19جولائی کو ہر سال یوم الحاق پاکستان کے طور پر
منایا جاتا ہے۔ 1947کو قیام پاکستان سے تقریباً سوا ماہ قبل آج ہی کے دن
سرینگر میں کشمیری قیادت نے کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔
سرینگر کے آبی گزر علاقہ میں جو لال چوک سے متصل ہے ،میں الحاق پاکستان کی
قرارداد مجاہد ملت سردار محمد ابراہیم خان مرحوم کے گھر پر منظور کی گئی۔
یہ ایک تاریخی قرارداد تھی ۔ جو آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے اپنے ایک
ہنگامی کنونشن میں منطور کی۔ کنونشن کی صدارت چوہدری حمید اﷲ خان نے کی۔
پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد خواجہ غلام الدین وانی اور عبد الرحیم
وانی نے پیش کی۔ اس موقع پر تقریباًپانچ درجن مسلم کانفرنس رہنما کنونشن
میں شامل تھے۔ جو ریاست بھر سے یہاں پہنچے تھے۔
قرارداد میں کہا گیا کہ چونکہ مذہبی، جٖغرافیائی، ثقافتی، اقتصادی طور پر
اور عوامی جذبات کے لحاظ سے کشمیری پاکستان سے جڑے ہوئے ہیں ۔ا س لئے کشمیر
کا پاکستان سے الحاق ضروری ہے۔ تقسیم برصغیر کے انگریز فارمولہ کے تحت بھی
دو قومی نظریہ کی بنیاد میں کشمیر کا پاکستان سے الحاق ضروری ہے کیوں کہ
ریاست کی اکثریتی آبادی مسلم ہے۔ مگر چونکہ ڈوگرہ راجہ ہری سنگھ اس وقت
ریاست کا حکمران تھا ۔ لارڈ موئنٹ بیٹن اور جواہر لال نہرو کی سازش کے تحت
ریاست کا بھارت سے فرضی الحاق کیا گیا۔ کیوں کہ یہ سب 16اگست 1947کو ریڈکلف
ایوارڈ کے اعلان کے ساتھ ہی زبردستی کا سودا ہوا۔ بھارت نے کشمیر پر اپنی
فوجیں اتارنے کا فیصلہ انگریز سے مل کر کیا۔ جب 27اکتوبر 1947کو سرینگر کے
ہوائی اڈے پر بھارت کی فوج کی پہلی یونٹ اتری ۔ اس وقت کشمیری بھارت کے
خلاف مزاحمت کر رہے تھے۔ ریڈ کلف نے باؤنڈری ایوارڈ کے تحت مسلم اکثریتی
گورداسپور ضلع کو بھارت میں شامل کر لیا۔ جب کہ تقسیم کے فارمولے کے تحت
اسے پاکستان کے ساتھ شامل ہونا تھا۔مگر سازش سے بھارت کو کشمیر کے لئے
راہداری فراہم کی گئی۔ اگر گورداسپور بھارت کو نہ دیا جاتا تو بھارت کا
کشمیر کے ساتھ زمینی رابطہ منقطع ہو جاتا۔ پاکستان نے بھارت کے فوجی قبضے
کے خلاف31دسمبر1947کو جوابی کارروائی کا فیصلہ کیا تو بھارت نے اقوام متحدہ
کی سلامتی کونسل سے سیز فائر کے لئے رجوع کر لیااور اس سے مداخلت کی اپیل
کی۔ پاکستان اور بھارت کی فوج کے درمیان یکم جنوری 1949کوسیز فائر ہو گیا۔
یہ جنگ بندی اقوام متحدہ نے کرائی۔ سلامتی کونسل نے کشمیر میں رائے شماری
کرانے کی بھارتی یقین دہانی کے بعد سیز فائر قبول کیا۔سلامتی کونسل نے
21اپریل 1948کو ایک قراردادزیر نمبر47منظور کی ۔ جس میں کشمیریوں کے ساتھ
رائے شماری کا وعد ہ کیا گیا ۔ بھارتی حکمران 1964سے ہی اپنے وعدوں سے مکر
گئے۔ انھوں نے 1965میں اپنی پارلیمنٹ میں ایک قرارداد منطور کی کہ جس میں
جموں و کشمیر کو بھارت کا ایک صوبہ قرار دے دیا۔
19جولائی1947کو کشمیریوں کا پاکستان سے الحاق کا فیصلہ آج بھی مقبوضہ ریاست
میں جھلکتا ہے۔ قوم پرستوں کی اپنی آراء ہے۔آج بھی سات دہائیاں گزرنے کے
بعد بھی کشمیری پاکستان کا پرچم لہرا رہے ہیں۔ وہ آج اپنے شہدا ء کو
پاکستان کے پرچم میں لپیٹ کر دفن کر رہے ہیں۔ کشمیریوں اور پاکستان کا رشتہ
انمول ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں یوم الحاق پاکستان منایا جاتا
ہے تا کہ پاکستان اور کشمیر کے تعلق اور رشتے کے مضبوطی کا اعادہ کیا جائے۔
اس سے تجدید عہد کیا جاتا ہے کہ کشمیری اپنی آزادی کے لئے اور بھارت سے
غلامی کے خلاف جدوجہد جاری رکھیں گے۔ پاکستان پر زور دیا جاتاہے کہ وہ
بھارت سے کشمیر پر بات چیت میں کسی قسم کی کوتاہی اور کمزوری کا مظاہرہ نہ
کرے۔ پسپائی اختیار نہ کی جائے۔ پاکستان کی سابق حکومتیں دہلی کے سامنے
معذرت خواہانہ رویہ اپناتی رہی ہیں۔ جس سے کشمیر کاز کو زبردست نقصان پہنچا۔
یہ ظاہر کیا جاتا رہا ہے کہ کشمیر ، پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ
مسلہ ہے یا کوئی سرحدی جھگڑا ہے۔ جب کہ مسلہ کشمیر سلامتی کونسل کے ایجنڈے
پر اب بھی موجود ہے۔ پاکستان اس کا اہم فریق ہے۔ کشمیریوں کو براہ راست
سلامتی کونسل یا اقوام متحدہ تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ نہ ہی کشمیر کو مبصر
کا درجہ دیا جا سکا ہے۔ آزاد کشمیر جو کہ تحریک آزادی کا بیس کیمپ کہلاتا
ہے۔ یہاں کی قیادت سنجیدہ ہوتی تو کم از کم اقوام متحدہ میں مبصر کا درجہ
ہی حاصل کر لیتی۔ لیکن یہاں بدقسمتی سے ہمیشہ اقتدار کی رسہ کشی جاری رہی۔
آج بھی جب کشمیر ابل پڑا ہے۔ قتل عام جاری ہے۔ نسل کشی عروج پر ہے۔ ہزاروں
کشمیری ہسپتالوں میں علاج اور ادویات کے لئے تڑپ رہے ہیں۔ وہ آنکھوں، بازو،
ٹانگوں سے محروم کر دیئے گئے ہیں۔ انہیں کمک پہنچانے یا جنگ بندی لائن کی
طرف مارچ یا بڑے احتجاجی مظاہروں کے بجائے یہاں اقتدار کی سیاست ہوتی ہے۔
انتخابی منشور میں بھارتی مظالم اورغلامی کے خلاف جدوجہد تیز کرنے کا کوئی
عملی پروگرام نہیں۔ اگر کہیں تحریک کا کوئی نام ہے ، وہ بھی احسان جتلاتے
ہوئے درج کیا گیا ہے۔
برہان وانی اور ان کے ساتھی شہید ہو رہے ہیں۔ شہدا کی تعداد میں اضافہ ہو
رہا ہے۔ لیکن افسوس ہے تحریک کے نام پر تجارت کرنے والوں کے اثاثوں میں
اضافہ ہورہا ہے۔ ایک طرف شہدا ء کے قبرستان پھیل رہے ہیں۔ تو دوسری طرف
مفاد پرستوں کے بچوں کا مستقبل روشن ہو رہا ہے۔ یوم الحاق پاکستان کے موقع
پر بھی کشمیر شہداء کے خون سے سیراب ہورہا ہے۔ آزادی پسند گرفتار ہو رہے
ہیں۔ نوجوانوں کی بھی گرفتاریاں ہورہی ہیں۔ قائدین نظر بند ہیں۔ پر امن
احتجاج کی بھی اجازت نہیں۔ وادی میں ضروری اشیاء کی شدید قلت پیدا ہو جاتی
ہے۔ جموں سرینگر شاہراہ کو بند کر دیا جاتا ہے۔ عوام سرینگر راولپنڈی روڈ
کھولنے کا مطالبہ کر تے ہیں۔ لیکن ان کی چیخ و پکار کسی تک نہیں پہنچ
پاتی۔ان پر بندوقوں کے دہانے کھول دیئے جاتے ہیں۔ ایسے وقت میں کشمیریوں کا
پاکستان سے الحاق کا دن منانا انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ کوئی بھی
اہم دن ہو تو اہم اس دن تعطیل کرتے ہیں۔ جب کہ ہمیں چھٹی کی نہیں بلکہ
زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے تا کہ اس دن کی آمدن ہم کشمیر میں شہداء کے
لواحقین، یتیموں، بیواؤں، بھارتی دہشتگردی کے متاثرین تک پہنچا سکیں۔ اقوام
متحدہ کے متعلقہ ادارے کشمیری متاثرین ، زخمیوں کو ادویات، یا پاکستان سے
ڈاکٹروں کی ٹیم کشمیر روانہ کرنے میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ آج کشمیر میں
تیز ہونے والی جدوجہد کشمیریوں کو اقوام متحدہ کے زیر اہتمام رائے شماری کے
مطالبے کو دنیا کے سامنے جارحانہ سفارتکاری سے رکھنے کی دعوت دیتی ہے۔ دنیا
بھر میں پاکستانی سفارتخانوں میں کشمیر ڈیسک قائم کرنے کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔
|