عدالتِ عظمیٰ میں جے آئی ٹی رپورٹ پر سماعت کا آغاز
ہو چکا ہے، اعصاب شکن جنگ جاری ہے، جے آئی ٹی کی رپورٹ سے پوری قوم اس وقت
دو واضح گروہوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ ٹی وی چینلز اور اخبارات مسلسل اس
رپورٹ کے ذریعے فاش کئے گئے راز قوم کے سامنے کھول کھول کے رکھ رہے ہیں، ہر
کوئی انگشت بدنداں ہے کہ کیسی کیسی باتیں دیکھنے اور سننے کو مل رہی ہیں۔
مگر مسلم لیگ ن والے بالکل حیران نہیں ہیں، ہاں البتہ وہ پریشان کافی ہیں،
کیونکہ بظاہر رپورٹ میں ان کے لئے حالات ساز گار نہیں، رپورٹ پیش ہونے کے
بعد سے حکومتی پارٹی نے جارحانہ رویہ اپنا لیا ہے، پارلیمانی پارٹی کا
اجلاس بھی ہوگیا، کابینہ نے بھی اپنے قائد پر اعتماد کا اظہار کر دیا،
مستعفی ہونے کے مطالبہ کو بھی یکسر رد کر دیا گیا، قانونی جنگ لڑنے کا
اعلان بھی ہوا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پارٹی کارکن بھی اپنی قیادت کی
تقلید میں میدان میں کود گئے، اور جے آئی ٹی کے خلاف جو باتیں ممکن ہو سکیں
وہ کیں اور کر رہے ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جے آئی ٹی اگر اس قدر
متنازع تھی، اور ناقابلِ اعتبار تھی تو اس کے سامنے پیش ہونے سے پہلے ہی اس
قسم کے تحفظات کا اظہار کرنا چاہیے تھا، پہلے تو معمولی احتجاج کیا اور
وزیر اعظم تک اس کے سامنے پیش ہوگئے، پھر احتجاج کی ایک لہر سی اس وقت اٹھی
جب مریم نواز کو جے آئی ٹی کے روبرو طلب کیا گیا۔ اس طلبی یا پیشی کو قوم
کی بیٹی کی توہین قرار دیا گیا، بہت جذبات کا اظہار کیا گیا، مگر پیشی سے
انکار پھر بھی نہیں کیا گیا۔جب جے آئی ٹی نے رپورٹ پیش کردی اور اسے سپریم
کورٹ نے عوام کے سامنے پیش کرنے کی ہدایت جاری کردی، تب سے پیشیاں بھگتنے
والے بھی کمر کس کر میدان میں ہیں، جے آئی ٹی کی رپورٹ کو مکمل طور پر
مسترد کر چکے ہیں۔
مسلم لیگ ن نے جے آئی ٹی پر الزامات کی بوچھاڑ کر رکھی ہے، تاہم ایک بیان
جو حکومتی پارٹی کی طرف سے بہت زور و شور سے جاری کیا گیا وہ یہ ہے کہ
’حکومت کے خلا ف سازش ہو رہی ہے‘ اپوزیشن کی تمام پارٹیاں اس بارے میں ایک
ہی سوال دہرا رہی ہیں، کہ وہ سازش کون کر رہا ہے؟ بتایا جائے، تاکہ سازش کا
توڑ کیا جاسکے، اور جمہوریت کو محفوظ کیا جاسکے، جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی
سے اترنے سے بچایا جاسکے۔ اپنے ہاں ایک روایت بہت عام ہے کہ جب کسی حکومت
پر کوئی مشکل وقت آتا ہے تو قوم کو یہی بتایا جاتا ہے کہ جمہوریت خطرے میں
ہے۔ یہاں کبھی جمہوریت کو خطرہ درپیش ہوتا ہے تو گاہے اسلام بھی خطروں میں
گھر جاتا ہے۔ موجودہ حکومت کے مطابق اب بھی جمہوریت کی کشتی ڈول رہی ہے، اس
ساری گڑ بڑ کی فوری وجہ تو جے آئی ٹی ہے مگر اس کے پیچھے سازشی ہاتھ ہیں۔
تاہم پوری کوشش کے باوجود سازشی لوگوں کے بارے میں کوئی واضح اطلاع نہیں دی
گئی، جے آئی ٹی کے بعد اگر کسی کو کوسنے دئیے جارہے ہیں تو وہ تحریک انصاف
ہے۔ سیاسی مخالفین تو مخالفت کیا ہی کرتے ہیں، موجودہ ہنگامہ تو کسی
سیاستدان کا برپا کیا ہوا نہیں ہے، یہ تو ایک آفتِ ناگہانی ہے، جو کسی
مخالف کے تعاو ن سے نازل نہیں ہوئی۔
جے آئی ٹی پر کئے جانے والے شکوک وشبہات اور سازشوں کے الزامات کے بعد پاک
فوج نے بھی وضاحت جاری کردی ہے کہ ’’․․․ جے آئی ٹی میں مداخلت کی، نہ کسی
سازش کا حصہ ہیں، پاک فوج کا براہِ راست جے آئی ٹی سے تعلق نہیں، ٹیم میں
شامل پاک فوج کے دو ارکان نے سپریم کورٹ کے ماتحت محنت اور ایمانداری سے
کام کیا، مقدمے کا فیصلہ عدالت کرے گی․․․‘‘۔ جے آئی ٹی پر عدم اعتماد کا
مطلب معاملہ کو مشکوک بنانا ہے، جے آئی ٹی نے کوئی فیصلہ نہیں کیا، بلکہ
تحقیق وتفتیش کی ہے، جو دیکھا اور محسوس کیا ،ا سے رپورٹ کا حصہ بنا کر
عدالتِ عظمیٰ کے حوالے کردیا ہے، اب مزید چھان بین عدالت کا کام ہے، پوری
قوم کو ہیجان کا شکار کرنے کی بجائے عدالت کے فیصلے کا انتظار کیا جانا
چاہیے۔ اگر جے آئی ٹی نے غلط رپورٹ کی ہے تو عدالت کے سامنے اسے غلط ثابت
کیا جائے، اگر درست ہے تو بھی فیصلہ سپریم کورٹ نے کرنا ہے، فیصلے جذبات،
مقبولیت اور خواہشات کو مدِ نظر رکھ کر نہیں، قانون، اصول اور انصاف کے پیشِ
نظر کئے جاتے ہیں۔ |