’ردّی‘ رپورٹ؟

 سچی بات تو یہ ہے کہ گزشتہ روز مجھے اپنے نیوز چینل کی یہ بات بالکل سمجھ نہ آئی، کہ آج پاناما کیس کے حوالے سے پاکستان کی تاریخ کا اہم ترین دن ہے۔ ہمارے چینلز نے خصوصی ٹرانسمیشن قائم کیں اور جے آئی ٹی کی رپورٹ کو پیش کئے جانے کے معاملہ کو زمین سے اٹھا کر آسمان تک پہنچا دیا۔ لمحہ لمحہ کی روداد سنانے اور دکھانے کی کوشش کی، ہر دانشور نے اپنے اپنے مزاج کے مطابق تجزیے بھی جاری رکھے ۔ پوری قوم ہیجان کا شکار تھی، بظاہر تو یہ عام سی خبر تھی کہ تین ماہ تک جے آئی ٹی نے تحقیق کی اور اس کی رپورٹ عدالتِ عظمیٰ کو پیش کرنا تھی، یہی ہوا۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ پچیس کلو وزنی تھی۔ اب یہ عدالت عظمیٰ کی تحویل میں ہے، معزز جج صاحبان اس کا جائزہ لیں گے، جہاں ضرورت ہوگی ، گواہوں کو طلب کریں گے، جہاں چاہیں گے، جے آئی ٹی کے ارکان سے تعاون حاصل کریں گے، جہاں ضرورت ہوگی ، متعلقہ اداروں کو بھی بلائیں گے۔ وقت لگے گا، پھر فیصلہ آئے گا۔ اس سے قبل بھی عدالت عظمیٰ نے فیصلہ کا اعلان کرنے میں کچھ وقت لگایا تو بہت سے تضحیک آمیز تبصرے شروع ہوگئے تھے، جو بہت حد تک مذاق کی صورت میں سامنے آتے تھے۔

جے آئی ٹی کی رپورٹ پر فیصلہ تو جب ہوگا، تب ہوگا، مگر رپورٹ کی جھلکیاں قوم کے سامنے آگئی ہیں، ٹی وی چینلز نے تو یہ بڑی خبر بنا کر قوم کے سامنے لانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ساتھ ہی جے آئی ٹی کی رپورٹ پیش ہوتے وقت جو اودھم مچا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ کہ حکومت کے حامیوں اور مخالفین نے اپنے اپنے فیصلے سنانے شروع کر دیئے ہیں۔ حکومتی وزراء نے فوری طور پر سرکاری اہتمام کے تحت پریس کانفرنس کی، جے آئی ٹی کی رپورٹ کو ’’ردّی‘‘ قرار دیا، اور اس ردی کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا۔ دوسری طرف حکومت مخالفوں نے جے آئی ٹی کی رپورٹ میں لگائے جانے والے الزامات کی روشنی میں وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا حکم نما مطالبہ بھی جَڑ دیا ۔ تیسری طرف حکومتی پارٹی نے اپنے فوری طور پر بلائے جانے والے اجلاس میں استعفیٰ نہ دینے اور قانونی جنگ لڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ بات قانون کے دائرے میں رہنے کی ہوتی تو کوئی بات نہ تھی، یہاں قانونی جنگ تو مجبوراً لڑی جاتی ہے، ورنہ میڈیا کے ذریعے زبانی جنگ کا رجحان زیادہ ہے۔ ٹی وی ٹاک شوز میدان جنگ ہیں، جہاں بس جسمانی طاقت نہیں آزمائی جاتی، ورنہ معاملہ دست وگریبان تک تو پہنچ ہی جاتا ہے، دوسرا یہ کہ مغلظات کی سرِ عام نوبت نہیں آتی ، ورنہ استعارات میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ کیچڑ اچھالنا، الزام دھرنا، تہمت لگانا، دلائل وبراہین کی نفی کرنا اور اسی قسم کے تمام معاملات اپنے ٹاک شوز کا لازمی جزو ہیں۔

معاملہ ابتدا سے ہی عدالتِ عظمیٰ کے پاس تھا، عدالت کے حکم سے ہی جے آئی ٹی تشکیل پائی، جس پر ابتدا میں اعتراضات اٹھائے گئے، کچھ ارکان کو سیاست کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش کی گئی، سیاسی مخالفین کے ساتھ رشتہ داریاں تلاش کی گئیں، مگر سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے بعد خاموشی اختیار کر لی گئی، گویا مجبوراً سرِ تسلیم خم کر دیا گیا، اس کے سامنے وزیراعظم پاکستان اور وزیراعلیٰ پنجا ب کا پیش ہونا ، اس کمیٹی پر اعتماد کا اظہار تھا، جن لوگوں کو جتنی مرتبہ بھی بلایا گیا، وہ گئے، جو کچھ پوچھا گیا ، جو جواب بن پائے وہ دیئے گئے۔ حتیٰ کہ وہ وقت بھی آیا جب وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز کو بھی طلب کیا گیا، بہت ہنگامہ مچا، بہت اعتراضات اٹھے، اسے اخلاقیات کی نفی قرار دیا گیا، بہن بیٹیوں کو طلب کرنے کو روایات کے خلاف کہا گیا، مگر اس موقع پر معاملہ سپریم کورٹ لے جانے کی بجائے مریم نواز بھی پیش ہوگئیں۔ اعتراض کرتے رہے، پیش ہوتے رہے۔ اب رپورٹ پیش ہو چکی ہے، اس میں شریف خاندان پر بہت سے اعتراضات عاید کئے گئے ہیں، ان کے مالی معاملات کے حساب کتاب پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے، بیانات اور حقائق میں تضاد کا ذکر بھی ہے۔یہ رپورٹ ہے، کوئی فیصلہ نہیں، فیصلہ عدالتِ عظمیٰ نے کرنا ہے۔ مگر اس دوران فریقین کو صبر کے ساتھ برداشت کرنا چاہیے، کوئی نہیں جانتا ، فیصلہ کیا ہوگا۔ کیا خبر کہ عدالت عدم ثبوت کی بنا پر معاملہ کو ختم کردے، اور یہ بھی کیا علم کہ یہ ’ردّی‘ ہی ایک فریق کے لئے زبان کا تالا اور پاؤں کی زنجیر بن جائے؟
 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472837 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.