پولینڈ میں عدلیہ کو پارلیمنٹ کے تابع بنانے کا قانون بن
رہا ہے۔ بل پارلیمنٹ میں پیش کر دیا گیا ہے۔ قانون ساز ججوں کی تعیناتی میں
کردار چاہتے ہیں۔ یہ بل حکمران جماعت نے پیش کیا اور منظوری دی ۔سینٹ میں
بھی اس کی توثیق ہو گی۔ کیوں کہ حکمران جماعت کی اکثریت ہے۔ تیسر ے مرحلہ
میں صدر دستخط کریں گے۔ مگر اسے عدالتی نظام میں سیاسی مداخلت سمجھا جاتا
ہے۔شکر ہے پاکستان میں ایسا نہیں۔عدلیہ میں سیاسی مداخلت نہیں۔ اگر کوئی جج
کسی پارٹی یا شخصیت کا حامی ہے تو یہ اس کا زاتی معاملہ ہو گا۔اگر وہ انصاف
کے بجائے زات کو ترجیح دیتا ہے تو اﷲ تعالیٰ ہر ایک کے ساتھ انصاف کرن والے
ہیں۔مگر اﷲ پاک کا انصاف ہی حتمی انصاف ہے۔ آج پیر سے سپریم کورٹ کا تین
رکنی بینچ پاناما پیپرز لیکس کیس میں جے آئی ٹی کی جانب سے پیش کی گئی
تحقیقاتی رپورٹ سے متعلق کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل خان میں
یہ بینچ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے تشکیل دیا ہے، جس میں جسٹس شیخ عظمت
سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن شامل ہیں۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر اپوزیشن
جماعتیں کافی سرگرمی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ حکمران جماعت جے آئی ٹی کی
رپورٹ کو ایک بڑے پینل کے ساتھ چیلنج کر رہی ہے۔ سرکردہ ماہرین قانون کی
خدمات حاصل کی گئیں ہیں۔ ملک میں سیاسی خلفشار ہے۔ کوئی نہیں جانتا کل کیا
ہو گا۔ جب کہ حالات اس قدر بھی کشیدہ نہیں جیسے پیش کرنے کی کوشش کی جاتی
ہے۔ سپریم کورٹ نے شواہد کی روشنی میں فیصلہ کرنا ہے۔ یہ ملک کی سب سے بڑی
عدالت ہے۔ سب کی نظریں سپریم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں۔ تا ہم جس طرح سپریم
کورٹ ن گارڈ فادر اور دیگر جیسے ریمارکس دیئے ، اس سے بہت لوگ متفکر نظر
آتے ہیں۔ عدالت کسی فریق کے حق میں یا اس کے خلاف تب تک کوئی ریمارکس نہیں
د ے سکتی جب تک وہ کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ جاتی۔ کیوں کہ عدالت کیس
میں غیر جانبدار ہوتی ہے۔ وہ فریق نہیں بنتی۔ حقائق اور شواہد کی روشنی میں
ہی فیصلے ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ اگر کسی کو پھانسی کی سزا بھی دیتی ہے تو
صدر مملکت اس فیصلے پر رحم کی اپیل کی روشنی میں نظر ثانی کر سکتے ہیں۔
مسلم لیگ ن کے ساتھ یہ معاملہ نہیں۔
پاناما پیپرز کی روشنی میں سیاسی سکورننگ کے لئے عدالت کا سہارا لیا گیا ہے۔
سیاست کے لئے پی ٹی آئی نے عدلیہ کا سہارا لیا ہے۔ اس طرح س یہ معاملہ
سیاسی بن گیا ہے۔ اگر شریف خاندان نے منی لانڈرنگ کی ہے۔ یا ملک سے دولت
غیر قانونی طور پر باہر لی ۔ ٹیکس نہ دیا۔ اثاثوں میں غلط بیانی س کام لیا۔
ملکی دولت لوٹ کر غیر ممالک میں کمپنیاں قائم کیں اور کاروبار کیا، اثاثے
خریدے۔ اگر کام غیر قانونی ہے تو اس پر سیاست ک بجائے انصاف اور قانون کے
تقاضے پورے کرنے سے ہی مسلہ حل ہو سکتا ہے۔ کرپشن کرنے والوں، جھوٹ اور
فریب دینے والوں ک خلاف شکنجہ کسنا درست ہے۔ مگر اس میں کسی ایک خاندان کو
نشانہ بنانا اور دیگر کو چھوڑ دینا بھی امتیازی سلوک یا جانبدارانہ طرز عمل
ہو گا۔ احتساب سب کا ہو، بے لاگ ہو۔ کسی سے رعایت نہ برتی جائے۔ مسلم لیگ
ن، پی پی پی، پی ٹی آئی، ق لیگ، ایم کیو ایم، اے این پی، جماعت اسلامی غرض
جس پارٹی کے سیاستدان نے بھی کرپشن کی ہے، اس کو معاف ہر گز نہ کیا جائے۔
ملک لوٹنے والے کسی رحم کے مستحق نہیں۔ میرٹ پامال کرنے والے قابل گرفت ہیں۔
جو حکمران قومی خزانے سے اپنے علاج اور سیر سپاٹوں کے لئے بھاری رقم نکالتے
ہیں، وہ سخت سے سخت سزا کے مستحق ہیں۔ جو سرکاری دولت، سہولیات، مراعات کو
اپنی زات کے لئے بروئے کار لاتے ہیں، ان کا کیا ہو گا۔ جو اپنے عہدے،
اختیار، کرسی کا غلط استعمال کرتے ہیں، ان کی پکڑ کون کر گا۔ جو ٹی ا ے، ڈی
اے، کاغذات میں قلم زنی کرتے ہیں، ان کا احتساب کیسے ہو گا۔ مگر ایسے بھی
نہیں کہ فلاں کو میرٹ کی پامالی یا کرپشن کرنے پر چھوٹ مل گئی یا کوئی بچ
گیا تو اس کا جواز پیدا کر کے کوئی کرپشن والا، بدعنوان بھی بچ جائے گا، یہ
قومی جرم ہے۔ جس جج، جرنیل، بیوروکریٹ نے اپنے عہدے کا غلط استعمال کیا ،
اس کو سزا ملنی چاہیئے۔ دیکھنا یہ ہو گا کہ جسٹس اعجاز افضل خان، شیخ عظمت
سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن اس کیس کو کس طرح آگے بڑھاتے ہیں۔ عدالت پر سب
کو اعتماد ہے۔ کوئی عدالت کی توہین نہیں کر سکتا۔ عدالتی کارروائی میں کوئی
بھی اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ عدل و انصاف میں مداخلت کا بھی کوئی مقصد ہوتا
ہے۔ جو لوگ مسلم لیگ ن کے ساتھ وابستہ ہیں، وہ معاملات کو اپنی پارٹی کی
آنکھ سے دیکھتے ہیں، اسی طرح پی ٹی آئی اور پی پی پی ، دیگر کا معاملہ ہے۔
یہ جانبدارانہ رویہ ہے۔ یا تو آپ سچ کے ساتھ ہیں یا جھوٹ کے۔ بیچ کا کوئی
راستہ نہیں۔ غیر جانبداری کچھ نہیں۔ یہ کبھی منافقت کے زمرے میں آتی ہے۔
امید ہے کہ یہاں انصاف ہو گا۔ سب کا احتساب ہو گا۔ عدالت از خود نوٹس لے گی۔
کرپشن کرنے والے ہر کوئی قانون کے کٹہرے میں آئے گا۔ ورنہ پولینڈ میں نئی
قانون سازی یہاں بھی نئے تحفظات لائے گی۔
|