یہ آسان نہ ہوگا

ہماری بد قسمی ہے یا ابھی عدم بلوغت کہ ہم گھوم پھر کر پھر پہلے مقام پر واپس آکھڑے ہوتے ہیں۔کبھی ہم عدلیہ کو مسیحا قرار دے دیتے ہیں۔اور کبھی اسی عدلیہ کو ناانصافی کرنے کا قصور وار کہ کرسڑکوں پر آجاتے ہیں۔کبھی ہم جمہوریت کو ایک ناقابل برداشت نظام حکومت سمجھ لیتے ہیں۔مگر کچھ ہی برسوں بعد جمہوریت ہمارے لیے سب سے بہتر نظام حکومت طے پاتاہے۔آمریت سے متعلق بھی ہمارے تجربات کچھ ایسے ہی ہیں۔کبھی کسی فوجی حکمران کو ہم نجات دہندہ قراردیتے ہیں۔پھر اگلے ہی کچھ برسوں بعداس سے نجات پانا ہمار ی سب سے بڑی ترجیح بنی ہوتی ہے۔ہم اب تک کوئی واضح نظریہ قائم کرنے پر متفق نہیں ہوپائے۔نہ ہم جمہورت سے مطمئن ہیں۔نہ آمریت ہمارے دلوں میں گھر کر پائی ۔عدلیہ بھی ایک وقت مثبت امیج لیے ہوتی ہے۔ا ورایک وقت منفی۔کچھ پتا نہیں چلتاکہ کون صحیح ہے ۔او رکون غلط اسی کشکمش میں وقت گزرتا چلاجارہاہے۔اسی ادھیڑ بن کے سبب ہر قسم کی جمہوریت بھی اپنی جگہ بنائے ہوئے ہے۔ہر قسم کی عدلیہ کے فیصلے بھی سننے پڑ رہے ہیں۔اور ہر قسم کی آمریت بھی برداشت کرنا پڑ رہی ہے۔سابق چیف جسٹس افتحار محمد چوہدری کا وزیر اعظم کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ بھی کچھ اسی طرح کی بے سمتی کی نشاندہی کررہاہے۔

ان کا کہنا ہے کہ عدلیہ کو حکومت کی جانب سے عدلیہ مخالف پراپیگنڈے کا سختی سے نوٹس لینا چاہیے۔وزیر اعظم کی اس ضمن میں کی جانے والی تقریروں کا ریکار ڈ طلب کیا جائے۔خیا ل رہے اپوزیشن کی جانب سے حکومت پر مسلسل یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ وہ جے آئی ٹی کو متنازعہ بنانے کی کوشش کررہی ہے۔اس ضمن میں جے آئی ٹی اراکین کی معلومات اکٹھی کرنے کے آئی بی کے اقدام کے ساتھ ساتھ جے آئی ٹی کے ایک رکن کا سوشل میڈیا کااکاؤنٹ ہیک کرنے کا ذکر کیا جاتاہے ۔ اپوزیشن الزام لگاتی ہے کہ حکومت نے میڈیا کے لوگوں کو خرید رکھا ہے۔جو عدلیہ اور جے آئی ٹی کے خلاف پراپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں۔حکومت ایسے الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے جے آئی سے عدم اطمینان کا اظہار کررہی ہے ۔اس کا جوابی الزام یہ ہے کہ جے آئی ٹی خو د مختار نہیں بلکہ یہ کچھ لوگوں کی طرف سے مسلسل ہدایات کے مطابق کام کررہی ہے۔لیگی حلقوں کا گلہ ہے کہ جے آئی ٹی میں پیشیوں کے دوران رہنماؤں سے غیر متعلقہ او رنامناسب سوالات پوچھے گئے۔جن کا مقصد صرف او رصرف طیش دلانے کے علاوہ کچھ نہ تھا۔حکومتی لوگوں کی یہ بھی شکایت رہی کہ جے آئی ٹی نے کبھی بھی کوئی میڈیا کانفرنس نہیں کی ۔مگر اس کے اندر کی کئی خبریں تحریک انصا ف کے سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آتی رہیں۔سابق چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری نے عدلیہ پر دباؤڈالنے سے متعلق حکومتی رہنماؤں کی پریس کانفرنس کو بھی نامناسب اقدام قرار دیے دیا۔ان کا کہنا تھاکہ عدالت اس سلسلے میں سختی سے نوٹس لے کر حکومت کو یہ سلسلہ بند کرنے کا حکم جاری کرے۔انہوں نے وزیر اعطم کی عوامی اجتماعات میں کی جانے والی تقریروں کو بھی عدلیہ کے خلاف پراپیگنڈا قرار دیا۔یہ مطالبہ کیا کہ ایسی تمام تقاریر عدالت طلب کرکے ان کی بنیاد پر وزیر اعظم کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ درج کیا جائے۔

افتخار محمد چوہدری کا وزیر اعظم کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ حیران کن ہے۔ایسا مطالبہ کسی عام آدمی کی طرف سے آتاتو شاید کسی کو تعجب نہ ہوتا۔میڈیا میں جس طرح سے جے آئی ٹی کے خلاف اور حمایت میں لکھا اور بولا جارہا ہے۔وہ نامناسب ہے۔اسے انصاف کی راہ میں رکاوٹ کے زمرے میں لیا جاسکتاہے۔عدالت کو کسی بھی بیرونی دباؤیا کمپئین سے کسی کیس کے حق میں یا مخالفت میں فیصلہ دینے پر اکسانا بالکل ناقابل معافی جرم ہے ۔جے آئی ٹی کی مخالفت میں لکھنے اور بولنے والے بھی جرم وار ہیں۔اور جے آئی ٹی کی بے جا تعریفیں کرنے والے بھی قصور وار ۔بات تو صرف یہ ہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے صرف جے آئی ٹی کے مخالفین کو ہی کیوں سزا کا مستحق تصور کرلیا ۔دوسری طرف والوں کو کیوں نظر انداز کرگئے۔کیا چویدری صاحب نے حکومت مخالف اتحا دکا ہمنوا بننے کا فیصلہ کرلیا ہے۔اگر ایسا ہے تو ان کا یہ فیصلہ ان کے مزاج کے خلاف ہے۔ان کا تجربہ اس اتحا دسے متعلق کچھ اچھا نہیں رہا۔اپنی برخواستگی نما غیرفعالیت کے دنوں میں انہوں نے اس اتحا د کو بڑے قریب سے دیکھ رکھا ہے۔تب انہیں بعض ایسے حقائق کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا جو شاید اس سے قبل صرف کتابوں اور کہانیوں میں ہی دیکھے سنے ہونگے۔چیف جسٹس کی تب غیر فعالیت بھی کسی بڑی پلاننگ کا حصہ تھی۔اس کا مقصد ایک شخص یا کوئی ایک فیصلہ نہ تھا۔اس کے پیچھے اصل دکھ وہ بغاوت اور انکار تھا۔جو چوہدری صاحب کا ناقابل معافی جرم بن گیا۔ آج وزیر اعظم سے بیزاری بھی اسی قسم کی پلاننگ کا حصہ ہے۔مگر افتخار محمد چوہدری یا تو سمجھ نہیں پارہے۔یا پھرسمجھنا ہی نہیں چاہ رہے۔چوہدری صاحب نے ووران چیف جسٹس نام پایاہے۔اگر وہ رتمام عمر کچھ بھی نہ کریں تو ان کے لیے نہ آمدن کی فکر ہے۔نہ کسی شہرت کی حاجت مگر ان کے حالیہ کچھ بیانات اس بات کا اشارہ ددے رہے ہیں۔کہ ان کا عظیم اور قابل عزت نام متنازعہ ہوتاچلا جارہاہے۔بدقسمتی سے اس کی ذمہ داری بھی خودچوہدری صاحب پر عایدہوگی۔انہیں مشورہ ہے کہ وہ اپنی سیاست پر نظر ثانی کریں۔ان کی اب تک کی سیاسی حکمت عملی کچھ کمال نہیں دکھا پائی۔اگر انہوں نے اسی سطح کی سیاست کرنی ہے۔تو یہ سیاست انہیں عزت سادات سے بھی محروم کردے گی۔ اپنے نام کا احترام گنوانے سے گریز کریں ۔ اگر بچی کھچی ساکھ کو قائم رکھنا ہے تو انہیں اپنی سیاست سمیٹنا ہوگی۔سیاست میں آسمانوں کو چھو لینے کی تمنا تو سبھی کرتے ہیں۔مگر یہ آسان نہ ہوگا۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ایک لیجنڈتھے۔کہیں سیاستدان افتخار محمدچوہدری اس لیجنڈکو کھا نہ جائے۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 123859 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.