ماشاءاللہ ہمارے وفاقی وزیر
برائے خوراک و زراعت جناب علامہ مولانا نذر محمد گوندل نے کراچی میں گزشتہ
روز وفاقی زرعی کمیٹی کے93 ویں اجلاس کے بعد ذرائع ابلاغ کو اجلاس کے
فیصلوں پر بریفنگ دیتے ہوئے فرمایا کہ ”چینی کا استعمال عیاشی ہے، یہ ضرورت
کی چیز نہیں اس لئے عوام اس کا استعمال بند کردیں“ ہمارا تو خوبصورت وفاقی
وزیر کو دل کھول کر داد دینے کو دل چاہ رہا ہے۔ بہت ہی خوبصورت بات کی
انہوں نے اور ان سے ایسی ہی توقع بھی تھی۔ حکومت کے جتنے بھی ”رتن“ ہیں وہ
ایسی ہی باتیں کرتے اچھے لگتے ہیں، اس طرح کے ارشادات کے لئے ہی تو انہیں
وفاقی وزارت میں بھرتی کیا گیا ہے، ہمیں پنجابی کی ایک پرانی کہاوت یاد
آرہی ہے جو ایسے ہی مواقع پر ”نادر روزگار “لوگوں کے لئے بولی جاتی ہے۔
”ہائے او بھیڑئے موتے! تو کنہاں کنہاں جھوٹھاں نوں بھلی کھڑی ایں“ (ہائے او
کمبخت موت! تم کن کن گندے لوگوں کو بھولی ہوئی ہو) میں خدانخواستہ ذاتی طور
پر گوندل صاحب کو کوئی بددعا نہیں دے رہا لیکن کیا کریں کہ اٹھارہ کروڑ
عوام میں سے کم از کم سترہ کروڑ عوام انہیں ایسی ہی بد دعاﺅں میں دن رات
یاد رکھے ہوئے ہیں، وہ علیحدہ بات ہے کہ اب ملاوٹ زدہ اشیاء استعمال کرنے
کے بعد لوگوں کی بد دعاﺅں میں بھی اثر نہیں رہ گیا۔
آئیں اب ذرا جائزہ لیں کہ پاکستان کے عوام کن کن ”عیاشیوں“کے ساتھ اپنے دن
رات گزار رہے ہیں۔ صرف چند ایک عیاشیوں پر نظر ڈالتے ہیں۔
وہ ایک رکشہ ڈرائیور ہے، چوبیس گھنٹوں میں سے کم از کم چودہ گھنٹے رکشہ
چلاتا ہے تاکہ اپنے گھر کا نظم و نسق جاری و ساری رکھ سکے لیکن اس کی اسی
طرح کی عیاشیوں کی وجہ سے وہ دن رات ٹینشن اور ڈیپریشن کا شکار ہے۔ کبھی
فیس نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کا نام سکول سے کاٹ دیا جاتا ہے تو کبھی وہ
امتحان میں نہیں بیٹھ سکتے، جب اسے کوئی اور حل نہ سوجھا تو اس نے اپنے
پیارے پیارے بچوں کو فروخت کے لئے پیش کردیا، اپنے لخت ہائے جگر کی ”لوٹ
سیل“لگا دی کہ پانچ میں سے دو بچوں کو بیچ کر باقی بچوں کے لئے خوراک اور
تعلیم کا بندوبست کرسکے۔ اے کاش! وہ پاکستان کا ایک عام عیاش نہ ہوتا، تو
اسے ایسا دن دیکھنا تو نصیب نہ ہوتا!کاش وہ بھی گوندل صاحب اور دیگر وفاقی
وزراء کی طرح انتہائی سادہ ہوتا جو (ڈاکٹر کے منع کرنے کی وجہ سے) نہ خود
چینی استعمال کرتا اور نہ بچوں کو عیاش بناتا کاش وہ ”سادہ لوح“ کی بجائے
سادگی کا پیکر ہوتا.... اے کاش!
وہ ایک مزدور ہے، دیہاڑی دار مزدور، نو گھنٹے روزانہ وزن ڈھوتا ہے، محنت
کرتا ہے اور اگر دیہاڑی لگ جائے تو اسے حکومت کی پالیسی کے مطابق تین سو
روپے کی کثیر رقم سے نوازا جاتا ہے عین اسلامی اصولوں کے مطابق پسینہ خشک
ہونے سے پہلے! وہ بڑے مزے سے زندگی گزارتا اگر عیاشی نہ کرتا، اللہ معاف
کرے، بندے کو ایسا عیاش بھی نہیں ہونا چاہئے کہ وہ دن میں پورے ایک بار پیٹ
بھر کے کھانے کا لالچ کرے، کبھی وہ سوچتا ہے کہ بنک میں اکاﺅنٹ کھلوا لوں
تاکہ اتنی بڑی رقم گھر (یعنی فٹ پاتھ) پر ساتھ لے کر نہ سونا پڑے مبادا
کوئی لٹیرا لوٹ نہ لے یا ڈاکو ڈاکہ نہ مار لے، جب دن میں پورے ایک بار
کھانا ٹھونستا ہے تو اس کا جی پھر عیاشی کی طرف مائل ہوتا ہے کہ اب کسی
تھڑے ہوٹل سے چائے بھی پی لے، وہی چائے جو پہلے کبھی چار پانچ روپے کی ایک
پیالی مل جاتی تھی اب صرف پندرہ سے بیس روپے میں مل جاتی ہے اور وہ بھی
چینی کی عیاشی کے ساتھ! یہی عیاشی اسے ڈبو رہی ہے، اے کاش کوئی ڈاکٹر اسے
بھی چینی منع کردے تاکہ وہ اپنی عیاش طبع طبیعت کو چینی ڈال کر چائے پینے
سے روک سکے کیونکہ وہ تو چینی کا ذائقہ صرف چائے میں ہی چکھ سکتا ہے یا
شائد وہ چائے پیتا ہی صرف چینی کے لئے ہے....! عیاش کہیں کا....
وہ ایک گھریلو خاتون ہے، بچے جب دو چار مہینے بعد اس سے میٹھی چیز کھانے کی
ضد کرتے ہیں تو وہ روٹی کے اوپر تھوڑی سی چینی لگا کر انہیں ”میٹھی روٹی“
بنا دیتی ہے، اسے پتہ ہے کہ وہ چینی کو استعمال کر کے عیاشی کی مرتکب ہوتی
ہے اس لئے ایسی خوراک میں چینی ڈالے کہ جس میں کم سے کم چینی استعمال ہو،
لیکن اس کے باوجود حکومت نے چینی والی عیاشی ختم کرنے کے لئے چینی کی قیمت
ایسی جگہ پہنچا دی ہے جہاں سے وہ بہت سارے لوگوں کی عیاشی کو سرے سے ختم
کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایسی ہی عورتوں کی وجہ سے چینی ایک ”نایاب“ جنس
بنتی جارہی ہے، ایسی عورتوں کو خدا کا کچھ خوف کرنا چاہئے کہ وہ اپنے چھوٹے
چھوٹے بچوں کو فیڈر میں بھی چینی ڈال کر دیتی ہیں، اللہ معاف کرے، چھوٹے
چھوٹے بچوں کو ابھی سے عیاش بنایا جارہا ہے، حکومت کو ایسی خواتین سے ان کے
بچے چھین لینے چاہئیں جو شیر خواروں کو بھی عیاشی کی تربیت دیتی ہوں!
میرے ایک دوست کا بڑا عبرتناک واقعہ ہے، وہ بھی سن لیجئے! وہ کہتا ہے کہ آج
ہی کی بات ہے کہ میرے پاس ایک بزرگ ملنے کے لئے تشریف لائے، میں غلطی سے
انہیں چائے کا پوچھ بیٹھا، وہ بھی شائد اسی انتظار میں تھے کہ جھٹ ہاں کہہ
دی، میں نے بہتیرا ٹالنے کی کوشش کی کہ ابھی میرا چپڑاسی ذرا کام سے گیا
ہوا ہے، وہ آئے گا تو چائے پیش کرسکوں گا(حالانکہ الیکٹرک کیتلی میں پانی
ہی گرم کرنا تھا) وہ کہنے لگے چلیں کوئی بات نہیں اس کے آنے تک آپ سے گپ شپ
رہے گی، جی کڑا کر کے ان سے گپ شپ کرنے کی کوشش تو کرتا رہا لیکن دل میں
یہی سوچتا رہا کہ پتہ نہیں بزرگ چائے میں چینی کس مقدار میں لیتے ہوں گے،
آج ہی ایک پاﺅ چینی منگوائی ہے اور پروگرام یہ تھا کہ نہ تو خود عیاشی کرنی
ہے اور نہ دوسروں کو کرنے دوں گا لیکن اب ان بزرگوں کو کیسے سمجھا پاﺅں گا؟
وہی ہوا جس کا ڈر تھا، جب چپڑاسی نے آکر پانی گرم کیا اور ان سے پوچھا کہ
”انکل! آپ چینی تو نہیں لیں گے؟ انہوں نے فرمایا ”بیٹا تین چمچ ڈال دو“
مجھے تو ایسا لگا کہ کسی نے میری جان ہی نکال لی ہے، چپڑاسی میری طرف دیکھ
رہا تھا اور میں اس کی طرف، میں نے اسے ہلکا سا اشارہ کیا کہ ایک چمچ ہی
ڈال دے، اس نے ایسے ہی کیا، لیکن بزرگوار بھی پورے ”عیاش“ تھے، کہنے لگے کہ
چینی کم ہے، غصے میں آکر چپڑاسی صاحب نے پورے ایک پاﺅ والا ڈبہ ان کے سامنے
رکھ دیا، جس میں سے انہوں نے نہ صرف مزید تین چمچ چائے میں ڈال لئے بلکہ
ایک چمچ منہ میں ڈال کر مزے کرنے لگے، تب مجھ سے رہا نہ گیا تو میں نے پوچھ
ہی لیا کہ آپ چینی کچھ زیادہ ہی استعمال نہیں کرتے، بزرگوار مسکراتے ہوئے
بولے ”ارے بھائی! چینی والی چائے پینے ہی تو انسٹھ برس کی عمر میں پانچ
کلومیٹر چل کر آیا ہوں“ اب آپ ہی بتائیے جس قوم کے بزرگ اتنے ”عیاش“ ہوں،
وہاں عام لوگوں کی ”عیاشی“ کا کیا عالم ہوگا؟ سچ پوچھئے تو میرے پاس کوئی
جواب نہ تھا! |