بھارت نے اسرائیل کو1950ء میں تسلیم تو کرلیا تھا ۔لیکن
ان دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات 1992ء میں قائم ہوئے ۔اس سے پہلے ایک دفعہ
1962ء میں چی بھارت جنگ کے دوران وزیراعظم نے امداد کے لئے اسرائیل کے
وزیراعظم کو ایک خط لکھا تھا ،چنانچہ اس دور میں بھارت کے عرب ممالک کے
ساتھ تعلقات بہت اچھے تھے ،تو بھارت نے اسرائیل کے وزیر اعظم کو جو خط لکھا
اس میں کچھ شرائط کو شامل کیا کہ جس جہاز پر ہتھیار بھیجے جائیں اس پر
اسرائیل کا جھنڈا نہ بنا ہو اور ناہی کوئی اس پر جھنڈا لہرایا جائے ،اس
شرائط کو جب اسرائیل کے وزیراعظم نت دیکھا تو اس نے بھارت کو امداد دینے سے
صاف انکار کردیا تھا۔ 1977ء میں خفیہ طریقے سے ایک اسرائیلی بھارت پہنچا جس
کا بنیادی مقصد بھارت اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات قائم کرنا تھا ۔لیکن اس
کو خالی ہاتھ لوٹنا پڑا اور پھر اس کے بعد بھارت کے اس وقت کے وزیراعظم
مرار ڈیسائی نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بڑھانے کی کوشش کی لیکن اس
وقت کے وزیر خارجہ اٹل بہار واجپائی نے بھی وزیراعظم کے سامنے عرب ممالک
ناراضگی کا خدشہ ظاہر کیا ۔اور جو تعلقات انہوں عرب ممالک کے ساتھ تیل
اوراپنے مفادات کے لئے بنائے تھے وہ ہاتھ سے جاتے دکھائی دیتے تھے ۔2003ء
میں اسرائیلی وزیراعظم ایرئیل شمعون نے بھارت کا دورہ کیا اور یہودوہنود
تعلقات سست رفتار سے آگے بڑھنے لگے ،اور 2015میں بھارت کے صدر پرناب مکھر
جی نے پہلی بار اسرائیل کا دورہ کیا تو یہ تعلکقات عروج پر پہنچ
گئے۔اسرائیل اور بھارت کے تعلقات دیر تک قائم نہہونے کی وجہ یہ تھی کہ
بھارت فلسطین کی حمایت کرتا تھا اور دوسرا اسرائیل کو تسلیم کرنے بعد وہ
عرب ممالک سے اپنے تعلقات خراب کرنا نہیں چاہتا تھا جو تیل کی وافر مقدار
سے مالامال تھے۔اسرائیل کے قیام کے بعد بھارت کی مہاتما گاندھی نے کہا کہ
ان کی ہمدردیاں یہودیوں کے ساتھ ہیں۔بھارت اور اسرئیل کے سفارتی تعلقات کو
اب تک پچیس سال ہوگئے ہیں جس دوران انہوں نے زراعت ،ثقافت ،سیاست اور دفاع
تک ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا ہے ۔اب اسرائیل اور بھارت کے آپس میں
تعلقات تو سرکاری دورے کی ملاقات تو دنیا کے سامنے تو صرف سیاسی روایات کے
مطابق دونوں ممالک کے مفادات کے مطابق بات چیت ہوتی نظر آرہی تھی ۔لیکن
حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سرکاری دورہ پاکستان دشمنی کا مظہر بن گیا ہے ۔اسرائیلی
ریاست نے پہلے دن سے ہی پاکستان مخالف رویے کی خامی رہی ہے ۔مودی کے دورے
دوران بھی اسی رویے کا اظہار کیا اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے پاکستان
کے خلاف بھارت کی غیر مشروط مدد کا علان کیا اور اس کے علاوہ کئی معاہدوں
پر دستخط کیے ۔اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ حماس اور لشکر طیبہ میں کوئی
فرق نہیں ہے۔اسرائیل نے اپنے وطن کے حصول کے لئے سامراجی ملکوں سے بھرپور
مددلی لیکن اسرائیل نے اپنا وطن بنا کر فلسطینیوں کے بے وطن کیا اور یہی پر
بس نہیں بلکہ ان کو دنیا بھر میں ذلیل و رسوا کیا ان کی ظلم وستم کے پہاڑ
توڑے فلسطینی علاقوں میں بمباری کرکے وہاں کے لاکھوں مظلوم مسلمانوں کو
شہید کردیاہے ۔ایک طر ف لاکھوں مسلمانوں کا قاتل اور دوسری بھارت کے مکروہ
چہرے کو واضع کرنے والا مودی جس نے کشمیر کے اندر کشمیری مسلمانوں پر ظلم و
ستم کی بدترین تاریخ رقم کی ہے۔آج کے دور کے ہلاکو خان اور چنگیز خان مودی
اور نیتن یاہوہے جنہوں نے مسلم امہ کے خلاف اقدامات کے لئے یہ ملاقات کی
تھی ۔فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے بعد حماس کا وجود میں آئی اور کشمیریوں کے
ظلم و ستم کی وجہ سے لشکر طیبہ وجود میں آئی ہے ۔آج نیتن یاہو کو حماس سے
خطرہ ہے اور مودی کو لشکر طیبہ سے خطرہ ہے اور میں یہ بات یہا ں پر واضع
کرتا چلوجب تک اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم وستم اور ان کا علاقہ واپس نہیں
کرتا اور سی دوسری طرف بھارت کشمیریوں پر ظلم و ستم اور ان کو انکا حق
خودارادیت نہیں دیتا تب تک حماس اور لشکر طیبہ قائم رہے گی ۔اسرائیلی
حکمرانوں اور بھارت کی موجودہ قیاد ت کے درمیان ایک بات مشترک ہے اور وہ یہ
ہے کہ دونوں ہی آزادی کی جدوجہد کو طاقت کے بل بوتے پرکچلنے کی سرتوڑ کوشش
میں مصروف ہیں۔گویا دونوں ہی خون آشام بھیڑیے بنے ہوئے ہیں۔اسرائیل کی
دھرتی پر جب مودی نے قدم رکھے تو اس کا پرتپاک استقبال کرنا اور مسلمانوں
کے قاتل کی راہ میں سرخ قالین بچھایا گیا جو مسلمانوں کے خون سے ہولی
کھیلنے کی علامت تھا۔ایک امریکی نشریاتی ادارے نے بتایا کہ ایسا شاندار
استقبال کیا گیا کہ ایسا استقبال ٹرمپ کا ہوتا ہے ۔اس دورے میں مودی کو جس
ہوٹل میں ٹھہرایا گیا دنیا کا محفوظ ترینہوٹل تھا ۔اس دورے کی اہمیت کا
اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دورے سے تین دن پہلے اسرائیل کے
وزیراعظم نے اپنی ساری کابینہ کو کہا کہ وہ ائیر پورٹ پر ساتھ چل کر مودی
کا استقبال کریں ۔پاکستانی قیادت کو مودی کے ان مذموم عزائم سے سبق حاصل
کرناچاہیے۔اور حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے،پاکستان کو چاہیے کہ بھارت
اسرائیل تعلقات کے تناظر میں اپنی خارجہ پالیسی کو نئے سرے سے ترتیب دے اور
قومی سلامتی کی ترجیحات سے مربوط رکھے۔ |