جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد ملک بھر میں خصوصاًسیاسی
حلقوں میں کافی ہلچل دکھائی دے رہی ہے ۔اخبارات سیاسی محاذ آرائی سے بھر
پور دکھائی دیتے ہیں جبکہ ٹی وی چینلز سیاسی جنگ کا میدان بنے ہوئے ہیں ۔جہاں
ایک طرف ہر سیاسی پارٹی کی جانب سے پریس کانفرنس کی جارہی ہے وہاں دوسری
طرف وزیر اعظم پاکستان پر استفے کے لیے کافی دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ٹی وی
چینلز کی جانب سے سیاسی محاذ آرائی پر مبنی پریس کانفرنسزکو بھر پور
پذیرائی دی جارہی ہے اور یہاں تک کہ لائیو نشر کیا جا رہا ہے ۔سیاسی حریف
ایک دوسرے پر طعن و تشنیع کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور بڑھ
چڑھ کر ایک دوسرے کو نشانہ بناتے دکھائی دیتے ہیں۔اخبارات ، ٹی وی چینلز
ہوں یا سوشل میڈیا ہر فورم پر سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے چورن بیچنے میں
مصروف عمل دکھائی دیتی ہیں اور میڈیا اس معاملے میں بھر پور معاونت فراہم
کر رہا ہے۔میڈیا اپنی ذمہ داریوں کو بھول کر سیاسی دوکانداری کی پروموشن
میں لگا ہوا ہے، ریٹنگ اور پیسے کی خاطر صحافت کے مقدس پیشے کو بھی متنازعہ
بنا دیا گیا ہے یہاں تک کے صحافتی ادارے سیاسی پارٹیوں کی حمایت میں بالکل
واضح طور پر سامنے آچکے ہیں اور غیر جانب داری و دیانتداری کے اصول کو نہ
جانے کب کا دفن کیا جا چکا ہے۔غیر جانب درانہ صحافت کے حامل ادارے اور
افراد شاذونادر ہی دکھائی دیتے ہیں۔جے آئی ٹی رپورٹ اور وزیر اعظم کے
استعفے کے مطالبے کو لے کر میڈیا پر بھر پور سیاسی مہم جاری ہے۔
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن
کے ممبران پارٹی چھوڑنے کے لیے بالکل تیار بیٹھے ہیں اور صرف چالیس پچاس کے
قریب باقی رہ گئے ہیں۔وزیر اعظم سے استفے کے مطالبے میں پاکستان تحریک
انصاف کے ساتھ دیگر پارٹیاں بھی شامل ہیں جبکہ کچھ سیاسی پارٹیاں وزیر اعظم
سے استعفے کے مطالبے میں شامل نہیں ہیں۔جی آئی ٹی رپورٹ کے بارے میں بات کی
جائے تواس رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز
شریف اور ان کے بچوں حسن نواز ، حسین نواز اور مریم نوازکے خلاف نیب میں
ریفرنس بھیجا جائے جبکہ سپریم کورٹ کے حکم کے تحت جے آئی ٹی رپورٹ کی
کاپیاں متعلقہ فریقوں کو فراہم کی گئی ہیں اور انہیں 17 جولائی تک اپنے
تحفظات پیش کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے
وزیراعظم میاں نواز شریف کے ساتھ ساتھ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف
اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے استعفے کا بھی مطالبہ کیا گیاہے ۔استعفے کے اس
مطالبے میں پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول زرداری اور جماعت اسلامی کے سربراہ
سراج الحق بھی پیش پیش ہیں جبکہ اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی کا موقف
ہے کہ جے آئی ٹی کوئی عدلیہ نہیں ہے اس نے صرف سپریم کورٹ کے حکم پر تحقیقی
رپورٹ پیش کی ہے اورسپریم کورٹ اس رپورٹ کا جائزہ لے کر پانامہ کیس کافیصلہ
کرے گی اور تمام پارٹیوں کو سپریم کورٹ کا فیصلہ قبول کرنا چاہیے۔ اگر
سپریم کورٹ وزیر اعظم میاں نواز شریف اور مسلم لیگ ن کو قصور وار ٹھہراتی
ہے تو اس صورت میں استفے کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے بصورت دیگر وزیر اعظم
میاں نواز شریف حسب سابق اپنے فرائض منصبی ادا کرنے کے مجازرہیں گے۔اگر
قانونی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو استعفے کا یہ مطالبہ سیاسی ہے اور سیاسی
بناء پر وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ کسی صورت نہیں کیا جاسکتا البتہ اگر
سپریم کورٹ جے آئی ٹی رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد وزیراعظم کو قصور وار
ٹھہرادیتی ہے تو استعفے کے اس مطالبے کو قانونی حیثیت حاصل ہو جائے گی۔
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے مشاورتی اجلاس کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ وہ
استعفیٰ نہیں دیں گے بلکہ جے آئی ٹی کے تضادات کے خلاف سپریم کورٹ میں
چیلنج کریں گے اور یقینا یہ وزیر اعظم کا آئینی و قانونی حق ہے مگر پاکستان
تحریک انصاف کا یہ مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف فوری استعفیٰ دیں
۔بزرگ سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی نے اپنی پریس کانفرنس میں پاکستان تحریک
انصاف اور عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیا ہے اور کہا ہے کہ عمران خان میڈیا
پر آکر میری باتوں کو جھٹلاسکتے ہیں تو جھٹلائیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف
کے رہنما عمران خان مخدوم جاوید ہاشمی کے الزامات کے جواب میں دلائل پیش
کرنے سے قاصر ہیں۔یہ تمام تر سیاسی صورت حال نہ جانے کب بہتر ہوگی؟ نام
نہاد سیاسی اداکار ذاتی جھگڑوں سے نکل کر ملکی ترقی اور عوام کے بارے میں
نہ جانے کب سوچیں گے؟ حکومت مخالفین کو چاہیے کہ حکومت کے ساتھ مل کر ملکی
مسائل کو حل کرنے اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں حکومت کے ساتھ
معاونت کریں اور صاف پانی کے حصول ، لوڈشیڈنگ کا خاتمہ،ٹریفک حادثات میں
کمی ، چوری ڈکیتی کی روک تھام ، تعلیم و صحت کے مسائل کا خاتمہ کریں اور
ملک کی خوشحالی میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں۔جے آئی ٹی رپورٹ کے متعلق
تمام تر اختیارات سپریم کورٹ کے پاس ہیں اور تمام پارٹیوں کو صبر و تحمل کے
ساتھ سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے اور یاد رہے کہ بغیر ضرورت
کے جلسے جلوس ، پروپیگنڈے ، دھرنے، منفی ہتھکنڈے اورآئے دن سیاسی محاذ
آرائیاں ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ تو بن سکتی ہیں مگران سے ملکی مفاد کا
حصول کسی صورت ممکن نہیں لہذا تمام سیاسی پارٹیاں ملکی مفاد کی خاطر قانونی
اور آئینی طریقہ اختیار کرتے ہوئے اس معاملے کو جلد از جلد سمیٹیں اس کے
ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے پر تہہ دل سے قبول کریں اور سپریم کورٹ
کو بھی غیر جانب دار ی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی
کردینا چاہیے تاکہ عوام کا اعتماد عدلیہ پر بحال ہوسکے۔اﷲ تعالیٰ پاکستان
کا حامی و ناصر ہو۔آمین |