ہندوستانی اسٹیبلشمنٹ جس طرح مقبوضہ کشمیر میں مطالبہ
آزادی کی عوامی آواز کوپولیس،فورسز،انتظامیہ ،عدلیہ اور حکومتی ذرائع سے
ظالمانہ اور جابرانہ طور پر دبانے کی مسلسل کاروائیوں میں بلا کسی خوف و
خطر مصروف چلی آ رہی ہے اور جس طرح کشمیر کو تقسیم کرنے والی جنگ بندی
لائین پر جارحانہ انداز اپناتے ہوئے آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں کو نشانہ
بنا رہی ہے،اس سے پاکستان کی کشمیر سے متعلق کمزور پالیسی اورناقص حکمت
عملی کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔پاکستان میں' کنٹرول اینڈ کمانڈ' اور سیاسی
کشمکش کی صورتحال سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں جنرل ایوب،جنرل ضیاء اور
جنرل مشرف کے تخلیق و نافذ کردہ ' طور طریقوں' کو نئے حالات کی روشنی میں
ڈھالا جا رہا ہے کہ جہاں فوج کا صرف دفاع،خارجہ اور داخلی امور میں ہی کلی
کنٹرول نہ ہو بلکہ سیاسی و حکومتی امور میں بھی اتھارٹی کی حیثیت حاصل
ہو۔نئی تخلیق کردہ پیش بندیوں میں پاکستان کا ہر طرح کا متحرک اور جارحانہ
کردار ملکی سرحدوں کے اندر ہی متعین کردہ محسوس ہوتا ہے۔عرصہ یہ توقع اور
مطالبہ رہا کہ مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں کے خلاف ہندوستان کے بہیمانہ
مظالم پر پاکستان خاموش تماشائی نہیں بن سکتا لیکن پاکستان کشمیر کاز کے
حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے عالمی قوتوں اور اداروں سے مسئلہ
کشمیر حل کرانے کے لئے اقدامات کی اپیلوں تک ہی محدود چلا آ رہا
ہے۔ہندوستان کے خلاف مسلسل جدوجہد کی اذیت اور قربانیوں کی مشقت سہنے کے
باوجودکشمیریوں کے لئے یہ بات نہایت تکلیف دہ اور باعث تشویش ہے کہ مسئلہ
کشمیر کے حل کے حوالے سے کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔کشمیر سے متعلق رہنمائی
تحریک آزادی کشمیر کو موثر حکمت عملی اور پالیسی کے ہتھیاروں سے لیس کرنے
سے قاصر چلی آ رہی ہے۔پاکستان کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کمزوری کے
واضح اظہار اور پاکستان کی حکمت عملی و پالیسی کی بنیادپر عالمی سطح کی
مسئلہ کشمیر سے بے اعتنائی کی غیر موافق صورتحال میںچین کی طرف سے طرف سے
مسئلہ کشمیر میں '' سٹیپ بائی سٹیپ'' بڑہتی ہوئی دلچسپی نہایت اہم ہے۔
چین نے کہا ہے کہ وہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات بہتر کرنے کے لئے اپنا
تعمیری کردارادا کرنے کے لیے تیار ہے، کشمیر کی صورت حال اتنی کشیدہ ہے کہ
اب بین الاقوامی برادری کی توجہ اس کی طرف مبذول ہونے لگی ہے۔چین کی وزارت
خارجہ کی ترجمان گنگ شوانگ نے بیجنگ میں ایک نیوز کانفرنس میں انڈیا اور
پاکستان کے درمیان کشمیر کے سوال پر بڑھتی ہوئی کشیدگی پر تشویش ظاہر کی
اور کہا کہ کنٹرول لائن پر دونوں ملکوں کے درمیان جس طرح کا ٹکرا ہو رہا ہے
اس نے صرف دونوں ملکوں کا امن و استحکام خطرے میں پڑے گا، بلکہ یہ کشیدگی
پورے خطے پر اثر انداز ہوگی۔چین نے کہا کہ بھارت اور پاکستان جنوبی ایشیا
کے اہم ممالک ہیں لیکن کشمیر کے کشیدہ حالات کے سبب اب اس تنازع کی طرف
سبھی کی توجہ مبذول ہورہی ہے۔چینی ترجمان نے امید ظاہر کی کہ دونوں ممالک
ایسے اقدامات کریں گے جن سے کشیدگی کم کرنے اور خطے میں امن و استحکام کے
قیام میں مدد ملے گی۔انہی دنوںچین کی ویسٹ نارمل یونیورسٹی میں انڈین
سٹیڈیز شعبے کے ڈائریکٹر لونگ زنگچن نے' گلوبل ٹائمز' میں شائع ایک مضمون
میں کہا ہے کہ جس طرح ہندوستانی فوج بھوٹان میں داخل ہوئی ہے اسی طرح ایک
تیسرے ملک(چین ) کی فوج پاکستان کی درخواست پر متنازعہ ریاست کشمیر میں
داخل ہو سکتی ہے۔ پاکستان کی درخواست پر کشمیر میں چین کی فوج داخل کرنے کے
امکانات سے متعلق اس مضمون سے اس بات کو تقویت حاصل ہوتی ہے کہ 'سی پیک'
منصوبے سے چین صرف دفاع ہی نہیں بلکہ مسئلہ کشمیر میں بھی پاکستان کا مضبوط
اتحادی بن چکا ہے۔ چینی وزارت خارجہ کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے حل میں چین
کے( ہر طرح کے) کردار پرہندوستان میں کھلبلی مچ گئی ہے ۔ہندوستانی وزارت
خارجہ کے ترجمان گوپال باگلے نے کہا کہ ہندوستان مسئلہ کشمیر کے حل میں
'تعمیری کردارادا کرنے کی چین کی پیشکش کو مسترد کرتا ہے کہ یہ ایک باہمی
معاملہ ہے اور اس تنازعے پر پاکستان سے بات چیت کے لیے دروازے کھلے ہوئے
ہیں۔ہندوستانی ترجمان نے کہا کہ اصل مسئلہ سرحد پار سے دہشت گردی کا ہے جس
کی ایک ملک کی جانب سے اعانت کی جا رہی ہے اور جس سے انڈیا، جنوبی ایشیا
اور دنیا کے امن و امان کو خطرہ لاحق ہے۔ 'ہم پاکستان سے ایک باہمی طریقہ
کار کے تحت مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔
بھارت وزارت خارجہ کے اس بیان سے بھی واضح ہوتا ہے کہ ہندوستان مسئلہ کشمیر
پر پاکستان کے ساتھ اپنی شرائط اور اپنے طے کردہ ایجنڈے کے مطابق ہی
مزاکرات شروع کرنا چاہتا ہے۔ہندوستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار
دادوں،اقوام متحدہ کے چارٹر،کشمیریوں سے کئے گئے ہندوستانی رہنمائوں کے
رائے شماری کے دعوے،سب فراموش کرتے ہوئے کشمیر کا مسئلہ اپنی طاقت کے
استعمال سے حل کرنا چاہتا ہے۔ہندوستانی شرائط اور ہندوستانی ایجنڈے کے
مطابق مزاکرات کرنے کا مطلب یہی ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کی حقیقت
،کشمیریوں کی طویل تحریک آزادی کو بھول کر ہندوستان کی ڈکٹیشن پر عمل کرے
اور یہ صورتحال پاکستان کو کسی صورت قبول نہیں ہو سکتی۔مقبوضہ کشمیر میں
نہتے کشمیریوں کے خلاف ہندوستانی فورسز کے بھیانک مظالم اور مسئلہ کشمیر کے
حل میں غیر معمولی تعطل کی صورتحال میں دنیا کی پانچ بڑی ایٹمی طاقتوں اور
دنیا میں تیزی سے پھیلتی ہوئی اقتصادی طاقت چین کی طرف سے اس معاملے میں
بڑہتی ہوئی دلچسپی اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ امریکہ اپنی مدد سے ہندوستان
کو چین کی فوجی اور اقتصادی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار کر رہا ہے۔
چین کی طرف سے مسئلہ کشمیر میں دلچسپی ہندوستان ہی نہیں بلکہ امریکہ اور
عالمی طاقتوں کے لئے بھی ایک پیغام ہے کہ وہ چین کو گھیرنے اور تنگ کرنے کی
کسی بھی کوشش کو سختی سے ناکام کرنے کی اہلیت، صلاحیت اور ارادہ رکھتا ہے۔ |