمانہ نظام جمہوریت مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے ۔اس کو سہارا دینے والے ارب پتی ،کرپٹ لیڈرز اسے کسی صورت ختم ہوتا نہیں دیکھ سکتے کیونکہ ان کے مفادات اس نظام سے وابستہ ہیں ،اگر نظام ختم ہوجائے تو ان کی اصلیت ساری قوم کے سامنے آجائے گی اور سب کیا دہرا ویسے ہی رہ جائے گا ،ان کی اولادیں جو سونے کا چمچہ میں منہ ڈال کر پیدا ہوتی ہیں ان ان کا مستقبل تاریک ہو جائے گا اس لئے انھیں اس نظام کرپٹ نظام سے اپنی جان سے بھی زیادہ پیار ہے ۔

قوم نے خوب غور سے مشاہدہ کرلیا کہ پانامہ کیس نے جب بڑے بڑے لوگوں کو اپنے حصار میں لیا تو ایک شخص (نواز شریف)کے گرد گھیرا تنگ کرکے باقی سب چوروں کوکو بڑی چالاکی کے ساتھ بچالیا گیا اور قوم سمجھ رہی ہے کہ بڑا تیر مارلیا ۔اب میں نواز شریف کے شریف زادے جب عدالت میں تشریف لاتے ہیں تو بڑے بڑے لوگوں کے پیٹ میں مروٹ اٹھتے ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے اتنے بڑے آدمی کا بیٹا عدالت میں پیش ہو رہا ہے کیوں؟اگر عدالت میں ایک دو دھکا اپنے اچھوت کارکنوں کا ان ارب پتی لوگوں کے شریف زادوں کو لگ جائے تو ایس ایچ او کو معطل کردیا جاتا ہے،کہ تمہاری موجودگی میں اچھوت کارکنوں نے فرط محبت میں آکر شریف زادے کو سلام کرنے کی کوشش میں دھکے کیوں دئیے ۔اگر فیصلہ ان کے خلاف آجائے تو سب جمہوریت پسندلیڈرز عدالت سمیت تمام اداروں پرشیروں کی طرح چڑھ دوڑتے ہیں یہ مفاد پرست سیاستدان اس طرح اداروں پر حملہ آور ہوتے جیسے پاکستان اور انڈیا کی جنگ ہو رہی ہو۔ایسے شرمناک مناظر قوم نے بار بار دیکھیمیری سادہ قوم پھر بھی ان مطلب پرستوں سے اپنی جان نہ چھڑا سکی۔
یہ ہے ہمارے ملک کے ظالمانہ نظام کی ایک جھلک ۔جسے دیکھ کر اہل عقل شرمندہ ہیں ۔اوپرسے ظلم یہ ہورہا ہے کہ ان کرپٹ لوگوں کے حق میں کرپٹ لوگ ہی وکالت کرر ہے ہیں آئے روز اخبارات،الیکٹرونک میڈیا پر ایسی باتیں دیکھنے سننے کو مل جاتی ہیں جن سے یہ صاف ظاہر ہو رہا ہوتا ہے کہ ذاتی مفاد کی خاطر جھوٹی وکالت کی جارہی ہے ۔ان سیاستدانوں کا اسلام کے نظام عدل وقسط خلافت کی طرف بھی دھیان جانا چاہیے کہ ایک بار نہیں سو بار اسلام کے خلفا ء عدالتوں میں ایک عام شہری کی حیثیت سے پیش ہوئے تھے ،اگر ایک کرپٹ خاندان کے افراد کو تفشیش کیلئے بلایا جا رہا ہے تو اس میں کون سی قیامت آگئی ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عدالت کے فیصلے تک کوئی بھی لیڈر اس کیس کے حق یا حمایت اور مخالفت میں بیان جاری نہ کرتا مگر یہاں ہو تو جتنے منہ اتنی ہی باتوں والا معاملہ بن گیا ہے ۔عدالت اکیلی کیا کرے گی ؟
قارئین کرام!پاکستانی عوام کو جمہوریت کے نام پر گمراہ کیا جارہا ہے ،یہ سیاست دان جب بھی غریب کی بات کرتے ہیں تو ان کے نزدیک اپنی ذات ہوتی ہے نہ کہ عوام ،سیاستدانوں کی خفیہ اصطلاح میں سب سے بڑے مظلوم،حقدار،غریب سیاستدان ہی ہوتے ہیں نہ کہ غریب عوام۔

وہ دور مثالی ہے جس میں کہا ہی نہیں بلکہ عمل کیا جاتا تھا کہ دریائے فرات کے کنارے کتا بھی بھوکا مر گیا تو عمرؓ سے پوچھا جائے گا۔اس کے برعکس بھوک کے مارے غریب لوگ آئل ٹینکر الٹنے پر تیل اکٹھا کرنے لگ جاتے ہیں تاکہ پیٹ کی آگ کو بجھایا جائے ،پیٹ کی آگ تو نہیں بجھی مگر وہ خود جل کر خاک ہو گئے قیامت صغریٰ کے بعد بیس بیس لاکھ کی امداد کس کام کی ۔کیایہ غریب کے ساتھ مذاق نہیں ،کیا ہم یہ حقیقت بھول گئے کہ اگر کوئی چور عادت کی وجہ سے چوری کرتا ہے تو اس کے ہاتھ کاٹ دینے کا حکم ہے اور اگر کوئی غریب غربت کے باعث جان بچانے کیلئے چوری کرتا ہے تو حکم یہ ہے کہ حکمران وقت کا ہاتھ کاٹ دیا جائے ۔ذرا سوچیں کتنے لوگ ہیں جو پاکستان میں چوری مجبوری کی وجہ سے کر رہے ہیں ۔کیا ہمارے حکمرانوں کے ہاتھ ان کے جسموں کے ساتھ رہنے کے قابل ہیں؟ کون ہے جو یہ فیصلہ کرے اور غریب کو اس کا حق مل سکے۔

 

Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 244652 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.