استعفیٰ

وطن عزیزمیں جب سے موجودہ حکومت برسراقتدارآئی ہے تب سے کسی نہ کسی ایشوکومسئلہء عظیم بناکرحکومت کی رخصتی کیلئے کمرکسنے کاروئیہ اپنایاگیا ہے کبھی حکمران جماعت میں پھوٹ پڑنے کاشوشہ چھوڑاجاتاہے اورکبھی وزیراعظم کوجیل بھیجنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں عمران خان الیکشن مہم کے دوران سٹیج سے گرکرزخمی ہوئے وہ جیسے ہی صحتیاب ہوکرہسپتال سے ڈسچارج ہوئے انہوں نے دھاندلی کاشورمچاناشروع کردیااس دوران انکے پارٹی اراکین نے قومی اسمبلی سے استعفے بھی دئے جس کیلئے سپیکرنے اپنی ذمے داری نبھاتے ہوئے اراکین سے تصدیق کی خاطرحاضری کاآرڈردیامگرکوئی رکن اسمبلی انکے سامنے پیش ہوکراستعفیٰ کی تصدیق کیلئے تیارنہیں تھاازاں بعدچھ مہینے کی غیرحاضری کے بعدیہ اراکین اسمبلی میں واپس آئے ناصرف واپس آئے بلکہ انہوں نے چھ مہینے کے واجبات بھی وصول کرنے میں کوئی عارنہیں سمجھا126دن دھرنے کے بعدجب بات عدالتی کمیشن پر چھوڑدی گئی توکمیشن نے الیکشنزمیں منظم دھاندلی کی تردیدکردی جس سے ثابت ہواکہ دھرنے والوں کے الزامات غلط تھے اورچارمہینے تک قوم کاوقت ضائع کیاگیاان دھرنوں نے قومی خزانے اور معیشت کو بھی نقصان سے دوچارکیااخلاقی جوازکے تحت دھرنے دینے والوں کو اگرسزانہ بھی دی جاتی تو کم ازکم انہیں قوم سے معافی مانگنی چاہئے تھی اسکے بعدہردوسری بات پرتحریک انصاف کے راہنمااورکارکن وزیراعظم سے مستعفی ہونے کے مطالبے دہراتے رہے اس دوران پانامہ کاہنگامہ شروع ہوااب تک کی اطلاعات کے مطابق پانامہ لیکس کوئی مستند دستاویزنہیں یہ وکی لیکس کی طرح ’’لیکس‘‘ ہی ہے اور لیکس ناہی تو ثبوت ہوتے ہیں اورناہی لیکس کی بنیادپرکسی کوسزادی جاسکتی ہے اگرایساہوتاتو وکی لیکس میں پاکستان کے بہت سے سیاستدانوں سمیت ،ججوں ،فوجی افسران،مذہبی راہنماؤں اوراعلیٰ سرکاری عہدیداروں کے اسمائے گرامی آئے تھے جن میں سے ناہی تو کسی کوسزادی گئی اورناہی کسی کاٹرائیل ہوامگرپانامہ لیکس والے معاملے کو تحریک انصاف نے ایسا اٹھایاکہ معاملے پرسپریم کورٹ کونوٹس لیناپڑاکئی مہینے کی سماعت کے بعدسپریم کورٹ نے ایک نامکمل فیصلہ سنایاجسے دنیائے عدل کاانوکھافیصلہ قراردیاجاسکتاہے دومہینے تک ملک کو ہیجان میں مبتلا کیاگیاکہ فیصلہ آنیوالاہے مگرجب فیصلہ آیاتو اسمیں دوججوں نے اگرچہ وزیراعظم کونااہل قراردیاجبکہ تین ججوں کاکہناتھاکہ مزیدتحقیق کیلئے ایک جوائینٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنائی جائیگی اس جے آئی ٹی نے جورپورٹ پیش کی اس کے مطابق وزیراعظم نوازشریف اپنے کاروبارکی منی ٹریل دینے میں ناکام ہوئے ہیں اور انکے بچوں سمیت خاندان کے دیگرافرادبھی آمدن سے زیادہ اثاثے رکھتے ہیں رپورٹ پیش ہونے کے بعدعدالت نے ایک ہفتے کی تاریخ دیکر جے آئی ٹی رپورٹ فریقین کوفراہم کرنے کاحکم جاری کردیااگربنظرغائرجائزہ لیاجائے تو یہ معاملہ شروع سے ہی غلط طریقے سے ہینڈل کیاجارہاہے سیاسی جماعتوں نے سیاست چمکانے کی خاطراس معاملے کو جذباتی شکل دے دی حالانکہ سیاسی اور جمہوری قوتیں اپنی داڑھی دوسروں کے ہاتھ میں دینے کی روادارنہیں ہوتیں ملک میں پارلیمنٹ موجودہے ،ایوان زیریں اور ایوان بالاکے اراکین باقاعدہ الیکشن کے ذریعے منتخب ہوکرکرسیوں پربراجمان ہیں یہ مسئلہ دونوں ایوانوں میں پیش ہوناچاہئے تھااورمنتخب ایوانوں میں ہی مسئلے کاحل تلاش کیاجاتااگر یہ اسمبلیاں مسائل کاحل تلاش نہیں کرسکتیں تو انکی موجودگی کامقصدہی فوت ہوجاتاہے یہی سیاستدان ہوتے ہیں جو اپنی کم فہمی کی بناپراپنی گردن کبھی مارشل لاء میں پھنسادیتے ہیں اور کبھی عدلیہ کے ہاتھوں میں دیدیتے ہیں آپ اس ملک میں مارشل لاؤں کی تاریخ اٹھاکردیکھ لیجئے ہرمارشل لاء کے آنے پرسیاستدانوں سمیت عوام بھی مٹھائیاں بانٹتے رہے ہیں مگردوچارسال بعدیہی عوام اور یہی سیاستدان اسکے خلاف میدان میں نکل پڑتے ہیں اورجمہوری نظام کیلئے جدوجہدشروع ہوجاتی ہے ہم پاکستانی قوم ایک کنفیوزقوم ہیں ہمارے سامنے جس نے ڈگڈگی بجائی ہم اسکے پیچھے چل پڑتے ہیں گزرے زمانوں میں سیاستدانوں کی وجہ سے ہی یہ ملک مارشل لاؤں کاشکاربنتارہااب انہی سیاستدانوں کی وجہ سے ہم جوڈیشل ایکٹیوازم کاشکارہورہے ہیں جبکہ فوج کوبھی آوازیں دی جارہی ہیں ہمارے سیاستدانوں میں ملک سنبھالنے کی فہم ہی موجودنہیں اسی لئے تو قوم کو کبھی فوج کے پیچھے لگادیاجاتاہے اور کبھی ججوں کے پیچھے،ہوناتو یہ چاہئے تھاکہ پانامہ کے مسئلے کابھی پارلیمنٹ میں ہی کوئی حل تلاش کیاجاتامگرپہلے تو پورے ملک کو ہیجان میں مبتلاکیاگیااسکے بعدروزانہ عدالتی سماعت کی خودساختہ تشریحات سامنے آتی رہیں عمران خان اور پارٹی کے دیگراراکین میڈیاکے ذریعے یہ خوشخبریاں دیتے رہے کہ بس وزیراعظم اب گیاکہ تب گیاافسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں اپوزیشن کاکام حکومت گراناسمجھ لیاگیاہے جمہوری روئیے چونکہ ابھی مضبوط نہیں ہوئے( اور اسکی وجہ بھی سیاستدان ہی ہیں)لہٰذااپوزیشن اپنامثبت کام چھوڑکرحکومت گرانے کیلئے سازشوں میں جت گئی ہے اس سے پہلے بھی جتنی جمہوری حکومتیں ناکام ہوئیں یاانہیں وقت سے قبل رخصت کیاگیااسمیں اپوزیشن کی رضامندی شامل رہی ہے اب بھی اپوزیشن حکومت کی رخصتی کیلئے کسی بھی حدتک جانے کیلئے ادھارکھائے بیٹھی ہے اسی روئیے کے تحت گزشتہ چارسال سے ایشوزڈھونڈھ کرلائے جاتے رہے تاکہ حکومت کوگرایاجاسکے پانامہ کا معاملہ پارلیمنٹ کی بجائے عدلیہ کے حوالے کیاگیااسکے بعدآئے روزفیصلے سنائے جاتے رہے اس دوران ملک اوراسکی معیشیت کوناقابل تلافی نقصان پہنچایاگیاہے مگر ابھی فیصلہ دوردورتک دکھائی نہیں دے رہاجے آئی ٹی کی رپورٹ عدالت میں پیش کی جاچکی ہے اس پرفریقین کے دلائل سننے کے بعدہی کوئی فیصلہ سامنے آئیگااگرعدالت وزیراعظم کوجرم کامرتکب قراردے گی تو انکے پاس مستعفی ہوکرگھرجانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگاضرورت اس امرکی ہے کہ سیاستدان غیرجمہوری روئیوں کوخیربادکہہ کرتمام مسائل پارلیمنٹ میں حل کریں عدلیہ کوعوام تک انصاف کی فراہمی کیلئے آزادی دی جائے اسے ڈکٹیٹ کرنے سے احترازکیاجائے آئے روزاستعفے کے مطالبے اور خوساختہ فیصلوں سے عوام اب اکتاچکی ہے معاملہ جب عدالت پرچھوڑدیاگیاہے تو عدالت کواپناکام بھی کرنے دیاجائے عدالت عظمیٰ آئین وقانون کوسیاستدانوں سے بہتر سمجھتی ہے وہ یقیناً اسی کے مطابق فیصلہ دے گی ساری دنیا یہی کہہ رہی ہے کہ عدالتی فیصلے کاانتظارکیاجائے عدالتی فیصلہ اگرخلاف آئیگاتو نوازشریف کے پاس عہدے سے چمٹے رہنے کاکوئی جوازنہیں بچے گا فی الحال استعفے کی رٹ چھوڑکرملک کوچلنے دیاجائے دنیامیں اوربھی غم ہیں سیاست کے سوابلکہ استعفیٰ کے سوا۔
 

Wisal Khan
About the Author: Wisal Khan Read More Articles by Wisal Khan: 80 Articles with 51735 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.