پاکستانی سیاست کے بھی اپنے ہی رنگ ہیں وہ لوگ جنہیں
اسمبلی میں بیٹھ کر ملک کی قسمت بدلنے کے لیے فیصلے کرنے ہیں وہ تو کبھی
اسمبلی آتے ہی نہیں چاہے اُن کا تعلق حکومتی جماعت سے ہو یا اپوزیشن سے۔
ہماری اپوزیشن کی جماعتیں تو ہمیشہ سے سڑکوں پر رہنا پسند کرتی ہیں دنیا کے
بڑے بڑے شہروں میں لوگ گھر کی چھت میسر نہ ہونے کی وجہ سے رات کو سڑکوں کے
کناروں پر پناہ لیتے ہیں مگر ہمارے سیاست دان عوام کو سڑکوں پر مرنے کے لیے
چھوڑ کر خود ہوٹل یا وی آئی پی کنٹینر استعمال کرتے ہیں اور اس طرح ہماری
سڑکیں لوگوں کے پاس چھت ہونے کے باوجود بھی اُن کی رہائش گاہیں بن جاتیں
ہیں۔پہ سڑکیں ہمارے کاروبار کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہیں اور اربوں کا
بجٹ بھی اسی لیے خرچ کیا جاتا ہے کہ لوگ آسانی سے سفر کر سکیں مگر ایسا
ہوتا کب ہے۔کسی کے گھر فوتگی ہو یا کوئی شادی سب سے پہلے گھر کے سامنے ٹینٹ
لگا کر سڑک بلاک کی جاتی ہے بغیر یہ سوچے سمجھے کہ لوگ کون سا راستہ
استعمال کر سکتے ہیں حد نہیں کہ خوشی یا غمی تو آپ کی ہے اس سے متاثر سارا
علاقہ کیوں ہو۔ایک دلچسپ حقیقت آپ کو بتاؤں ہمارے دین اسلام میں سب سے
ذیادہ جس عبادت کی فضیلت بیان کی گئی ہے وہ ہے نماز ۔جسے کسی حال میں بھی
چھوڑنے کی اجازت نہیں مگر کسی گزرگاہ پر نماز پڑھنے سے روک دیا گیا بلکہ
راستہ اُن جگہوں میں شامل ہے جہاں نماز پڑھنا حرام ہے جانتے ہیں کیوں ۔ہمارا
دین ہمیں ہمیشہ دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کرتا ہے آپ کی وجہ سے کسی
دوسرے کو تکلیف نہ ہومگر ہمارے دین کے ٹھکیدار ہر وہ کام سڑکوں پر ہی کرتے
ہیں جن کو عبادت سمجھ کر کیا جاتا ہے جیسے دینی درس اور مجلس وغیرہ۔ٹینٹ
لگا کر سڑک بلاک کی اور تقریریں شروع راہگیر جائیں بھاڑ میں۔اُن کے اس
اقدام سے دوسروں کو کتنی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے اُن کی بلا سے۔ایک
بات قابل غور ہے کہ وہ لوگ جو عام آدمی کو دین سے اس لیے دور رکھتے ہیں کہ
عام آدمی دین کو نہیں سمجھ سکتاجب تک وہ سمجھ کر نہ سمجھیں وہی لوگ دین کی
اس چھوٹی سی بات کو نہیں سمجھتے کہ راستہ روک کر سب سے اہم عبادت نماز ادا
کرنے سے روکا گیا ہے تو پھر یہ سب دینی درس وغیرہ کیسے اس انداز میں ادا
کئے جا سکتے ہیں جنہیں باعث ثواب سمجھا جاتا ہے۔مگر ان ٹھکیداروں کو دین یا
لوگوں سے زیادہ اپنے مفادات عزیز ہیں کیونکہ انھوں نے بھی تو بچوں کا پیٹ
پالنا ہے ۔
ہمارے ہاں سڑکیں سفر سے ذیادہ دیگر عوامل کے لیے استعمال کی جا تیں ہیں ۔بڑی
سڑکو ں پر تو ذیادہ تر جلسے ہی منعقد ہوتے ہیں اگر کسی دن سڑک سفر کے لیے
مل جائے تو غنیمت سے ہر گز کم نہیں مجھے تو لگتا ہے جس طرح کے حالات ہیں
بہت جلد ایسی خبریں سننے کو ملیں گے کہ آج وزیراعظم صاحب نے لاہور ہائی وے
کا سنگ بنیاد رکھا جہاں لاکھوں لوگ آسانی سے احتجاج کر سکیں گے-
ہماری سڑکوں کی بہت سی خوبیاں ہیں یہاں لوگ نا صرف احتجاج کرسکتے ہیں بلکہ
اگر جلسہ یا دھرنا لمبا ہو تو انہی سڑکوں کو سونے کا بستر اور کھانے کی
ٹیبل بھی بنا سکتے ہیں پھر انہی جلسے جلوسوں میں تقریر کی جاتیں ہیں کہ ہم
ترقی نہیں کر رہے اور دوسرے ممالک کی مثالیں دی جاتیں ہیں بلکہ تعریفوں کے
پل باندے جاتے ہیں ۔بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی انھیں اتنی بڑی ترقی نظر
نہیں آتی۔یقین نہیں آتا تو پوری دنیا میں تلاش کر لیں ایسی مضبوط صاف ستھری
سڑکیں نہیں ملیں گی جہاں آپ بڑے پر سکون ماحول میں سو سکتے ہیں کھانا کھا
سکتے ہیں اور تو اور اگر حاجت بھی محسوس کریں تو کوئی مسلہ نہیں آپ کو ہر
گز نہیں روکا جائے گا۔ایسی فایؤ سٹار سڑکیں کسی دوسرے ملک میں نہیں اور مزے
کی بات ہے کہ دوسرے ممالک سڑکوں کو ٹریفک کے لیے استعمال کرتے ہیں وہ لوگ
ابھی ہم جیسے باشعور نہیں ہوئے۔
یہ سڑکیں ہمارے ملک کی سیاست میں بہت اہم مقام رکھتی ہیں اتنی اہمیت تو خود
سیاسی رہنماؤں کی نہیں ہوتی جتنی سڑکوں کی ہے۔ایم کیو ایم میں جو اتنی بڑی
تبدیلی نظر آرہی ہے اب یہ وقتی ہے یا مستقل یہ علیحدہ بحث ہے مگر اس تبدیلی
کے پیچھے کہیں نہ کہیں سڑکوں کا کردار موجود ہے چلو مثال سے سمجھانے کی
کوشش کرتا ہوں ۔ایم کیو ایم وہ جماعت تھی کہ ان کی ایک کال پر پورا کراچی
جام ہو جاتا تھا مگر آپریشن کے بعد حالات بدل گئے حالیہ دنوں میں ایم کیو
ایم شاہرا ہ فیصل پر احتجاج کر رہی تھی تب لوگوں نے ہارن بجا بجا کر احتجاج
کرنے والوں کو سڑک چھوڑنے پر مجبور کر دیا حالانکہ یہ غلط ہے کیونکہ
پاکستان میں سڑکیں احتجاج کے لیے ہی بنائی جا تی ہیں ٹریفک کے لئے تھوڑی
ہوتی ہیں بحرحال اپنی اس بے عزتی کو بر داشت نہ کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے
رہنماؤں کے حوصلے قضائے الہی سے انتقال کر گئے پس کراچی کی سڑکیں بنیادی
وجہ بنیں ایم کیو ایم کے موجودہ حالات کے لیے۔اب تو آپ کو انداذہ ہو گیا ہو
گا کہ سڑکیں کتنی اہمیت رکھتی ہیں ہمارے ملک کی سیاست میں۔
حکومت کو ہٹانا یا ڈرانا مقصود ہو تب بھی اپوزیشن انہی سڑکوں کا سہارہ لیتی
ہے اور ہمارے کپتان صاحب تو ماسڑ ہیں ۔حکومت کو سڑکوں پر آنے سے ایسے ڈراتے
ہیں جیسے گاؤں میں پیر صاحب چوہداری کو ڈراتا ہے کہ اگر یہ چڑاوا نہ چڑا تو
اس بار فصل برباد ہو جائے گی اب چوہداری صاحب پیر کی دھمکی سے ڈرے یا نہ
ڈرے لیکن حکومتیں سڑکوں کی دہشت سے خوب خوف ذدہ ہیں۔ویسے کیسے کمال کی بات
ہے کہ یہ سڑکیں بناتی بھی حکومت ہی ہے اور انہی سے دہشت زدہ بھی ہے۔میری تو
یہ تجویز ہے کہ اب حکومت کو سڑکو ں پر یہ بورڈ آویزہ کر لینے چاہیے کہ
سڑکوں پر گاڑیاں چلانا سخت منع ہے۔ |