یہ آرٹیکل جناب محمد مدثر کے اسی
موضوع پر لکھے گئے گمراہ کن آرٹیکل کا جواب ہے
جناب محمد مدثر صاحب آپ تو با عقل ہیں جبھی تو اتنا اچھا آرٹیکل لکھ دیا کہ
ہر طرف آپ کی تعریف ہو رہی ہے۔ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں آپ کو عربی کے
قاعدے بھی معلوم ہیں۔ آپ سے کچھ سوال کرنا چاہتا ہوں۔ مزاج پر ناگوار نہ
گزرے تو جواب ضرور دیجئے گا۔
یقیناً داتا عربی کا لفظ نہیں ہے ذرا یہ تو بتائیےکہ خدا کس زبان کا لفظ ہے؟
عربی کا تو نہیں ہے تو پھر آپ حضرات اکثر الله کو خدا کہہ کر کیوں پکارتے
ہیں۔ آپ کا جواب یقیناً یہی ہوگا کہ اس کا مطلب وہی ہے جو الله کا ہے۔ تو
بھائی داتا کا مطلب ہے سب کچھ دینے والا ۔ اور اب یہ بھی بتا دیں کہ مخلوق
کو سب کچھ دینے والی ذات الله تعالیٰ کے ہیں یا اس داتا کے جو کہ مر کر قبر
میں جا چکا اور قیامت کے دن اٹھایا جائے گا۔ سورہ الشوری آیت 49 اور 60
پڑھئے (تمام) بادشاہت خدا ہی کی ہے آسمانوں کی بھی اور زمین کی بھی۔ وہ جو
چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے
بیٹے بخشتا ہے ﴿٤۹﴾ یا ان کو بیٹے اور بیٹیاں دونوں عنایت فرماتا ہے۔ اور
جس کو چاہتا ہے بےاولاد رکھتا ہے۔ وہ تو جاننے والا (اور) قدرت والا ہے
﴿۵۰﴾ اب فرمائے کہ جب الله تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور وہی ہمار اصل داتا
ہے اور وہ خود فرماتا ہے کہ میں ہر پکارنے والے کی فریاد سنتا ہوں تو پھر
ہمیں اس مرے ہوئے داتا کی کیا ضرورت۔ کہنے والے کہیں گے کہ نہیں جی وہ الله
کہ یہاں ہمارے سفارشی ہیں تو بھائی یہی عقیدہ تو بت پرستوں کا ہے جو ان
بتوں کو بالکل اسی طرح الله کے دربار میں اپنا سفارشی سمجھتے تھے۔ ان میں
اور ان قبر کے پجاریوں میں کوئی فرق نہیں۔
آپ حضرات اکثر الله تعالیٰ کی صفات کا تقابل مخلوق کی صفات سے کرنے کی
گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں جبکہ اس ذات باری تعالیٰ کی صفات لا محدود اور
مخلوق کی صفات محدود اور بات یہیں ختم ہو جاتی ہے۔ الله تعالی کی ذات والا
صفات کا شکر ادا کریں کہ اس نے ہمارے پیارے نبی کو رؤف بھی اور رحیم کا
رتبہ عطا فرمایا۔ مگر یہ تو بتائے آپکے پیر کو داتا کا سرٹیفیکیٹ کس نے عطا
کیا۔ اور اگر عربی کو آپ سمجھتے ہیں تو ذرا ان باتوں پر غور کریں
نبی پاک کو الله تعالیٰ نے رحیم قرار دیا مگر الله تعالیٰ کی ذات (الرحیم)
اگر اپنے ایمان کو داؤ پر لگانے کا شوق ہے تو پکارو نبی پاک سمیت کسی انسان
کو(الرحیم)
اسی طرح الله تعالیٰ نے نبی پاک کو رؤف کا رتبہ عطا کیا مگر (الرؤف) کا
نہیں کیوں کہ اسکی اپنی ذات الرؤف ہے اور وہ اپنی ذات میں کسی کو شریک نہیں
کرتا۔ اس طرح اسکی ذات العلی اور العظیم ہے۔ ہمت ہے تو پکارو کسی انسان کو
(العلی) سب سے بلند یا(العظیم )سب سے عظیم(نعوذ بالله) تاکہ آپ کے ایمان
اور کفر کا فیصلہ ہو جائے۔ اب ذرا ان ناموں پر غور کرلیں ۔ الرحمٰن, الرحیم,
القادر , المالک , الرزاق , وغیرہ الله تعالیٰ کے نام ہیں اور یہ سب عربی
کے الفاظ ہیں ۔ پوری عربی تاریخ یا آجکل کے عربی ممالک میں آپکو ان صفت کے
ساتھ جو بھی نام ملے گا اسکا مطلب یہی ہوگا کہ اس صفت والی ذات کا بندہ
یعنی ( عبدالرحیم , عبدالرحمان, عبد المالک , عبدالرزاق) وغیرہ۔ کبھی کسی
انسان کو رحیم کے نام سے نہیں پکارا جاتا ۔ ہمیشہ عبدالرحیم کے نام سے ہی
پکارا جاتا ہے۔ اسکی وجہ میں یہاں آپکو تفصیل سے بتا دی ہے۔ آپ سے اور تمام
پڑھنے والوں سے گزارش ہے کہ اگر کوئی بات خلاف شریعت لکھی ہو تو اسکی
نشاندھی فرمائیں۔ |