''ایشیا کا تیز ترین آدمی'' صوبیدار عبدالخالق

دوسری ایشین گیمز کا انعقاد 1954ء میں فلپائن کے شہر منیلا میں ہوا،سو میٹر ریس میں پاکستانی کی نما یٔندگی 21 سالہ نوجوان عبد الخالق نے کی ۔ایشین گیمز کے شروع تک جس شخص کے نام تک سے کوئی بھی واقف نہ تھا ایشین گیمز کے فائنل مقابلوں نے پوری دنیا کو اس نوجوان سے واقفِ حال کر دیا۔منیلا میں نوجوان عبد الخالق مجموعی طور پر بہترین کارکردگی کے ساتھ نہ صرف گولڈ میڈل حاصل کیا بلکہ سو میٹر کا فاصلہ دس اعشاریہ چھے سیکنڈ میں طے کر اس وقت تک کی ایشین گیمزکا ریکارڈ بھی اپنے نام کر لیا۔جو کہ اس سے پہلے دس اعشاریہ آٹھ سیکنڈ تھا، منیلا گیمز کے مہمان خصوصی اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرونے اس سپوت ِپاکستان کی شاندار پرفامنس پر ''فلائنگ برڈ آف ایشیا'' کے خطاب سے نوازاجو اس دن کے بعد دنیا بھر میں عبدالخالق کی پہچان بن گیا۔

سوا سو سے زائد طلائی تمغے اپنے سینے پر سجانے والا عبد الخالق 29 نومبر 1933ء کو چکوال کے نواحی قصبے جنڈ اعوان میں پیدا ہوا۔ عبدالخالق کا شمار نوجوانی میں ہی اپنے علاقے کے نامور کبڈروں میں ہونے لگا۔ ایک کبڈی میچ کے دوران اس وقت کے افواجِ پاکستان کے سپورٹس کنٹرول بورڈ کے صدر برگیڈئیر سی، ایچ، بی، رودھم نے عبدالخالق کوکھیلتے ہوئے دیکھاعبد الخالق کے عمدہ کھیل سے متاثر ہو کربرگیڈئیر رودھم نے عبد الخالق کو پاک فوج میں شمولیت کی دعوت دی۔جو کہ عبد الخالق نےبصدفخر و خوشی قبول کر لی ،عبدالخالق1948ء سے 1978ء تک پاک فوج کی ''آرٹیلری رجمنٹ '' کے ساتھ بطور صوبیدار منسلک رہا ،پاک فوج کی فنی تربیت نے عبدالخالق کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کر دیا۔

1956ء میں پاکستان انڈیا کے مابین پہلی باہمی کھیلوں کا انعقاد ہندوستانی دار الخکومت دہلی میں ہوا، تو بھارتی ایتھلیٹ لیوی پنٹو سو میٹر دوڑ میں پاکستانی سپوت صوبیدار عبدالخالق کے مدِ مقابل اترا جو سو میٹر دوڑ میں اس وقت تک ناقابل تسخیر اور اس وقت بہترین ایتھلیٹ شمار کیا جاتا تھا،دہلی مقابلوں میں عبدالخالق نے روایتی گرم جوشی کا مظاہرہ کرتےہوئے ہندوستانی سرزمین پر نہ صرف لیوی پنٹو کو شکست دی بلکہ سو میٹر کا فاصلہ دس اعشاریہ چار سیکنڈ میں طے کر کے'' ایشیا کا تیز ترین شخص ''بھی بن گیا، اور سونے تمغہ حاصل کیا، عبد الخالق کا شمار اس وقت دنیا کے پانچ بہترین ایتھلیٹس میں ہوتا تھا۔ ایشین گیمز کی تاریخ میں مسلسل دو بار سونے کا تمغہ حاصل کرنے والا صرف ایک ہی نام ہے ، اور یہ عبدالخالق کا نام ہے۔عبدالخالق نے یہ کارنامہ مسلسل 1954 ء اور 1958 میں منعقد ہونے والی ایشین گیمز میں سر انجام دیا۔

سبز ہلالی پرچم کو سر بلند کرتا اور سبز پاسپورٹ کی قدر ومنزلت کو چہار دانگِ عالم میں چار چاند لگاتا عبدالخالق ملکوں ملکوں سفر کرتا رہا، اس نے 1956ء میں ملبورن اولمپکس ، 1960ء کی روم اولمپکس میں وطن عزیز کی نمائندگی کی۔ 1954ء اور 1958ء کی ایشین گیمز میں بھی عبد الخالق کی برق رفتاریاں جاری رہیں، وہ اپنے ملک کانام روشن بھی کرتا رہا اور اپنے سینے پر میڈلز کی تعداد بھی بڑھاتا گیا،یہاں تک کہ میڈل سجانے کے لیے سینہ چھوٹا پڑ گیا اور میڈلزتعداد میں زیادہ ہوتے گئے، عبد الخالق نے ملکی سطح کےمقابلوں سو (100) سونے کے تمغے حاصل کیے اور بین الاقوامی مقابلو ں میں چھتیس سونے کے تمغے حاصل کیے۔ چاندی ، کانسی میڈل ان کے علا وہ ہیں۔بین الاقوامی مقابلوں میں عبد الخالق نے پندرہ چاندی اور بارہ کانسی کے تمغے حاصل کیے،انہی خدمات کی بناء پر 1958ء میں صدر پاکستان ایوب خان نے عبدالخالق کو '' تمغہ حسنِ کار کر دگی '' سے نوازا۔

اس ایک خوبصورت واقعے کو ذکر کیے بغیر عبد الخالق کی شخصیت کا کماحقہ احاطہ کرنا ناممکن ہے کہ 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں عبدالخالق بھی دیگر نوے ہزار فوجیوں کے ساتھ قید کر لیا گیا۔ اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو جب عبدالخالق کا علم ہوا تو انہوں نےاسے رہاکرنا چاہا لیکن عبد الخالق نے اپنے دیگر ساتھی ،ہم وطنوں کی رہائی بغیر اکیلے رہا ہونے سے انکار کر دیا۔

مشہور بھارتی ایتھلیٹ ملکھا سنگھ اپنی زندگی سب سے بڑی کامیابی 1960ء عبد الخالق کو لاہور ریس میں ہرانے کو گردانتا ہے، حالانکہ اس دوڑ میں عبد الخالق کے ہارنے کی کچھ فنی وجوہات بھی تھیں ،کیرئیر کے حوالے سے اگر ملکھا سنگھ کا موازنہ عبد الخالق سے کیا جائے تو اس میں زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا، ملکھا سنگھ نے صرف پانچ بین الاقوامی سونے کے تمغے حاصل کیے جب کہ اس کے برعکس عبد الخالق نے چھتیس بین الاقوامی مقابلوں میں سونے کے تمغے حاصل کیے،اور سو سے زیادہ ملکی سطح کے مقابلوں میں سونے کے تمغے حاصل کیے،ملکھا سنگھ کے نام محض ایشیا تک محدود ہے جبکہ عبد الخالق کا نام پوری دنیا کے میدانوں میں گونجتارہا ،اولمپک گیمزہوں ، یا ورلڈ ملٹری گیمز ، ویکٹورین ریلی چیمپین ہو یا آسٹریلیا ، ویلز، انگلیڈ اور مصر بین الاقوامی چیمین شپس ہوں ہمیں عبد الخالق کا نام تو جا بجا ملتا ہےلیکن ملکھا سنگھ نام کا کوئی شخص نہیں ملتا ۔

ہاں ایک فرق ضرور ہے کہ ملکھا سنگھ کو اس کی قوم، اربابِ فن وادب اور اربابِ اختیار نے پورے طور پر یاد رکھا ۔ حکومت نے اسے پدماشیری ایوارڈ سے نوازا اور بالی وڈ نے ملکھا سنگھ کی زندگی میں ہی '' بھاگ ملکھا بھاگ'' فلم بنا کر اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پردہِ سکرین پر زندہ کردیا ہے۔جبکہ ہماری آج کی نسلیں تو عبدالخالق جیسے عظیم ایتھلیٹ کے نام تک سے واقف نہیں ہیں، قوم کا عظیم یہ سپوت 10 مارچ 1988ء کو راولپنڈی میں اپنے خالق حقیقی کو جاملا، اور بے حسی اور عدم توجیہی کی گمشدہ تاریخ کا حصہ بن گیا۔

Mobushir Dahr
About the Author: Mobushir Dahr Read More Articles by Mobushir Dahr: 13 Articles with 14048 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.