اقتدار، دولت اورعزت

تاریخ عالم ایسے بے شمارواقعات سے بھری پڑی ہے، کہ اقتدارکچھ لوگوں کے لئے باعث عزت بنااوراانکوتاریخ میں امرکردیاجبکہ کچھ لوگوں کے لئے اقتدارحصول دولت اورمال ومتاع کاذریعہ تو بنا لیکن وہ تاریخ کے چوراہے پر نشان عبرت بھی بنے۔حضرت ابوبکر صدیق ؓ ، حضرت عمر ؓ،حضرت عثمان ؓاور حضرت علی ؓ جیسی شخصیات نے بھی اقتدارمیں آکرخلفائے راشدین جیساٹائٹل اپنے نام کردیا۔اسلامی نظام حکومت کایہ زرّیں دورمسلمانوں کے لئے ایک نمونہ ہے۔طرزحکمرانی، خدمت خلق، خوف خدا،احساس ذمہ داری اورملکی خزانے کی حفاظت کے جذبے سے سرشاربادشاہ کی ذاتی زندگی سادگی اورقناعت کانمونہ تھی۔جنہوں نے اپنی کسی شرعی ضرورت کے لئے بھی سرکاری خزانے کو استعمال نہیں کیا۔ حضرت عمرفاروق ؓ ایک دفعہ کسی سرکاری دورے پر شام جاتے ہیں توایک غلام ساتھ ہیں اورایک اونٹ بطورسواری استعمال کرتے ہیں، جس پر خلیفہ وقت اورغلام باری باری بیٹھ کر سفرکرتے ہیں۔ایسے حکمران ،جن سے ایک عام شہری یہ سوال کرسکتاہے کہ تما م لوگوں کوایک ایک چادرملی ہے اورانکودوچادرکیوں ملی ہیں جبکہ ایک چادرسے پورے کپڑے نہیں بن سکتے۔انہو ں نے اپنے آپکو ہروقت عوام کے سامنے احتساب کے لئے پیش کیاتھاکیونکہ انہیں ہروقت خوف الٰہی دامن گیررہتاتھااورانہیں اس بات کاقوی یقین تھاکہ انہیں کسی نہ کسی دن اﷲ کے سامنے احتساب دیناہی ہے۔اسی خوف خدا کے سبب عمربن عبدالعزیز ؒ جیسی شخصیت نے اپنے بچوں کوعیدکے پرمسرت موقع پر پرانے کپڑے پہننے اوراﷲ کی یاداورعبادت میں عید گزارنے کی ترغیب دی اورجب بیٹیوں کے گھرجاتاہے توبیٹیاں دوپٹوں سے اپنے منہ چھپاتی ہیں کیونکہ عیدکے دن انہوں نے پیازکھایاتھااورچاربراعظموں پر حکمرانی کرنیوالے بادشاہ کی بیٹیوں کے گھرمیں عید کے دن کھانے کے لئے پیازکے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے۔یہ بھی اقتدارتھا ، جس میں حکمرانوں کو کسی چیز کی طلب نہ تھی، دولت کی نہ عزت کی ، لیکن پھربھی انکو نہ ختم ہونے والی عزت ملی اورتاریخ کے اوراق میں انکے نام ہمیشہ کے لئے امرہوگئے۔
تاریخ کے پراسرارافق پر ایسے بے شمارچہرے بھی نمودارہوئے، جنہوں نے اقتدارکے حصول کے لئے ہر جائز اورناجائز حربہ استعمال کیا، یہاں تک کہ خونِ ناحق سے بھی گریز نہیں کیااورکسی نہ کسی طرح اقتدارکوحاصل کرکے دولت اورطاقت کے نشے میں ایسے مدہوش ہوئے کہ سب کچھ بھول گئے ۔ انہیں رعایاکے دکھ دردکاکچھ احساس نہیں ہوااورسرکاری خزانے کواپنی ذاتی ملکیت سمجھ کرصر ف اورصرف اپنے آپکو ، اپنی اولاد اورعزیزواقرباکو مالامال کرنے کیلئے دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔ایسے لوگوں کو عزت کی کچھ پروانہیں رہی اورصرف دولت کاحصول اوراندرون ملک اوربیرون ملک اثاثے بناناانہوں نے اپنامقصدبنایا۔ بے شک ایسے لوگوں کو دولت تو ملی لیکن وہ ہمیشہ کے لئے عزت سے محروم رہے۔پھرتاریخ ایسے لمحات بھی دکھاتی ہے کہ ناجائز طریقے سے بنائی ہوئی دولت زیادہ دیر تک کسی کاساتھ نہیں دیتی اورزندگی کے ایسے موڑ پر انسان کوتن تنہاچھوڑدیتی ہے، جب اسے اسکی ضرورت ہوتی ہے۔کاش ہمارے حکمران کچھ تواپنی تاریخ کامطالعہ کرتے توان پر ایسے حقائق منکشف ہوجاتے ، جوانکی زندگی بدلنے کے لئے کافی تھے۔شیخ سعدی صاحب فرماتے ہیں۔
قارون ہلاک شدکہ چہل خانہ گنج داشت
نوشیروان نہ مردکہ نام نکوگذاشت
یعنی قارون ، جنکے پاس مال دولت اورزروجواہرکے چالیس خرانے موجودتھے، ایساہلاک ہواکہ ان کانام ونشان باقی نہیں رہاجبکہ نوشیران مرنے کے بعدبھی زندہ رہاکیونکہ وہ نیک تھا۔

موجودہ دورمیں جن قوموں کے حکمرانوں نے عدل وانصاف پر مبنی نظام حکومت تشکیل دیاہے اوراپنی ذاتی زندگی پر قوم کی زندگی کو ترجیح دیکر صحیح معنوں میں عوام کی خدمت کی ہے ، انہیں اﷲ نے دنیامیں وہ مقام عطا کیاہے،جورہتی دنیاتک یادرہے گا۔ایسے ممالک میں عوام کی زندگی کامعیاربہت اونچاہوتاہے اورباوجوداسلامی نظام حکومت نہ ہونے کے ، اﷲ نے انکے لئے اپنے خزانے کھول دئے
ہیں۔دنیاکے ترقی یافتہ اورخوشحال ممالک میں حکمرانوں کایہی طرزعمل ہی انکی خوشحالی کارازہے۔جہاں عوام کو زندگی کے تمام وسائل حکومت ہی فراہم کرتی ہے۔ایسے ہی حکمران اپنے ملک میں عدل قائم کرتے ہیں۔وہ خودکوعوام کاخادم سمجھتے ہیں اورسرکاری وسائل کو اپناحق نہیں سمجھتے بلکہ سرکاری خرانے کوقوم کی دولت سمجھتے ہیں اوراپنے عوام میں وسائل کامنصفانہ تقسیم کرتے ہیں۔ایسے حکمران ہروقت ایک ایک پیسے کاحساب دینے کے لئے تیارہوتے ہیں۔تاریخ میں ایسے ہی لوگ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ۔انہیں عزت ملتی ہے اورانکے بعدانکی اولادبھی عزت اوردولت سے مالامال رہتی ہے۔

کاش ہمارے حکمرانوں کوبھی اس بات کااحساس ہوجائے کہ انہیں اﷲ نے جومقا م دیاہے، وہ اسکی قدرکرے۔اقتدارکے حصول کے لئے ہمیشہ جائز ذرائع استعمال کرے اور قومی دولت کو عوام کی امانت سمجھ کرانکے فلاح وبہبودکے لئے خرچ کرے۔اپنی اولادکی صحیح تربیت کرے ، انہیں نیک اورایمانداربنائے تاکہ انکے اندربھی صحیح معنوں میں قوم اورملک کی خدمت کاجذبہ پیداہو۔
 

MP Khan
About the Author: MP Khan Read More Articles by MP Khan: 107 Articles with 111546 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.