آسیہ اندرابی اور فہمیدہ صوفی پابند سلاسل کب تک؟

 عورت کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ فطرتاََمرد کے مقابلے میں نرم دل ہو تی ہے ۔رقیق القلبی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ رعایاسے اس کے ناروا سلوک کے باوجود عفو اور درگزر سے کام لے۔ اﷲ تعالیٰ نے حاکم کو قوت بخشی ہے اور طاقت و اقتدار عطا ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتاہے کہ وہ رعایاکو اپنا غلام یا لونڈی سمجھ لے ۔بنیادی طور پرروح کے اعتبار سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے البتہ یہ اﷲ کی خالقیت کا ایک بے نظیر نمونہ ہے کہ اس نے ایک ہی روح کو کئی روپ بخشے ہیں۔پھر عورت کو مرد کے لیے اور مرد کو عورت کے لیے ایک ناگزیر ضرورت بنا دیا اور تو اور عورت کو اتنا رقیق القلب بنا دیا کہ جتنا گہرا اور لطیف رابط مرد کے دل کا اسکے اپنے ہاتھ سے ہوتا ہے کہ ادھر اس کی مردانگی پر آنچ آئی ادھر اس کا ہاتھ ایک لمحے میں اُٹھااسے بھی زیادہ گہرااور مستحکم رابط عورت کے دل اور اس کے آنسؤں کے بیچ ہوتاہے جوہلکی سی ٹھیس پر پلک جھپکنے میں ہی چھلکتی ہو ئی نظر آتی ہیں ۔اس مسلمہ حقیقت کو دیکھتے ہوئے حاکم کی انسانی اور اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عورت کے معاملے میں اپنے آپ کونرم خو اور رحم دل ثابت کرے ۔اتنا ہی نہیں بلکہ یہ ہر انسان کی انسانی ذمہ داری ہے کہ وہ عورت کا احترم کرے اس لئے کہ’’ وجود زن سے ہے تصور کائنات میں رنگ ‘‘یہ عورت ہی ہے جس نے ہمیں جنم دیکر عالم ،ناظم اورحاکم بنا دیا ہے ۔المیہ یہ ہے کہ جموں و کشمیر کی اس وقت کی حاکم ایک عورت ذات ہونے کے بجائے دو خواتین آسیہ اندرابی اور فہمیدہ صوفی سے اس قدر خوف زدہ ہیں کہ اس نے کشمیر میں کئی جیلیں موجود ہو نے کے باوجود انہیں جموں کے جھلسا دینے والے جموں کے امپھلا جیل میں بھیجنا ہی ضروری سمجھا ۔

2016ء کی عوامی تحریک میں ایک سوسے زیادہ نوجوانواں کی شہادتوں کے ساتھ ساتھ مجروحین ،نابینااور ناخیز نوجوانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد بھی اس قوم کی گود میں ڈالی گئی ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ گرفتار شدگان سے جیلیں بھر دی گئیں۔ جن میں سے کئی رہا کر دئے گئے جب کہ سینکڑوں لیڈران اورہزاروں نوجوان اب بھی جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ جن میں سے کئی نوجوان طالب علموں کا مستقبل مخدوش ہوتاجا رہا ہے اوران کی رہائی کو ٹالا جا رہا ہے یا رہائی کے فوراََ بعد دوبارہ گرفتار کر کے دوسرے جیلوں میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ جس کے لیے نہ ہی پولیس کو کیس تلاشنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے اور نہ ہی پرانے مقدمات کو سرعت کے ساتھ نمٹانے کی حاجت! بلکہ آخری درجے کی سنگدلی کا مظاہرا کرتے ہو ئے اپنے ہاتھوں اپنے ہی ’’جمہوری،سیکولر اور اہنسائی چہرے‘‘کو بد نما کرنے میں بھی کوئی ہتک یا عار محسوس نہیں کی جاتی ہے۔کشمیر پولیس کے دفتروں میں قارون کے خزانوں کے مانند یہاں رہنے والے ہر شہری کے لیے ’’ایف،آئی،آروں‘‘(first information report)کی اتنی فائلیں موجودپڑی ہیں کہ جو اس فائل کی زد میں ایک مرتبہ بھی آیا وہ کام سے گیا۔پھر عدالتوں میں برسوں تک پیشیوں کا لا متناہی سلسلہ کہ جس روز ایک کیس ختم ہوا تو دوسرے دن ’’پولیس کے ایف،آئی،آر خزانے ‘‘کا منہ کھلتے ہی دوسرا’’جن‘‘ظاہر ہوا جو پھر کسی منسٹر یا بڑے پولیس آفسر کے ’’دم‘‘ کے بغیر واپس نہیں چلا جاتا ہے ۔

2016ء کی عوامی تحریک کے پس منظرمیں جاری بے چینی کے بیچ دو عورتوں کو بھی گرفتار کیا گیا ایک بیمار آسیہ اندرابی دوم فہمیدہ صوفی ۔سیفٹی ایکٹ کے ختم ہوتے ہی انہیں رہاکر کے اپنے ہی گھر میں نظر بند رکھا گیا۔ 2017ء میں پھردونوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت امپھلا جیل بھیج دیا گیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیابیمار آسیہ اندرابی اور نوجوان فہمیدہ صوفی کا جرم جموں و کشمیر کی اٹھاون لاکھ خواتین میں اتنا سنگین ہے کہ انہیں جیل میں بند رکھنا اور گھروالوں سے الگ کردینا ہی ان کے جرم کی سزا ہو سکتی ہے کچھ اور نہیں؟ کیا حکومت کویہ زیب دیتا ہے کہ وہ شدید گرمیوں کے موسم میں کشمیر کے جیلوں کے برعکس’’ آگ برسانے والی جموں کے جیلوں‘‘ میں کشمیرکی دو سیاسی خواتین کو بند رکھیں ۔ مانا کہ ان دونوں کی رہائی ہندوستان کے لئے پاکستان کے ایٹم بم اور چین کی بڑھتی دراندازی سے زیادہ خطرناک ہے اورانھیں جیل میں بند رکھنا ہی ضروری ہے تو از راہ انسانیت ’’بیمار آسیہ اندرابی‘‘کو اپنے گھر میں نظر بند رکھ کر بھی بھارت کو درپیش خطرے کو ٹالا جا سکتا تھا ۔

حکومت کی سنگ دلی اور ایک مریض عورت ذات سے خوف کا عالم یہ ہے کہ وہ اسے کشمیر کے جیلوں کے بجائے جموں کے جیلوں میں بند رکھ کر پر سکون محسوس کرتی ہے ۔حکومت ’’آزادی پسند‘‘افراد سے انتقام لینے کی درپے ہو چکی ہے جس کی پالیسی اب تک ستر کی دہائی جیسی ہی ہے ۔ موجودہ حکومت 2010ء میں دئیے گئے اپنے بیانات کو مکمل طور پر بھو ل چکی ہے جب نیشنل کانفرنس پر تنقید کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے دینے کی حامی نہیں تھی ۔ایک ہی سکے دو رخ والی دلیل اپنی جگہ درست ہے مگر جوقیامت ہیلنگ ٹچ والی پی ،ڈی،پی ڈھا چکی ہے وہ کشمیر کی تاریخ کے ناقابل فراموش صفحات بن چکے ہیں ۔موجودہ وزیر اعلیٰ خدا جانے تب کہاں تھی جب آسیہ اندرابی اسی کے عشرے میں ایک مذہبی اور سیاسی کارکن کے طور پر ابھر ی اور پھر زیادہ دن نہیں گذرے تھے جب دختران ملت نام کی پہلی دینی سیاسی خواتین کی تنظیم کی داغ بیل ڈالنے میں آسیہ اندرابی کامیاب ہو ئی ۔عقل و دانش اور شرم و حیا نام کی چیز اس حکومت میں ہوتی تو آسیہ اندرابی کی بطور پہلی سیاسی اور سماجی خاتون کے حوصلہ افزائی نہ صحیح اسے انتقام کا بھی نشانہ بھی نہ بناتی ۔

یہاں یہی المیہ نہیں ہے کہ حکومت اپنے ہی عوام پر مظالم ڈھانے میں مسرت محسوس کرتی ہے بلکہ افسوس یہ بھی ہے کہ نیشنل کانفرنس اور کانگریسی سیکولر اور لبرل حضرات کو بھی اس مسئلے پر سانپ سونگھ جاتا ہے !کیا ایک عورت ذات کو سیاسی انتقام گیری کا نشانہ بنانا ریاستی سرکار اور مشنری میں شامل مردوں کے چہرے پر زور دار طمانچہ نہیں ہے ۔آخر نیشنل اور کانگریس بھی اس نازک انسانی اشو پر خاموش کیوں ہے ؟ مانا کہ آسیہ اندرابی ایک آزادی پسند خاتون ہے کیا یہاں کے عوام کی غالب اکثریت اس جرم میں برابر کی شریک نہیں تو کیا حکومت سارے عوام کو جیلوں میں بند رکھے گی ۔حکومت کو انسانی بنیادوں پر آسیہ اندرابی کے مسئلے پر غور کرنا چاہئے تھا اس لئے کہ آسیہ اندرابی کے شوہر ڈاکٹر محمد قاسم گذشتہ چوبیس برس سے جیل میں بند ہیں اور ان کے گھر میں ایک نابالغ احمد کے سواء کوئی اورنہیں رہتا ہے۔ کیا آسیہ اندرابی اور ان کے شوہر کی طویل نظر بندی سے احمد نام کا یہ معصوم لڑکا حکومتی جبر کے نتیجے میں والدین کے ساتھ ساتھ خود بھی ’’قیدِ تنہائی ‘‘کی سزا نہیں بھگت رہا ہے ۔اسے بدترین انسانی حقوق کی پامالی اور کیا ہو سکتی ہے ؟میرا ہرگز یہ دعویٰ نہیں ہے کہ ڈاکٹر قاسم اور آسیہ اندرابی کے رشتہ داروں اور عزیزواقارب نے ’’احمد ‘‘نامی معصوم کو تنہا اور بے یارومددگار چھوڑا ہوگا مگر کیا یہ احمد کے حقوق کی پامالی اور زخموں پر مرہم کی کوئی صورت ہے ؟ ایک طرف وزیر اعلیٰ روزانہ اس بات کا ورد کرتے نہیں تھکتے ہیں کہ کشمیر کا مسئلہ سیاسی مسئلہ ہے اسے حل کئے بغیر امن قائم نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اقتصادی پکیجز سے یہ مسئلہ حل ہو گا تو دوسری طرف دوسرے انداز میں یہی بات کہنے والوں کو جیلوں میں سڑایا جا رہا ہے اس صورتحال کو تضاد اور غیر حقیقت پسندانہ سوچ کے بغیر اور کیا نام دیا جا سکتا ہے ۔جو ایک خاتون وزیر اعلیٰ کوہرگز زیب نہیں دیتا ہے ۔

altaf
About the Author: altaf Read More Articles by altaf: 116 Articles with 83089 views writer
journalist
political analyst
.. View More