سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے
وقت قوت کے کئی مراکز اکٹھے ہوگئے تھے۔پہلے مشرف سرکار ان کے آگے گھٹنے
ٹیکنے پر مجبور ہوگئی۔پھر زرداری حکومت بھی پسپائی اختیار کرتی نظر آئی۔ان
دنوں سیاست ۔وکالت ۔اور میڈیا کا ایک ایسا ایکا سامنے آیا جس نے حکومت وقت
کو ہلا کر رکھ دیا۔عوام نے ان تینوں کی مشترکہ جدوجہدکی حمایت کی اور قسمت
کے دھنی افتخار محمد چوہدری کو دو بار بحال کروایا۔یہاں یہ ذکر بے جا نہ
ہوگا۔کہ وکالت اور سیاست کے مابین بہترین کوارڈینیشن کے لیے میڈیا نے
ناقابل فراموش رول اداکیا ۔ اگر افتحار محمد چوہدری کی بحالی کو میڈیا کی
کامیابی تصور کرلیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔میڈیا نے تب کے متحرک دھڑوں کو ایک
دوسرے کی خبر بھی دی ۔اور ان کے مخالنفین کی مخبری بھی دیتارہا۔میڈیا کی اس
پل پل کی راہنمائی کی بدولت ہی عدلیہ بحالی تحریک کے راہی اپنی منزل تک
پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔میڈیا نے تب عوام کو بھی برطرف عدلیہ کی طرف مائل
کرنے کا رول نبھایا۔افتحار محمد چوہدری کی بحالی ایک تاریخی واقعہ بن
گیا۔قوم کو میڈیا کے ذریعے حکومت وقت کے اقدام کے مضمرات کی جو تصویر میڈیا
نے تب پیش کی اس کے طفیل عوام جو کہ اول اول عدلیہ معطلی کے معاملے کو کچھ
خاص توجہ نہ دے رہی تھی ۔اس معاملے کو ایک ہاٹ کیک تسلیم کرنے پر آمادہ
ہوگئی۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ کی بعض غلطیوں نے وزیر اعظم نوا زشریف سے متعلق بعض
لوگوں کو اپنی سوچ بدلنے پرمجبور کردیا ہے۔یہ ایسے ہی ہے جیسے وزیر اعظم کے
ستی ساوتری ہونے کے دعوے نے بعض ایسے لوگوں کو بھی ان کی حمایت سے دستر
بردا ر ہونے پر مجبور کردیا جو ان کے پکے خیر خواہ تھے۔وزیر اعظم نے بجائے
حالات وواقعات کے تناظر میں اپنے خاندان کے بعض معاملات کی مجبوریاں بیان
کرنے کی بجائے کسی قسم کی غلط اور غیر قانونی باتوں کو تسلیم نہ کرنے کا
راستہ چنا۔اگر وزیر اعظم کہ دیتے کہ دونوں با ران کے خاندان کو پاکستان سے
باہر جانا پڑا اور انہیں اپنا سرمایہ مجبورا باہر لے جاناپڑا تو شاید عوام
کے ساتھ ساتھ ججز بھی ان کی مجبوری کو جائز سمجھتے ہوئے منی لانڈرنگ کو جرم
قرار دینے سے گریز کرتی۔مگر وزیر اعظم صاحب نے جب خود کو اور اپنی تمام
فیملی کو ناتادھوتا ثابت کرنے کی کوشش کی تو ان کے سچے ہمدرد بھی پیچھے
ہٹنے لگے۔اب جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مندرجات دیکھ کر ایسے لوگ بھی شریف
فیملی کے حق میں بولنے لگے ہیں۔جو ان کے پکے بد خواہ تھے۔وہ لوگ بھی شریف
خاندان کے ساتھ کاغذی اور قلمی زیادتی ہونے کا ذکر کررہے ہیں۔نہ نوازشریف
اپنی کوتاہیوں کا ذکر کررہے ہیں۔اور نہ ہی جے آئی ٹی والے ہر حال میں نواز
شریف کو چور ثابت کرنے کی روش ترک کرپائے۔اس جے آئی ٹی رپورٹ کی تکمیل کے
بعد اب اس پر تبصروں کا موسم ہے۔وزیر اعظم کو نااہل کروانے کی خواہش رکھنے
والے کم نہیں۔مگر جے آئی ٹی نے اس نااہلی کے لیے سیدھے ساد ے دوچارثبوتوں
کی بجائے جس طرح الف لیلے قسم کی ایک کئی جلد پر مشتمل کتاب تخلیق کرڈالی
اس نے وزیر اعظم کے بچ نکلنے کی راہ ہموا رکردی ہے۔
جیو اور جنگ گروپ کواسی جے آئی ٹی کی بے حرمتی پر تادیبی کاروائیوں کا
سامناہے۔اس کا جرم شریف فیملی کی حمایت میں جے آئی ٹی او رعدلیہ کی مخالفت
میں کیے جانے والے اقدام ہیں۔اس گروپ نے اپنے صحافیوں کے ذریعے غلط اور
نامناسب رپورٹنگ کروائی۔مخصوص تجزیے او رکالم چھپوائے گئے۔اس کے ایک صحافی
احمد نورانی عدلیہ کے امعززجج کو فون کرنے کے قصور وار پائے گئے ہیں۔سپریم
کورٹ نے اس میڈیا ہاؤس کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کرتے ہوئے ریماکس دیے
کہ اب یہ بھی وقت آگیا۔کہ کوئی صحافی جج کو فو ن کرنے لگے۔جیو اور جنگ گروپ
کو توہین عدالت کے نوٹس وصول ہوچکے۔اب اگلا قدم جانے کیا ہوگا۔جانے یہ
میڈیاہاؤسز کیسے اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرے گا۔یاپھربراہ راست خود کو
عدالت کے رحم وکرم پر چھوڑنے کا ایک روائتی نسخہ استعمال کرے گا۔جے آئی ٹی
کو سپورٹ کرنے والے دھڑوں جس میں تحریک انصاف ۔ق لیگ ۔عوامی لیگ ۔اور عوامی
تحریک شامل ہیں۔کا دعوی تھا۔کہ حکومت نے میڈیا کو خرید رکھاہے۔جس کے سبب
میڈیا میں عدلیہ او رفوج کے خلاف مسلسل پراپیگنڈا جاری ہے۔اپوزیشن کا موقف
دبایا جارہاہے۔میڈیا پر بیٹھے حکومت کے تنخواہ دار لوگ جھوٹ کو سچ بنانے کی
ذمہ داری نبھارہے ہیں۔اپوزیشن کی اس شکایت کا اول اول تو اثر ہوا۔مگر بعد
میں یہ شکایت جھوٹ پر مبنی قرار پائی۔قوم نے جب دونوں طرف کی کوریج اور
تجزیہ کاموازنہ کیا تو حالات کو اس سے بالکل مختلف پایا۔صر ف جنگ اورجیو
گروپ کے بڑے تقریبا تمام بڑے میڈیا ہاؤسز دن رات شریف فیملی کو چوراور
عمران خان کو آخری امید ثابت کرنے میں لگے نظر آئے۔یہی ریشو لکھاریوں میں
پائی گئی۔ایسے ایسے لکھاریوں کوبھی اس کارخیرمیں حصہ ڈالتے دیکھا گیا۔جن کی
پہچان ہی شریف فمیلی سے تعلق تھا۔اس بات پر تو یقین کیا جاسکتاہے۔کہ میڈیا
ہاؤسز میں پیسے بانٹے گئے۔مگر ا س بات کا تنازعہ ضرور ہے کہ وہ پیسے حکومت
کے حامیوں نے بانٹے یا مخالفین نے۔کس دھڑے نے کتنے پیسے تقسیم کیے کس میڈیا
ہاؤسز کو کتنا ملا یہ ایک سوال ضرور ہے۔مگر اس کا جواب اتنا بھی مشکل نہیں
کہ سوال سوال ہی رہ جائے۔ اس کو سمجھنے کے لیے بڑا آسان نسخہ ہے۔آپ پچھلے
چھ ماہ کی تمام چینلز کی نشریات کا تجزیہ کرلیں۔شریف فیملی کو دفاع کرنے
اور اسے چور ثابت کرنے والے چینلز اور لکھاریوں کی ریشو نکال لیں۔ اگر
حکومت نے میڈیا کی اکثریت کو خرید رکھا ہوتاتو نہ عمران خاں کی کوئی خبر
نظر آتی ۔نہ ان کی کوئی مصروفیت کی جھلک دکھائی دیتی۔تحریک انصاف کے ہم
رکاب لوگ بھی کہیں گمنامی میں ڈوبے ہوتے۔اگر ایسی کوئی صورت حال بنی رہتی
تو ہم ضرور سمجھتے کہ حکومت نے میڈیا ہاؤسز کی اکثریت کو خرید رکھاہے۔اب
جبکہ عملی صورتحال اس سے یکسر مختلف ہے۔شریف فیملی کو ڈیفنڈکرنے والے چیدہ
چیدہ لوگ جب دوسری طرف والوں کی فوج ظفر موج میں کہیں چھپے نظر آئیں تویہ
دلیل کافی ہے کہ پیسہ حکومت کی طرف سے نہیں بلکہ کسی اور طرف سے فراہم او
رتقسیم کیا گیا۔
|