واپسی پر میں نے صالح سے کہا:
’’یہاں کی زندگی میں تو خاندانوں میں بڑی ٹوٹ پھوٹ ہوجائے گی۔ کسی کی بیوی
رہ گئی اور کسی کا شوہر رہ گیا۔‘‘
’’ہاں یہ سب تو ہو گا۔ آگے بڑ ھنے کا موقع تو وہ دنیا تھی جو گزرگئی۔ یہاں
تو جو پیچھے رہ گیا سو رہ گیا۔ لیکن یہاں کوئی تنہا نہیں ہو گا۔ رہ جانے
والوں کے انتظار میں کوئی نہیں رکے گا۔ نئے رشتے ناطے وجود میں آجائیں گے ۔
نئے جوڑ ے بن جائیں گے ۔ نئی شادیاں ہوجائیں گی۔‘‘
’’مگر یہاں ویسے خاندان تو نہیں ہوں گے جیسے دنیا میں ہوتے تھے ۔‘‘
’’تم ٹھیک سمجھے ہو۔ دنیا میں خاندان کا ادارہ انسانوں کی بعض کمزوریوں کی
بنا پر بنایا گیا تھا۔ بچوں کی پرورش اور بوڑ ھوں کی نگہداشت اس ادارے کا
بنیادی مقصد تھا۔ خاندان کی مضبوطی اور استحکام کے لیے مردوں کو خاندان کا
سربراہ بنایا گیا تھا۔ اسی خاندان کو جوڑ ے رکھنے کے لیے عورتوں کو بہت سے
معاملات میں مردوں سے کمزور بنایا گیا تھا، جبکہ مردوں کو جبلی طور پر
عورتوں کا محتاج کر دیا گیا تھا۔ وہ مردوں کے لیے ایک نعمت بھی تھیں اور
ضرورت بھی۔ اس کے بغیر دنیا کا نظم چل نہیں سکتا تھا۔ مگر اب یہاں معاملات
جدا ہوں گے ۔ عورتیں مردوں کے لیے ایک نعمت تو رہیں گی، مگر خود ان کی
محتاج نہیں ہوں گی۔ اسی لیے ان کی قدر و قیمت بہت بڑ ھ جائے گی اور ان کا
نخرہ بھی۔‘‘
’’اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں عورت ہونا زیادہ فائدے کی بات ہے ۔ عورت
جب چاہے گی مرد کی توجہ حاصل کر لے گی، مگر مرد کا عورتوں پر کوئی اختیار
نہیں ہو گا حالانکہ وہ ان کے ضروت مند ہوں گے ۔‘‘
’’ہاں یہ بات تو ٹھیک ہے ۔‘‘
’’تو ہم مرد توپھر نقصان میں رہے ۔‘‘
’’ہاں نقصان میں تو تم لوگ رہو گے ۔‘‘
’’یہ تو بڑ ا مسئلہ ہے ۔ اس مسئلے کا کوئی حل ہے ؟‘‘
’’جنت کی نئی دنیا میں ہر چیز کا حل ہوتا ہے ۔ حوریں اسی مسئلے کا حل ہیں
۔‘‘
’’مگر ان سے تو خواتین کو جیلیسی محسوس ہو گی۔‘‘
’’نہیں ایسا نہیں ہو گا۔ حوریں اپنے اسٹیٹس اور خوبصورتی میں کبھی جنت کی
خواتین کے برابر نہیں آ سکتیں ۔ اس لیے وہ جنتی خواتین کے لیے کبھی رشک و
حسد کا باعث نہیں بنیں گی۔ جنت کی خواتین اپنے اعمال کی وجہ سے حوروں سے
کہیں زیادہ خوبصورت اور بہت بڑ ے اسٹیٹس کی مالک ہوں گی۔ انہیں اس کی پروا
نہیں ہو گی کہ ان کے شوہر کی اور دلچسپیاں کیا ہیں ۔ ویسے بھی جنت انسانوں
کی نہیں خدا کی دنیا ہے ۔ تم جانتے ہو کہ انسانوں اور خدا کی دنیا میں کیا
فرق ہوتا ہے ؟‘‘
میں خاموشی سے سوالیہ نگا ہوں سے اسے دیکھتا رہا۔ اس نے اپنے سوال کا خود
ہی جواب دیا:
’’انسانوں کی دنیا میں رقیب سے حسد کی جاتی ہے ۔ مگر خدا کی دنیا میں رقیب
بھی محبوب ہی ہوتا ہے ۔‘‘
’’یہ بات تو لاجواب ہے ۔ مگر اس کا فیصلہ ناعمہ ہی کرے گی۔‘‘
’’جنت پاکیزہ لوگوں کے رہنے کی جگہ ہے ۔ ان کی پاکیزگی خدا کی مہربانی سے
کسی منفی جذبے کو ان کے پاس پھٹکنے نہیں دے گی۔‘‘، صالح نے میری بات کا
براہ راست جواب دینے کے بجائے ایک اصولی بات بیان کی اور پھر اس کی مزید
وضاحت کرتے ہوئے کہا:
’’اصل میں تم ابھی تک انسانی دنیا کے اثرات سے نہیں نکلے ہو۔ پچھلی دنیا
آزمائش کی دنیا تھی۔ اس لیے وہاں مثبت جذبوں کے ساتھ منفی جذبے بھی رکھ دیے
گئے تھے ۔ یہ منفی جذبے انسانی شخصیت کے اندر سے اٹھتے تھے ۔ ہر مومن مرد و
عورت کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ ہر طرح کے منفی حالات اور ماحول میں رہنے کے
باوجود اپنے اندر پیدا ہونے والے منفی جذبات پر قابو پائے ۔ یہ بالکل ایسا
ہی ہے جیسے پسینہ، بول و براز، پیشاب اور پاخانہ وغیرہ انسانی جسم سے نکلنے
والی گندگیاں تھیں ۔ مگر حکم تھا کہ ہر گندگی سے اپنے وجود کو پاک رکھو تو
تم لوگ پانی سے غسل و طہارت کرتے تھے ۔ اسی طرح منفی جذبے بھی اندر سے پیدا
ہونے والی گندگیاں تھیں ۔ غصہ، نفرت، جھوٹ، حسد، تکبر، کینہ، ظلم اور ان
جیسی تمام گندگیوں کے بارے میں حکم تھا کہ صبر کے پانی سے انہیں دھو ڈالو۔
مومن مرد و عورت زندگی بھر یہ مشقت اٹھاتے رہے ۔ مگر آج کے دن انہیں ہر
ایسی مشقت سے پاک کر دیا جائے گا۔‘‘
’’یعنی؟‘‘
’’مطلب یہ کہ اب نہ ان کے جسم سے گندگیاں نکلیں گی اور نہ ہی ان کے ذہن میں
منفی جذبے اور خیالات پیدا ہوں گے ۔ جنت خوبصورت لوگوں کے رہنے کی ایک
خوبصورت جگہ ہے جہاں کوئی بدصورت جذبہ باقی نہیں رہے گا۔‘‘
’’لیکن میرے خیال میں اس بحث میں اصل بات یہ سامنے آئی کہ حوریں جنت کی
خواتین سے کمتر ہیں اور بس گزارے کے قابل ہیں ۔ تبھی وہ ان سے حسد نہیں
کریں گی۔‘‘، پھر میں نے ہنستے ہوئے اپنی بات میں اضافہ کیا:
’’مسلمان خوامخواہ حوروں کے حسن کا چرچا سن کر ان کے دیوانے بنے اور بلاوجہ
سیکولر مزاج لوگوں کے طعنے سنتے رہے ۔‘‘
میرے مذاق کے جواب میں صالح نے سنجیدگی سے کہا:
’’یہ دونوں تمھاری غلط فہمیاں ہیں ۔ بات یہ ہے کہ جنت میں تم مرد، عورتوں
کے لیے کوئی ایسا قیمتی اثاثہ نہیں رہو گے جس کی وجہ سے وہ کسی سے حسد کریں
۔ رہی حوریں تو ان کی اتنی تحقیر مت کرو کہ ان کے لیے ’کم تر‘اور ’گزارے کے
قابل‘کے الفاظ بولو۔ وہ جنتی خواتین جیسی تو نہیں ، مگر بہرحال ایسی بھی
نہیں ہیں کہ تم ان کو کم تر سمجھو۔‘‘
’’اچھا تو وہ کیسی ہیں ؟‘‘
’’میں بتاتا ہوں وہ کیسی ہیں ۔ وہ حوریں نسوانی جمال کا آخری نمونہ اور
جسمانی خوبصوتی کا آخری شاہکار ہیں ۔ ان کا بے مثال حسن اور باکمال روپ،
زیب و زینت کے بازار، سرخی پاؤڈر کے سنگھار، گجروں کے تار اور موتیوں کے
ہار کا محتاج نہیں ہوتا۔ ان کے وجود کی تشکیل کے لیے کائنات اپنا ہر حسن
مستعار دیتی ہے ۔ پھول اپنے رنگ، ہوا اپنی لطافت، دریا اپنا بہاؤ، زمین
اپنا ٹھہراؤ، تارے اپنی چمک، کلیاں اپنی مہک، چاند اپنی روشنی، سورج اپنی
کرنیں ، آسمان اپنا توازن، چوٹیاں اپنی بلندی اور وادیاں اپنے نشیب جب جمع
کر دیتے ہیں تو ایک حور وجود میں آتی ہے ۔
ان کا حسن خوبصورتی کے ہر معیار پر آخری درجہ میں پورا اترتا ہے ۔ ان کا قد
لمبا اور رنگ زردی مائل گورا ہے ۔ پورے جسم کی جلد بے داغ اور شفاف ہے ۔
آنکھیں بڑ ی بڑ ی اور گہری سیاہ ہیں ، مگر ہر لباس کی مناسبت سے اس کے رنگ
میں ڈھل سکتی ہیں ۔ ان کی بھنویں ہموار اور پلکیں دراز ہیں ۔ ان کی نظر عام
طور پر جھکی رہتی ہے ، مگر جب اٹھتی ہے تو تیر کی طرح دل تک جاپہنچتی ہے ۔
ان کا چہرہ کتابی، پیشانی کشادہ، رخسار سرخی مائل، ناک ستواں ، زبان شیریں
اور ہونٹ گلاب کی طرح نازک اور دانت موتیوں کی طرح چمکدار ہیں ۔ ان کے بال
ریشم کی طرح نرم اور چمکدار اور ان کے سفید رنگ کے برعکس گہرے سیاہ اور
پنڈلیوں تک لمبے ہیں ۔ ان کی آواز سریلے نغمے کی طرح کان میں رس گھولتی،
باتوں سے موتی جھڑ تے اور مسکراہٹ سے رُت حسین ہوجاتی ہے ۔ ان کے وجود میں
حیا کا عطر اور سانسوں میں خوشبوؤں کی مہک ہے ۔ ان کے لہجے میں نرمی، چلنے
کے انداز میں دلربائی اور بولنے کے طریقے میں شان و وقار ہے ۔ ان کے معطر
وجود پر مخملی لباس اور چمکتے زیور بادلوں سے چھپتے کھلتے بدرِ کامل کا
منظر پیش کرتے ہیں۔‘‘
’’تم نے حوروں کو دیکھا ہے ؟‘‘
’’نہیں! انہیں کسی نے نہیں دیکھا۔ صرف ان کا احوال سنا ہے ۔ وہی تمھیں سنا
رہا ہوں ۔‘‘، یہ کہتے ہوئے اس نے سلسلہ بیان جاری رکھا لیکن اس دفعہ اشعار
میں اپنے مدعا بیان کرنے لگا:
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑ تے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے حشر ہے اس کی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کی سیاہ چشمگی قیامت ہے
سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے جب سے حمائل ہیں اس کی گردن میں
مزاج اور ہی لعل و گہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں
رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی
اگر وہ خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں
صالح بے تکان بول رہا تھا اور میں خاموشی سے اس کی شکل دیکھ رہا تھا۔ اس نے
جب اشعار پڑ ھے تو میں نے کہا:
’’تمھاری باتیں واقعی مبالغہ، کہانیاں اور خواب لگ رہی ہیں ۔ لیکن یہ اگر
خواب ہے تو بہت دلکش خواب ہے ۔‘‘
’’یہ خواب ابھی ختم نہیں ہوا۔ سنو! ایک حور کا وجود بل کھاتی ندی کی طرح
ڈھلتا ہے جو آسمان کی سیاہ گھٹاؤں سے برف کی صورت اپنے سفر کا آغاز کرتی،
چوٹیوں پر ڈیرہ ڈالتی، جھرنوں اور آبشاروں کی صورت نکلتی، ڈھلانوں میں
اترتی، میدانوں میں ٹھہرتی، بلندیوں کو چھوتی، نشیب کی طرف بڑ ھتی، ٹیلوں
کو عبور کرتی ہوئی وادیوں تک پہنچتی ہے اور آخر کار نیکی، پارسائی اور تقوی
کے اس سمندر پر اپنا وجود نچھاور کر دیتی ہے جس نے زندگی صبر اور تقویٰ کے
ساتھ گزاری۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ یہ ندی اپنے پورے سفر میں کسی نجاست، کسی
آلودگی کا شکار نہیں ہوتی۔ ہر نامحرم نگاہ کو اپنی دید اور لمس سے دور
رکھتی ہے ۔ یہ ہزاروں میل کا سفر پاکدامنی کے ساتھ طے کرتی ہے اس لیے
پاکدامن سے کم کسی شخص کو قبول نہیں کرتی۔ اور آخر کار سیلِشباب کی چڑ ھتی
گھٹتی موج کا سا ان کا وجود اپنے سمندر میں ہمیشہ کے لیے ضم ہوجاتا ہے ۔‘‘
’’مجھے سمجھ ہی نہیں آتا کہ تعریف حوروں کی کروں یا تمھارے بیان کی۔‘‘
’’تعریف تو صرف اللہ کی ہونی چاہیے ۔‘‘
’’اس میں تو کوئی شک نہیں کہ تعریف و توصیف تو صرف اللہ ہی کی ہونی چاہیے ۔
مگر یہ بتاؤ کہ کیا یہ انسان ہوں گی؟‘‘
’’ہاں یہ بھی انسان ہیں ۔ اسی طرح اہل جنت کے وہ خدام جنہیں غلمان کہا جاتا
ہے ، وہ بھی انسان ہی ہیں ۔ یہ وہ لڑ کے ہیں جو ہمیشہ لڑ کے ہی رہیں گے ۔‘‘
’’یہ لڑ کے کیوں رہیں گے ، ملازم اور خادم تو وہ بہتر ہوتا ہے جو زیادہ عمر
کا ہو اور زیادہ سمجھ رکھتا ہو؟‘‘، میں نے ذہن میں آنے والا ایک اعتراض جڑ
دیا۔
’’نہیں ایسا نہیں ہے ۔ یہ کم عمر ہونے کے باوجود بلا کے مزاج شناس ہوں گے ۔
اہل جنت کی مجلسوں میں جب کسی جنتی کا مشروب ختم ہو گا تو یہ اس کی نظر
دیکھیں گے اور بلا کچھ کہے سنے اس کے گلاس میں مطلوبہ شراب اتنی ہی مقدار
میں ڈالیں گے جتنی اسے ضرورت ہو گی۔ اس لیے ان کی سمجھ بوجھ اور مزاج شناسی
کی تو کوئی حد نہیں ہو گی البتہ انہیں لڑ کوں کی شکل میں اس لیے رکھا جائے
گا کہ جسمانی طور پر مستعد رہیں اور لمحہ بھر میں ہر خدمت بجالائیں ۔ ان کا
لباس، شکل اور حلیہ انہیں ایسا بنادے گا گویا محفل میں قیمتی موتی بکھرے
ہوئے ہیں ۔ ان کے ابدی طور پر کم عمر لڑ کے بنائے جانے کی دوسری وجہ یہ ہے
کہ ان کو کبھی ازدواجی تعلق کی ضرورت نہ ہو۔ جبکہ حوریں مکمل شباب کی عمر
کو پہنچی ہوئی لڑ کیاں ہوں گی اور اہل جنت کی بیویاں ہوں گی۔‘‘
’’کیا حوریں اور غلمان اہل جنت کے لیے خاص طور پر تخلیق کیے جائیں گے ؟‘‘
’’یہ ایک لمبی کہانی ہے ۔‘‘
’’ہمارے پاس وقت کی کون سی کمی ہے ۔ یہ لمبی کہانی بھی سناتے جاؤ۔‘‘
’’سنو! آج کا دن انسانوں کا پہلا محشر نہیں ہے ۔‘‘
’’کیا مطلب! کیا قیامت پہلے بھی آ چکی ہے ؟‘‘
’’قیامت تو پہلے نہیں آئی البتہ اول تا آخر سارے انسان ایک دفعہ پہلے بھی
پیدا کیے جا چکے ہیں ۔‘‘
’’یہ کب ہوا تھا؟‘‘
’’یہ تو تم اللہ تعالیٰ سے جنت میں جا کر خود پوچھنا۔ مجھے تو صرف اتنا
معلوم ہے کہ یہ ہوا تھا۔ دراصل جس آزمائش میں انسان کو ڈالا گیا تھا، یہ
پہلا محشر اس کہانی کا دوسرا واقعہ ہے ۔ پہلا واقعہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ
نے تمام مخلوقات کے سامنے یہ موقع رکھا تھا کہ وہ جنت میں اللہ تعالیٰ کی
ابدی رفاقت کا شرف حاصل کر لیں ۔ لیکن اس کے لیے انہیں دنیا میں کچھ وقت
ایسے گزارنا ہو گا کہ خدا ان کے سامنے نہیں ہو گا۔ صرف اس کے احکام ان کے
سامنے آئیں گے اور انہیں بن دیکھے رب کی عبادت اور اطاعت کا راستہ اختیار
کرنا ہو گا۔ زمین کی بادشاہی عارضی طور پر امانتاً اس مخلوق کو دے دی جائے
گی اور اپنی بادشاہی کے زمانے میں اس مخلوق کو اپنے بارے میں یہ ثابت کرنا
ہو گا کہ وہ صاحب اختیار بادشاہ ہونے کے باوجود بن دیکھے خد اکی اطاعت کے
لیے تیار ہے ۔ جس کسی نے اقتدار اور اختیار کی اس امانت کا درست استعمال
کیا اس کا بدلہ جنت میں خدا کی ابدی رفاقت ہو گی اور ناکامی کی صورت میں
جہنم کا عذاب۔‘‘
’’تو پھر کیا ہوا؟‘‘
’’یہ ہوا کہ ساری مخلوقات ڈر کے پیچھے ہٹ گئیں ۔ اس لیے کہ جنت جتنی حسین
ہے ، جہنم اتنی ہی بھیانک جگہ ہے ۔ حشر کی سختی کو تو ابھی تم نے اپنی
آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ اس کے بعد کون عقل مند اس امتحان میں کودنے کی کوشش
کرتا۔‘‘
’’اور غالباً ہم جذباتی انسان اس امتحان میں کود پڑ ے ۔‘‘، میں نے لقمہ
دیا۔
’’ہاں یہی ہوا تھا۔ لیکن خدائی امانت اٹھانے کا یہ عزم روح انسانی نے
اجتماعی طور پر کیا تھا۔ اس لیے خد اکے عدل کا تقاضا یہ تھا کہ ہر ہر انسان
کوپیدا کر کے براہ راست اس سے یہ معلوم کیا جائے کہ وہ کس حد تک اس امتحان
میں اترنے کے لیے تیار ہے ۔
عبد اللہ! یہ اس لیے ہوا کہ تمھارا رب کسی پر رائی کے دانے کے برابر بھی
ظلم نہیں کرتا۔ سو اس نے سب انسانوں کو پیدا کیا۔ سب کے سامنے اپنے پورے
منصوبے کو رکھا۔ ظاہر ہے انسانوں کی اکثریت پہلے ہی اس مقصد کے لیے تیار
تھی۔ اسی لیے وہ پورے شعور کے ساتھ اس امتحان میں کودنے کے لیے تیار ہوگئے
۔ البتہ جن لوگوں نے یہ خطرہ مول لینے سے انکار کر دیا، ان سب کے بارے میں
یہ فیصلہ ہوا کہ انسانی گھروں میں جو بچے پیدا ہوتے اور بلوغت سے پہلے ہی
مرجاتے ہیں ، ان لوگوں کو یہی کردار سونپ دیا جائے ۔ اور یہی بچے بچیاں جنت
کی بستی میں حور و غلمان بنادیے جائیں گے ۔‘‘
’’اور باقی لوگ اس کڑ ے امتحان میں اترنے کے لیے تیار ہوگئے ؟‘‘
’’اس میں بھی خدا کی کریم ہستی نے کمال عنایت کا مظاہرہ کیا تھا۔ تم جانتے
ہو کہ دنیا میں سب کا امتحان یکساں نہیں ہوتا۔ یہ امتحان بھی اس روز ہر شخص
نے اپنی مرضی سے چن لیا تھا۔ جو بہت زیادہ حوصلہ مند لوگ تھے انہوں نے
نبیوں کا زمانہ چن لیا۔ ان لوگوں کا امتحان یہ تھا کہ ہر سو پھیلی گمراہی
کے دور میں انبیا کی تصدیق کر کے ان کا ساتھ دیں ۔ ان کی کامیابی کے لیے
اصل شرط یہ تھی کہ بدترین مخالفت میں بھی ثابت قدم رہیں ، اس راہ میں ہر
مشکل کو برداشت کریں اور انبیا کا پیغام آگے پہنچائیں ۔ اس لیے ان کا اجر
بھی بڑ ا رکھا گیا، مگر انہیں انبیا کی براہ راست رہنمائی کی سہولت کی بنا
پر کفر و انکار کی صورت میں عذاب بھی اتنا ہی شدید ہوتا۔ انہی لوگوں میں
ایک طرف حضرت ابوبکر ؓ جیسے لوگ تھے اور دوسری طرف ابولہب جیسے دشمنانِ حق۔
آزمائش کی دوسری سطح وہ تھی جس میں لوگوں نے امت مسلمہ اور نبیوں کے بعد ان
کی امت میں شامل ہونے کا پرچۂ امتحان چنا۔ ان لوگوں کا امتحان یہ تھا کہ
بعد کے زمانے میں پیدا ہونے والی گمراہیوں ، فرقہ واریت، بدعت اور غفلت سے
بچ کر شریعت کے تقاضوں کو ہر حال میں نبھاتے رہیں اور معاشرے کے خیر و شر
سے لاتعلق ہونے کے بجائے لوگوں میں نیکی کو پھیلائیں اور انہیں برائی سے
روکیں ۔ یہ ذمہ داریاں ان پر اس لیے عائد کی گئیں کہ ان کے پاس انبیا کی
تعلیمات تھیں اور وہ پیدائشی مسلمان تھے جنھیں قبول اسلام کے لیے کسی کڑ ی
آزمائش سے نہیں گزرنا پڑ ا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ عام انسانوں کے مقابلے
میں ان کی رہنمائی زیادہ کی گئی، انھیں زیادہ اجر کمانے کے مواقع دیے گئے ،
لیکن غفلت کی صورت میں ان کا حساب کتاب اتنا ہی سخت ہونا طے پایا۔‘‘
’’میرا اور دیگر مسلمانوں کا تعلق اسی گروہ سے تھا نا؟‘‘
’’ہاں تم ٹھیک سمجھے ۔ تیسرا گروہ ان لوگوں کا تھا جنہوں نے اپنا پرچۂ
امتحان بہت سادہ رکھا۔ یہ سارے لوگ نبیوں کی براہ راست رہنمائی کے بغیر
پیدا کیے گئے اور ان کا پرچۂ امتحان فطرت میں موجود ربانی ہدایت تھی۔ یعنی
توحید اور اخلاق کا امتحان۔ انہیں عام مسلمانوں کی طرح نہ شریعت کے امتحان
میں ڈالا گیا نہ نبیوں کی رفاقت کے کڑ ے امتحان میں ۔ ظاہر ہے کہ ان کا
حساب کتاب سب سے ہلکا ہو گا، ان کے لیے شدید عذاب کا اندیشہ بھی کم ہے اور
اجر کے مواقع بھی اسی تناسب سے کم ہیں ۔‘‘
’’اور انبیا کا معاملہ کیا تھا؟‘‘
’’انہوں نے امتحان کا سب سے سخت پرچہ چنا۔ اس لیے ان کی رہنمائی براہِ راست
اللہ تعالیٰ کی طرف سے کی گئی اور اسی لیے ا ن کے احتساب کا معیار بھی سب
سے زیادہ سخت تھا۔ تمھیں تو معلوم ہے کہ حضرت یونس کے ساتھ کیا ہوا تھا۔
انہوں نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا۔ صرف ایک اجتہاد تھا ۔ لیکن دیکھو ان کو
کس طرح اللہ تعالیٰ نے مچھلی کے پیٹ میں بند کر دیا۔‘‘
پھر اس نے اس طویل گفتگو کا خلاصہ کرتے ہوئے کہا:
’’اصل اصول جوتمام اقسام کے گروہوں میں کام کر رہا ہے وہ ایک ہی ہے ۔ زیادہ
رہنمائی، زیادہ سخت حساب کتاب اور زیادہ بڑ ی سزا جزا۔ کم رہنمائی، ہلکا
حساب کتاب، کم سزا جزا۔ مگر کسی انسان کا تعلق کس گروہ سے ہے اس کا انتخاب
انسانوں نے خود کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے نہیں ۔‘‘
’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر دنیا میں میری رہنمائی بہت زیادہ کی گئی تویہ
دراصل میری اپنی درخواست کے نتیجے میں کی گئی تھی۔‘‘
’’ہاں بالکل ایسا ہی ہے ۔ اسی وجہ سے تم آج اتنا اونچا درجہ پانے میں
کامیاب ہوگئے ۔ اگر تم اس رہنمائی کی قدر نہ کرتے تو تمھیں اتنا ہی شدید
عذاب دیا جاتا۔‘‘
’’یار میں نے کتنا بڑ ا رسک لے لیا تھا۔‘‘
’’یہی تمھاری دنیا کا اصول تھا۔ No Risk No Gain‘‘
مجھے اس لمحے میں احساس ہوا کہ میں نے کیا پالیا ہے اور کس خطرے سے نکل گیا
ہوں ۔ میں بے اختیار سجدے میں گرگیا۔ دیر تک میں اپنے رب کا شکر ادا کرتا
رہا جس نے مجھے اس عظیم امتحان میں سرخرو کر دیا تھا۔ اتنے میں صالح نے
میری پیٹھ تھپکتے ہوئے مجھ سے کہا:
’’عبد اللہ! اٹھو۔‘‘
میں اٹھ کر کھڑ ا ہوا اور صالح کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر بولا:
’’صالح اب میں کبھی نہیں مروں گا۔ میری زندگی میں کبھی کوئی بیماری، بڑ
ھاپا، خوف، غم، حزن، اداسی اور مایوسی نہیں آئے گی۔ میرا دل چاہ رہا ہے کہ
میں اچھلوں ، کودوں ، ناچوں ، قہقہے لگاؤں اور پوری دنیا کوچیخ چیخ کر
بتاؤں کہ لوگو! میں کامیاب ہو گیا۔ لوگو! میں کامیاب ہو گیا۔ آج سے میری
بادشاہت شروع ہوتی ہے ۔ آج سے میری زندگی شروع ہوتی ہے ۔‘‘
صالح خاموشی سے مسکراتے ہوئے مجھے دیکھتا رہا۔ میرے خاموش ہونے پر وہ بولا:
’’زندگی تو ابھی شروع ہو گی۔ ابھی تو ہمیں واپس حشر میں لوٹنا ہے ۔ بہت سے
احوال دیکھنے ہیں ۔ خدا نے تمھیں بڑ ا غیر معمولی موقع دیا ہے ۔ آؤ میدان
حشر میں چلتے ہیں ۔‘‘
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دعاؤں کا طلبگار |