گڈ امپریشن - Good Impression

ایک متوالا ہونے کی حیثیت سے میں خوش ہوں کہ میرے لیڈر جناب نواز شریف نے بڑے دبنگ انداز میں استعفا دینے سے انکار کر دیا ہے۔ انہوں نے دوٹوک انداز میں اعلان کیا ہے کہ وہ نہ تو استعفا دیں گے اورنہ جمہوریت فروش سازشی ٹولے کی باتوں کی پرواہ کریں گے اور آخری وقت تک حالات کا مقابلہ کریں گے ۔ اﷲ کے فضل اور کرم سے ان کے ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں اور بوجھ ہو بھی تو کیوں۔بوجھ کا تعلق تو احساس سے ہوتا ہے اور احساس ہو بھی توکیوں۔ وہ منتخب وزیر اعظم ہیں اور انہوں نے استعفے کا مطالبہ کرنے والے تمام لوگوں کے مجموعی ووٹوں سے زیادہ ووٹ لئے تھے۔اتنے ووٹ تو بادشاہ بھی نہیں لے سکتے مگر بادشاہ ہونے کے باوجود موجودہ حالات میں انہیں عوام پوری طرح یاد آنے لگے ہیں اور ان کے خیال میں ان کے بارے صرف عوام کا فیصلہ ہی قابل قبول ہو سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ ا ن کے ذاتی کاروبار کے بارے میں مفروضوں، الزامات اور بہتانوں کا مجموعہ ہے۔ ہمارے خاندان نے سیاست سے کمایا کچھ نہیں البتہ کھویا بہت کچھ ہے۔ویسے اس ملک میں روایت ہے کہ جو شخص بھی کامیابی سے کاروبار کرتا ہے بہت سے لوگ اس کے خوامخواہ دشمن ہو جاتے ہیں۔ کافی عرصہ پہلے کی بات ہے ہمارے محلے میں ایک شخص چرس بیچتے پکڑا گیا۔ محلے میں موجود اس کے بہت سے دوستوں اور عزیزوں نے اس سے ہمدردی کا اظہار کیا کیونکہ اس کا موقف تھا کہ اس کا قصور کیا ہے۔ اسے پکڑ کر اس کے کاروبار کو زبردستی تباہ کیا جا رہا ہے۔

میاں صاحب کہتے ہیں کہ ہمارے چار سالوں میں اتنا کام ہوا ہے کہ پچھلے بیس سال میں نہیں ہوا۔ہم نے اندھیروں کو اپنی بستیوں اور اپنے کارخانوں کا رخ نہیں کرنے دیا۔یہاں اربوں کے منصوبے لگ رہے ہیں۔ سریا اور سیمنٹ بے حساب استعمال ہو رہے ہیں۔ لیکن نہ تو سریا، نہ سیمنٹ اور نہ ہم بد عنوان ثابت ہوئے ہیں۔میں حیراں ہوں کہ اپوزیشن کیوں ہاتھ دھو کر میرے محبوب لیڈر سے استعفا مانگنے کے درپے ہے۔ اربوں کے منصوبے جو لگ رہے ہیں اور ان میں بدعنوانی کہاں سے آ سکتی ہے کیونکہ جو ثابت نہ ہو سکے جس کا کسی تیسرے کو پتہ ہی نہ چلے وہ بدعنوانی ہو ہی نہیں سکتی۔ میرے لیڈر کی موجودگی میں اندھیروں نے کارخانوں اور بستیوں کا رخ نہیں کیا کیونکہ ان کی اعلیٰ قیادت نے مینجمنٹ سائنس کو استعمال کرتے ہوئے اندھیروں کا لوڈ شیڈنگ کی مدد سے قلع قمع کر دیا ہے۔سچ تو یہی ہے جو میرے لیڈر نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی نے رپورٹ بد نیتی کی بنیاد پر دی ہے۔انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ ماضی میں بھی ایسے تماشے ہوتے رہے ہیں جس کی پاکستان نے بہت قیمت چکائی ہے۔ اب بھی اگر ایسا تماشہ ہوا اور قیمتوں اور لین دین کے معاملات کو اچھالا گیا تو قیمت پاکستان ہی کو چکانی ہو گی۔ویسے یہ بھی میرے لیڈر کا کمال ہے کہ ان کے دور میں ان کی بادشاہت سے جمہوریت چھلکتی ہے اور ان کی جمہوریت بادشاہت کو مات کرتی ہے۔

انگریزی کی ایک کہادت ہے،(Good impression is the best thing which you can wear.) یعنی ایک اچھا تاثر آپ کا بہترین لباس ہے۔ تاثر کے تناظر میں پہلے سپریم کورٹ اور اس کے بعد جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ پیش کرکے میرے لیڈر کے اس لباس کو تار تار کر دیا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ اس حوالے سے میرے لیڈر کے جسم پر فقط ایک زیر جامہ یا انڈر وئیر ہی باقی رہ گیا ہے۔ اس پر بھی بعض ناعاقبت اندیش مشیرجے آئی ٹی رپورٹ کی دسویں جلد کو منظر عام پر لا کرزیر جامہ بھی اتارنے کے درپے ہیں۔ میں سراپا احتجاج ہوں اس لئے کہ اب جب یہ فیصلہ ہو چکا کہ جے آئی ٹی، اس کے ممبران اور اس کی رپورٹ کا مردانہ وار مقابلہ کرنا ہے تو جسم پر زیر جامہ بہت ضروری ہے۔ زیر جامہ پہلوان کی شان ہے ۔ پہلوانی کا نشان ہے۔اور اب جب مقابلے کا سوچ ہی لیا ہے تو اس حلئیے میں ویسے بھی لوگوں پر رعب رہتا ہے۔ دوسرا جب ہم کہتے ہیں کہ ہمارے ضمیر پر کوئی بوجھ اور ہمارے دامن پر کوئی داغ نہیں تو ضمیر تو لوگوں کو نظر نہیں آتاالبتہ دامن کا داغ کیا لوگ صرف زیر جامہ کی موجودگی میں پورے بے داغ جسم کو دیکھ سکتے ہیں جو ان کے اطمینان کے لئے بہت ضروری ہے۔

مجھے یہ بھی افسوس ہے کہ آجکل سوشل میڈیا پر میرے لیڈر کے حوالے سے ایک پرانا لطیفہ بھی باربار دہرایا جا رہا ہے کہ ایک مراثی نے چوہدری سے اس کی بیٹی کا رشتہ مانگا۔ چوہدری نے اسے لٹا کر بہت مارا۔ چوہدری تھکا تو اتنے میں اس کا بھائی آگیا۔ اس نے بھی مراثی سے وہی سلوک کیا۔شام تک بہت سے لوگوں نے مراثی پر پوری زور آزمائی کی۔ جب سب تھک گئے تو مراثی کپڑے جھاڑتا اٹھا کہ کیا میں اب بھی انکار ہی سمجھوں۔ میرے لیڈر کا اس لطیفے سے کیا تعلق۔ میرا لیڈر تو وہ ہے جو شیر اور بکری کو ایک گھاٹ لے آتا ہے چوہدری اورمراثی میں کوئی فرق نہیں رکھتا یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں جو کام مراثی کرتے رہے ہیں، و ہ کام سپریم کورٹ میں مقدمے کی سماعت کے دوران میرے لیڈر نے پوری طرح چوہدریوں سے لیا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک مراثی فوت ہو رہا تھا اور اس کی اولاد اس کی چارپائی کے ارد گرد بیٹھی تھی۔ اولاد نے جب دیکھا کہ وقت نزع کچھ لمبا ہو گیا ہے تو فیصلہ کیا کہ وقت گزارنے کے لئے آہستہ آہستہ ڈھولک بجایا جائے کہ وقت بھی کٹ سکے اور باپ کو بھی حوصلہ رہے۔ آجکل حکومتی چوہدری یہی کام کر رہے ہیں۔

میاں نوازشریف استعفا دینے سے انکار کر چکے مگر افواہیں اپنی جگہ گردش میں ہیں۔ ان افواہوں کے سبب بہت سے لوگ وزیر اعظم بننے کے لئے منہ سنوار رہے ہیں۔ عام لوگوں کے خیال میں نواز شریف کی علیحدگی کی صورت میں حمزہ شہباز اس وقت ہاٹ فیورٹ ہیں۔ میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز نے پنجاب پر اپنی گرفت اس قدرمضبوط رکھی ہے کہ بیگم کلثوم نواز اور مریم نواز کی بات بھی پنجاب کا کوئی بیوروکریٹ سننے کو تیار نہیں ہوتا ۔ اس وجہ سے وہ دونوں ہی نہیں پوری نواز شریف فیملی حمزہ شہباز کی مخالف ہے۔ شریف برادران کا کمال ہے کہانہوں نے ہماری بیوروکریسی کو اس قدر کمزور اور کرپٹ کر دیا ہے کہ وہ کارکردگی اور کرداردونوں معاملات میں شدید انحطاط کا شکار ہے۔ جے آئی ٹی میں اگر کوئی بیوروکریٹ ہوتا تو شاید ایسی رپورٹ مرتب نہ ہو سکتی۔سوال یہ ہے کہ میاں نواز شریف کا متبادل کون ہو گا۔ کسی کی نظر اس طرف نہیں گئی ۔ مگر مجھے یقین ہے کہ میاں صاحب کے متبادل ، اگر ضرورت پڑی ،تو محترمہ مریم نواز کے داماد راحیل منیر ہونگے۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500386 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More