سو جوتے سو پیاز - (پاکستانی گاڈفادر) حکمران بے قصور ہیں

تقریباًً ایک سال سے زیادہ چلا ’’پانامہ ڈرامہ‘‘ جو کئی اقساط پر ہے اپنے انجام کی طرف رواں دواں ہے ،نتیجہ چاہے جو بھی ہو، لیکن اس کھیل تماشے نے کئی لوگوں کے چہرے عیاں کر دیئے ہیں اور پاکستانی گاڈفادر اس کا ٹولہ اور ان سب کی فنکاریاں ۱۰ جلدوں اور کئی سوصفحات پر لکھواکر اصلی گاڈفادر کو بھی پیچھے چھوڑ گیا،اس بات پر انھیں دنیا کے اعلی تریں تمغوں سے نوازاجانا چاہیے اور ان کا نام گینزبک میں شامل کیا جانا چاہیئے ۔یہ معاملہ پاکستان تحریک انصاف یا دوسری سیاسی جماعتوں اور مسلم لیگ ن کا نہیں یہ معاملہ ۲۰ کروڑ پاکستانی ہجوم اور ان پر مسلط كرپٹ حکمرانوں کا ہے ،یہ معاملہ ہار جیت کا بھی نہیں یہ معاملہ سوال کرتا ہے کہ ملک وہجوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس آئے گی یا نہیں یا بس سرے محل اورکئی سوارب کی طرح کھٹائی میں ہی پڑی رہے گی۔گاڈفادر کی ہجوم وملک اور اسمبلی کے فلور پر کی گئی تقاریر جھوٹ کا پلندہ اور گمراہی کی غمازی کرتی ہیں،اس کو اور ہمنواؤں کو بس یہی محسوس ہو رہا تھا کہ دوچار چکنی چپڑی باتوں ،شوروغوغا سے معاملہ کھٹائی میں پڑ جائے گا جس کا اظہارایک وزیر باتدبیر نے فلور آف دی ہاو س کیا بھی تھا کہ ’’میاں صاحب فکر نہ کریں لوگ بھول جائیں گے‘‘،لیکن گاڈفادر مافیا کو نہیں معلوم تھا کہ اس معاملے کو لے کر چلنے والے مرد حق ہیں اس کا پالا زرداری یا فرینڈلی اپوزیشن سے نہیں ہے ،سوال یہ بھی اٹھتا ہے ،کیا ان کے دوستوں نے یہ مشورہ نہیں دیا ہوگا ،کہ صاحب اپنی اور فیملی کی عزت بچائیں،ساتھ ساتھ ن لیگ کا مستقبل بھی ،اور باعزت طریقے سے سب کردہ جرائم قبول کرتے ہوئے قوم سے معافی مانگیں اور وزارت سے علیحدہ ہوجائیں ،لیکن نہ صاحب سوجوتے ( چھتر) سوپیاز والا معاملہ تو کروانا چاہتے تھے،اور تو اور یہ ہجوم بھی اسی دوڑ میں شامل ہے، ریاست پاکستان میں رہنے والا ۲۰ کروڑ لوگوں کا بے ہنگم ہجوم اپنی مثال آپ ہے،میں اس ہجوم کو بھی دادتحسین اور سلام پیش کرتا ہوں،جو ہر محاذ پر ثابت قدم ہے ،بلکہ ذرا بھی چوں چراں نہیں کرتا،کوئی آواز نہیں نکالتا،اگر میرے اختیار میں ہو تو میں اس سارے ہجوم کے ہر فرد کو تمغہ جرأت اور تمغہ امتیاز دوں اور ۲۱ توپوں کی سلامی بھی ، گینز بک آف ورلڈ میں نام اس لیئے نہیں دیا جاسکتا کہ شاید کئی اور قومیں دعویدار نہ ہوں ،اتنی باہمت اور مضبوط اعصاب کے لوگ میں نے نہیں دیکھے،جو کئی کئی گھنٹے لائن میں کھڑے رہ سکتے ہیں،۶ سے ۸ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ برداشت کرسکتے ہیں اور مجال ہے چوں بھی کرجائیں،اپنے حاکموں کو سونے کے تاج پہناتے ہیں جو ان کو لوٹ لوٹ کر تھک گئے ہیں مگر یہ لٹواتے نہیں تھکے ،اب دیکھیں یہ ہجوم پھر’’ بھٹو زندہ ہے‘‘،’’ اک واری فیر شیر‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں یا سمجھ بوجھ سے کام لیتے ہوئے کسی اورپارٹی کو حکمرانی کا حق دیتے ہیں یا آزمائے ہوئے لٹیروں کے ہاتھوں سو جوتے سو پیازکھاتے ہیں،جس کی امید قوی ہے ،جو کراچی میں ضمنی الیکشن ۱۱۴ میں واضح طور دیکھی گئی،اب دیکھنا یہ ہے کہ پی پی پی راہنماؤں کے سرے محل،بلاول ہاوسز ، ن لیگی راہنماؤں کے مئے فیر فلیٹس،رائیونڈ محل اور ڈار پلازے علاوہ اربوں روپے کی خردبرد،ہیراپھیری اور ڈاکہ زنی اس ہجوم کے ارادوں کو بدلتی ہے یا نہیں یا وہ یہی سمجھتے رہیں گے کہ اگر یہ کھاتے ہیں تو تھوڑا لگاتے بھی ہیں،لیکن ان کو یہ نہیں پتہ کہ جو تھوڑا لگاتے ہیں وہ آٹے میں نمک برابر ہے اور ان پر قرضوں کے انبار ،جو یہ بھولا ہجوم نسلوں اتارتے نہیں تھکے گا ، میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ لوگ اتنی خواری اور ذلت کے بعد بھی اقتدار سے کیوں چمٹے رہنا چاہتے ہیں ، میں نے دیکھا لوگوں نے مسجد نبوی میں بھی ان پر نازیبا جملے کسے مگر نہ صاحب ان کے ماتھے پرذرا بھی پسینہ آیا ہو یا شرم سے سر جھکا ہو،حالانکہ گھر کا پالتو جانور بھی تھوڑی سی ڈانٹ ،لعن طعن کے بعد شرمندگی محسوس کرتا ہے ، یہ نا اہلوں کا شاطر سیاسی ٹولہ تعداد میں کم ہے مگر ۲۰کروڑہجوم پر بھاری ہے اور سب ایک ہیں، سب کی رشتہ داریاں ہیں اور یہ خاندان بھی بہت تھوڑے ہیں،آج آپ اس منظر کو بخوبی دیکھ سکتے ہیں کہ باہر کا عام آدمی حکومت میں ٹاٹ کا پیوند ثابت ہوتا ہے جیسے جمشید دستی،اب پارٹیاں بھی گھریلو بندر بانٹ ہوگئی ہیں اور کئی باریش،کینہ مشق ،تجربہ کار انکے بچوں کے آگے ہاتھ باندھے اور ہاتھ چومتے ان کی قیادت کودرست تسلیم کرتے نظرآتے ہیں، والٹئیرنے کہا تھا ’’ ان بے وقوفوں کو آزاد کرانامشکل ہے جو اپنی زنجیروں کی عزت کرتے ہیں‘‘،مجھے بہت دکھ ہوا جب میں نے مہر عباسی کے ٹی وی سروے کے دوران نواز شریف (شریف کہتے ہوئے دل میں ہوک اٹھتی ہے)کے حلقہ میں لوگوں کی جاہلانہ آراء سنی،تووالٹیئر کی بات حقیقت لگی، ان کے مطابق سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی (ایسے دلیر افراد جن کی فیملیز کے ساتھ گاڈفادر مافیا نے کیا کیا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں) کی ساری کارروائی ڈھونگ ہے ن لیگ کا قطری خط ہی حق سچ ہے، حالانکہ جے آئی ٹی نے تو سپریم کورٹ کے حکم مطابق تحقیقات کرنا تھی جو انہوں نے پوری ایمانداری سے کی اور ایسے ایسے رازوں سے پردہ اٹھایا جس کا علم اس سے پہلے نہ تھا،اب اگرشریف فیملی مزاحمت کا راستہ اختیار کرتی ہے اور دوسرے ممالک سے مدد کی درخواست کرتی ہے جس پر انھیں سبکی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، تو پھر جیڑا کھاؤو گاجراں ٹیڈ اوہناں دے پیڑ(جس نے گاجریں کھائی ہیں،مروڑ بھی اسی کے پیٹ میں اٹھنے ہیں) ، لیکن مجھے ڈر ہے میاں صاحب یہ پیڑ (درد) عوام کو نہ دے دیں،کیونکہ آج اس کی اگلی قسط ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ساس بھی کبھی بہو تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میاں صاحب کاحافظہ اگر ساتھ دیتا تو باعزت راستہ اختیار کرتے ،جو مشورہ انہوں نے یوسف رضاگیلانی کو دیا تھا اس پر عمل پیرا ہوتے ،اورہجوم سے خطاب کے دوران ارشاد فرمایا تھا کی قصوروارٹھہرا تو’’ ایک لمحہ کی تاخیر کیے بغیر گھر چلا جاؤں گا‘ ‘ ،(یہ سوالیہ نشان ہے کون سے گھر ) گھر چلے جاتے تو عزت رہ جاتی اب تو سو جوتے سوپیاز والا معاملہ لگتا ہے اورمیاں صاحب کے درباری ایسا کروا کر رہیں گے ۔
’’بڑے بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے ‘‘

 

Zahid Ikram Rana
About the Author: Zahid Ikram Rana Read More Articles by Zahid Ikram Rana: 9 Articles with 6594 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.