پاناما کیس کا فیصلہ 20 اپریل 2017کس سنایا گیا جس کے
نتیجے میں ایک تحقیقاتی کمیٹی بنام جے آئی ٹی ‘ سپریم کورٹ آف پاکستان نے
تشکیل دی۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے پانچ معزز جج صاحبان نے یہ کیس چار
ماہ تین دن سنا، اس کی کل 36 سماعتیں ہوئیں۔ عدالت کا فیصلہ 540صفحات کا
تھا۔پاناماکیس کے فیصلے میں دو معزز ججوں نے وزیر اعظم پاکستان میاں نواز
شریف کے بارے میں یہ فیصلہ دیا کہ وہ اب پاکستان کے قانون 62/63کے مطابق
صادق اور امین نہیں رہے۔ جب کہ تین معزز جج صاحبان کی رائے تھی کہ نہیں
ابھی ہم ایک تحقیقاتی کمیٹی کے ذریعہ اور چھان بین کر لیں۔ فیصلہ صادر ہوا
تو نواز لیگی بہت خوش تھے۔ ان کے ان جذبات کو میں نے اپنے ایک کالم کچھ
اسطرح بیان کیا تھا ’’ جوں ہی ٹی وی پر خوشی کی خبر آئی کہ میاں صاحب کی
جان بخشی ہوگئی اور پاناما کیس سے بچ گئے نیز انہیں ان کے عہدے سے برخاست
کرنے کا فیصلہ نہیں ہوا ۔ میاں صاحبان اور پوری نون لیگ نے بس یہی کافی
جانا ، چھوٹے میاں صاحب نے آؤ دیکھا نہ تاؤ فرطِ جذبات میں مسکراتے چہرے،
نم دار آنکھوں کے ساتھ اپنے دونوں ہاتھ بڑے بھائی کی جانب واہ کیے اور
ٹھنڈک کو اپنے سینے سے لگا لیا ، شکر اد اکیا کہ ایک نہیں دو کرسیاں سلامت
رہیں۔بیٹی بھی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکی اور وہ بھی اپنے باپ اور چچا
کے بیچ آگئی تاکے دونوں کے مابین جس ٹھنڈک کا تبادلہ ہورہا تھا اس سے کچھ
فیض وہ بھی حاصل کر لے۔ برابر میں کھڑے دیگر مصا حبین بھی جن میں پرویز
رشید ،عرفان صدیقی بھی شامل تھے للچائی نظروں سے بڑے میاں صاحب کے سینے سے
لگنے کی خواہش کی تکمیل چاہتے تھے نہیں معلوم وہ پوری ہوئی یا نہیں۔ البتہ
چودھری نثار مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ ، ہاتھوں میں ہاتھ دیے کھڑے رہے۔
یقیناًوہ بھی خوش ہوں گے۔عدالت سے باہر نون لیگی صفحہ اول کے لیڈروں کی گلا
پھاڑتی، چیخ و پکارکرتی، عمران کو للکارتی اور پھنکاریں مارتی آوازیں ، بعض
کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ اپنے کپڑے اتار کر مخالفین کی جانب پھینک دے
تے‘‘۔لیکن یہ خوشی ادھوری تھی ، سپریم کورٹ کے تین معزز ججوں جے آئی ٹی کے
ذریعہ ابھی میاں صاحب کے حق میں فیصلہ کرنا تھا ۔ اب جے آئی ٹی نے اپنا کام
شروع کیا ۔ جیسے جیسے کاروائی آگے بڑھتی، نون لیگیوں، میاں صاحب اور ان کے
خاندان کے قریبی رشتے داروں بیٹوں، بیٹی، سمدھی اور دیگر کو پیشی کے لیے
بلایا جاتا ان کی پیشی ہوتی تو عدالت کے باہر نون لیگی اپنی عدالت لگاتے
اور ایک طوفان برپا کر دیتے۔ اخلاقیات کی ساری حدود پار کر دی گئیں۔ ان کے
جواب میں کپتان اور ان کی ٹیم نے بھی کوئی کثر نہیں اٹھا رکھی، پتھر کا
جواب اینٹ سے دینے کا سلسلہ جاری رہا۔جے آئی ٹی کو عدالت عالیہ نے60دن دیے
تھے مقررہ وقت میں کمیٹی کو اپنا کام مکمل کر نا تھا، یہی نہیں بلکہ ہر
15دن بعد اپنی کارکردگی کی رپورٹ سپریم کورٹ کو پیش بھی کرنا تھی اور ایسا
ہی ہوا۔ کمیٹی اپنی رپورٹ پیش کرتی رہی، متعلقہ افراد کو پیشی پر طلب کرتی
رہی اور نون لیگی عدالت کے باہر بھنگڑا ڈالتے رہے۔
جے آئی ٹی کی تحقیقات میں ایک موڑ ایسا بھی آیاجب اس نے وزیر اعظم پاکستان
میاں محمد نواز شریف کو طلب کیا اور میاں صاحب 15جون 2017کو جے آئی ٹی کے
سامنے پیش ہو ئے۔ ملکی تاریخ میں ایسی مثال نہیں ملتی کہ ملک کا وزیر اعظم
کسی بھی تحقیقاتی ادارے کے سامنے پیش ہوا ہو۔ پاناما لیکس کا فیصلہ کہنے کو
تو دو تین کا تھا لیکن تین کی اکثریت کے فیصلے کے نتیجے میں ایک ایسی تاریخ
رقم ہوہی کہ جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز
شریف نے وزارت اعلیٰ کی تشکیل شدہ جے آئی ٹی میں پیش ہوکر سیاست میں ایک
انوکھی اور قابل تقلید مثال قائم کردی تھی۔یہ بات اپنی جگہ ہے کہ میاں صاحب
کو اس وقت اقتدار سے الگ ہوجانا چاہیے تھا یا نہیں۔ جب پاناما لیکس کا
فیصلہ آیا گو کہ وہ دو اور تین کا تھا لیکن عدالت عالیہ کے دو معزز جج
صاحبان کا یہ فیصلہ دیدینا کہ میاں صاحب صادق اور امین نہیں۔ اپنی جگہ اہم
ہے اور تاریخ کاتھا۔ اگر اس وقت میاں صاحب بلند حوصلے اور اعلیٰ سیاسی برد
باری کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزارت عظمیٰ سے الگ ہوکر اپنے ہی کسی بھائی ،
بھتیجے، بھانجے، بیٹی یا سمدی جی کو اس کرسی پر براجمان کر دیتے پھر وہ جے
آئی ٹی میں حاضر ہوتے اپنی فیملی کے دیگر افراد کو پیش کرتے تو آج ان کا قد
کاٹ میں ڈھیروں اضافہ ہوجاتا۔ ان کی عزت و احترام کچھ اور ہوتی لیکن انہوں
نے دنیا میں ہونے والے اس قسم کے واقعات جن میں ملک کے سربراہوں نے دیر
نہیں لگائی اپنی کرسی چھوڑنے میں سے کوئی سبق نہیں سیکھا بلکہ انہوں نے
تمام تر الزامات، تحقیقات ، فیصلوں کو صرف اس قدر وقعت دی کہ وہ ان کا
مقابلہ کریں ۔ اپنی صفائی اور اپنی تلاشی دیں گے لیکن طاقت کی کرسی پر
بیٹھے بیٹھے۔ اچھی مثال اپنی جگہ لیکن کسی بھی تحقیقاتی کمیٹی یا کمیشن کے
سامنے کون پیش ہوتا ہے؟ کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ میاں صاحب ایک مجرم کے
طور پر پیش ہوئے۔ جہاں میاں صاحب نے خود کو پیش کر کے اچھی مثال قائم کی
وہیں ان پر تنقید کے نشتر بھی ہیں جو اچھی نظیر کا حصہ ہوں گے۔
پاناما کیس سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ، جے آئی ٹی کی تحقیقات سے ہوتا ہوا
اب دوبارہ سپریم کورٹ کے ان تین معزز جج صاحبان کے سمنے پیش ہوچکا ۔ یعنی
جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کردی اور یہ رپورٹ دنیا کو
معلوم بھی ہوگئی۔ یعنی مخفی نہیں بلکہ عام ہوچکی۔اور آجب اس کی پہلے سماعت
ہوئی تو ایک معزز جج نے یہ ریمارکس بھی دیئے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ دنیا کو
معلوم ہوچکی۔ اب کیس کی سماعت جاری ہے۔ فیصلہ معزز عدالت کو کرنا ہے۔ جے
آئی ٹی کی رپورٹ کو نون لیگ مسترد کر چکی، عدالت کا فیصلہ اپنے خلاف آئے تو
کون مانتا ہے، اپنے خلاف کون منفی بات سنتا ہے۔ اس لیے نون لیگ کی اس دلیل
میں کوئی وزن نہیں کہ وہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کو تسلیم نہیں کرتے اور اسے
مسترد کرتے ہیں، یہ جے آئی ٹی عمران خان کی تشکیل کردہ نہیں تھی، یہ تو
سپریم کورٹ نے تشکیل دی تھی، وہ اپنی تشکیل کردہ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ
کو تسلیم کرتی ہے یا نہیں یہ عدالت پر منحصر ہے۔ عدالت نے آج اپنی کاروائی
میں اس قسم کے رمارکس بھی دیے کہ ضروری نہیں کہ عدالت جے آئی ٹی کی رپورٹ
کی بنیاد پر فیصلہ دے۔ بات درست بھی ہے ، رپورٹ میں سقم ہوسکتا ہے، کسی
معاملے میں ممکن ہے تحقیقات میں جانبداری سے کام لیا گیا ہو لیکن کوئی ایک
بات تو نہیں بے شمار باتیں ہیں کس کس کو جھٹلایا جائے گا۔ قطری خط پیش کر
کے نون لیگ نے خود کو ابتداہی سے غلط راہ پر چلنے کا عندیہ دے دیا، تحقیقات
کے نتیجے میں ایسی ایسی باتیں اور الزمات سامنے آچکے کہ میاں صاحب اور ان
کا خاندان کسی بھی صورت کلین چٹ تو حاصل نہیں کرسکتا۔ کوئی ثبوت، کوئی
دستاویز نئی جے آئی ٹی کو پیش نہیں کی گئی اب عدالت کو کون سی ایسی بات کہی
جائے گی یا ایسے ثبوت فراہم کیے جائیں گے جن سے میاں صاحب اور ان کا خاندن
بے گناہ ثابت ہوسکے گا۔ میاں صاحب اور ان کے قریبی اکثر ساتھی میاں صاحب کو
یہی مشورہ دے رہے ہیں کہ چڑھ جا بیٹے رام بھلی کرے گا۔ تمام تر ثبوتوں،
کاروئی، گفتگو ، اتار چڑھاؤ کو دیکھتے ہوئے اس نتیجے میں پہنچنا مشکل نہیں
کہ پاناما کیس سپریم کورٹ کے دو معزز ججوں کے فیصلے اور اب جے آئی ٹی کی
رپورٹ کے بعد میاں صاحب کو اسٹپ ڈاؤن کرنا ہی ہوگا۔ سیاسی عمل کو جاری
رکھنے، جمہوریت کی گاڑی کو پٹری پر رکھنے ، ملک کی سلامتی، قوم کے حوصلوں
کو بلند رکھنے کے لیے میاں صاحب کو کڑوی گولی نگلنا ہی ہوگی۔ اگر مریض از
خود دوا نہ پیئے، گولی نہ کھائے تو ڈاکٹر انجیکشن لگا تا ہے،کینولا لگا کر
ڈرپ لگا دیتا ہے، اگر مریض ریزیسٹ کرتا ہے تو لوگ اسے پکڑ کر ، رسیوں سے
جکڑ کر اسے کڑوی گولی اور انجیکشن لگانے پر مجبور کردیتے ہیں۔ میاں صاحب کا
یہ تیسرا دور ہے، وہ تیسری بار وزیر اعظم بنے، عجب اتفاق کہ تینوں بار
انہیں اسی قسم کے حالات دیکھنا نصیب ہوئے۔ اب تو ویسے بھی کم وقت رہ گیا
ہے، ایک آپشن قبل از وقت عوام کی عدالت میں جانا بھی ہوسکتا ہے۔عدالت کا
فیصلہ کچھ بھی ہوسکتا ہے اس کے بارے میں کوئی رائے دینا کسی بھی اعتبار سے
مناسب نہیں لیکن لمحہ موجود کے حالات ، واقعات اور زمینی حقائق کے انسانی
سوچ کواس جانب لے جارہی ہے کہ جہاں پر میاں صاحب کو کلین چیٹ ملتی دکھائی
نہیں دے رہی۔میاں صاحب کو اپنی، پارٹی کی اوراپنے خاندان کی عزت کو ، وقار
کو، حوصلوں کو بلند رکھنے کی خاطر سخت اور نہ پسندیدہ فیصلہ کرنا ہی ہوگا۔ |