ڈونلڈٹرمپ انتخابات سے قبل بڑے جوشیلے اندازمیں
دنیابھرمیں امریکی مداخلت پراپنی شدیدناپسندیدگی کااظہارکرتے ہوئے امریکی
عوام سے وعدہ کررہے تھے کہ وہ کامیابی کی صورت میں سب سے پہلے تمام امریکی
فوجیوں کوواپس وطن بلاکر امریکی معیشت پرپڑنے والے اس بوجھ کوختم کرکے
امریکی عوام کی فلاح و بہبودکیلئے امن کاراستہ اختیارکریں گے لیکن حقیقت یہ
ہے کہ کامیابی کے بعدان کی تمام پالیسیاں نہ صرف اپنے انتخابی وعدوں کے
بالکل برعکس بلکہ مسلم دشمنی کیلئے ان کاایجنڈا بڑاواضح ہوکرسامنے آگیاہے
۔قصر سفید میں پہنچتے ہی جہاں سب سے پہلے چندمسلمان ملکوں کے باشندوں کے
امریکاداخلے پرپابندی لگاکراپنے کھلے تعصب کااظہارکیا وہاںدوسری طرف
پینٹاگون اورایف بی آئی کے عین منصوبوں کے مطابق مسلم ممالک کے درمیان
منافرت پرمبنی پالیسیوں کے نفاذ کے آغازکیلئے سعودی عرب کادورہ
کیاجوبعدازاں اس خطے کیلئے خاصابھاری ثابت ہوا ۔ قطر جو شریک سفرتھااس سے
سعودی عرب کامعاملہ پرخطرہوگیا۔
سعودی عرب نے اپنے چھ عدد حواریوں کے ساتھ قطرکومکمل تنہاکرنے کیلئے اس کے
ساتھ ہرقسم کے تعلقات منقطع کرنے کااعلان کردیاجس کے جواب میں فوری
طورپرقطرکی حمائت میں جہاں ایران کھلے عام میدان میں کودپڑاوہاں ترکی بھی
ترت میدان میں اترآیا۔ترک پارلیمنٹ نے فوری طورپرقطرسے یکجہتی کااظہارکرتے
ہوئے اس کی حفاظت کیلئے پانچ ہزار فوجی قطرمیں بھیجنے کی منظوری دے دی
توپاکستان نے امن وصلح کی صدابلندکرتے ہوئے افہام وتفہیم کی کوششیں شروع
کردیں،کویت بھی امن مشن کیلئے میدان میں آگیاکہ پہلے کی طرح فریقین میں
غلط فہمیوں کوختم کیاجاسکے کہ پہلے ہی مسلمان کیاکم مصائب سے دوچارہیں۔عرفِ
عام میں ٹرمپ کادورۂ سعودی عرب کاکفن بھی میلانہیں ہوا کہ فسادکامردہ اٹھ
کھڑاہوا ۔ترکی اپنی کھوئی ہوئی خلافت عثمانیہ کی عظمت پانے کیلئے میدان میں
اُترآیا۔ترک صدرجوبغاوت سے بروقت نمٹ کرامت مسلمہ میں ابھرے اور انہوں نے
برماکے مسلمانوں کیلئے نقل مکانی کرنے والوں کیلئے ملک کے دروازے کھول کران
کے دلوں میں جگہ پائی۔اب پھرامت مسلمہ کی امامت کیلئے میدانِ عمل میں ہیں۔
ایران توپھولے نہیں سمارہا کہ سعودی عرب کوگھرکے چراغ سے آگ لگ گئی اور
دوسری طرف امریکاجوسعودی عرب کے اس عمل سے اپنے دورے کی اس قدرجلدکامیابی
کااعلان کر رہا تھا،فوری طورپرانتہائی مکاری کے ساتھ قطر اور سعودی عرب کے
مابین ثالثی کی پیش کش کرڈالی کیونکہ امریکاکوبخوبی علم ہے کہ قطراس کی
عالم گیریت کاایک بڑاٹھکانہ ہے اوراس کی پرائی منصوبہ بندی کی کلیدہے۔قطرکی
انتہائی مختصر آبادی کوتین اطراف سے خلیج فارس نے گھیررکھاہے اوراس
کاقریبی سمندری ہمسایہ بحرین ہے جواب سعودی عرب کے شانہ بشانہ کھڑاہے۔قطرکی
زمینی سرحدسعودی عرب سے ملتی ہے جس کوبند کرکے سعودی عرب عرف عام میں
قطرکاحقہ پانی بندکر سکتاہے۔ قطرکے موجودہ حکمران شیخ احمدبن خلیفہ امریکا
اور دیگر بین الاقوامی قوتوں کی آشیر آبادسے اپنے والدخلیفہ بن
حمادکاتختہ الٹ کر۱۹۹۵ء میں برسراقتدارآئے۔
قطرجوعالمی نقشے میں قطرے کے برابرہے، اس نے ۱۹۹۰ء میں العدیدایئربیس کی
تعمیرکاکام ایک ارب ڈالرسے شروع کیا۔اس وقت قطرکے پاس فضائیہ نام کی کوئی
چڑیاموجودنہ تھی مگریہ کیوں بنایاجارہاہے،کس کیلئے بنایا جا رہا ہے،کس لئے
بنایاجارہاہے، اس کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی۔ ایئربیس کارن وے خلیج کی کسی
بھی ریاست سے طویل ترین کیوں ہے اوراس میں دس ہزارنفری رکھنے کی سہولت کس
لئے ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جس وقت یہ ایئربیس تعمیرکیاجارہا تھا،قطرکی
آبادی صرف چارلاکھ تھی مگریہ رازمسلم اُمہ کے سامنے یوں کھلا جب ۱۹۹۱ء میں
آپریشن ڈیزرٹ اسٹارم کے نام پر قطراورامریکاایک دفاعی معاہدے میں مر بوط
ہوگئے۔۱۹۹۵ء میں والدکوہٹاکرحکمرانی سنبھالنے والے موجودہ حکمران نے
امریکاکیلئے پلکیں بچھاڈالیں۔
نائن الیون کے بعداس دفاعی معاہدہ اورالعدیدایئربیس کی افادیت دنیاکے سامنے
کھل کر آگئی جب امریکانے امریکی سینٹرل کمانڈسینیٹ کیلئے قطرکوچن لیا جو
ایشیاوافریقہ کیلئے پینٹاگون بناہواہے۔امریکاوسطی اورجنوبی مغربی
ایشیا،مشرقِ وسطیٰ اورشمال مشرقی افریقہ کے تقریباً۲۵ممالک میں ملٹری
آپریشنز اورتباہی پھیلانے کیلئے اسی قطرکو استعمال کرتاہے ۔ لیبیا میں
کرنل قذافی کے اقتدارکے خاتمے میں قطرنے اہم کرداراداکیا۔قطرنے عرب لیگ کو
مجبور کیاکہ وہ اقوام متحدہ میں لیبیاکونوفلائی زون قراردے اوراسی
قراردادنے نیٹوفورس کولیبیامیں بمباری کی اجازت دے کراس کو تہس نہس
کرایااورقذافی کی زندگی میں ہی طرابلس پرباغیوں کی قبضہ والی حکومت کوتسلیم
کرلیا۔امریکاکاآزمودہ کارملک قطرکامعاملہ اب کسی نئے فسادکی طرف مسلم امہ
کولے جارہاہے،یہ بات سوچنے کی ہے۔
قطرکوپرخطربناکرامریکانے سعودی عرب کیلئے اپنی اہمیت اوراس کی مجبوری
دوچندکردی ہے اورمستقبل میں مزیداسلحہ کے آرڈرزکی راہ ہموارکرلی ہے تو
دوسری طرف قطرمیں بھی اپنے فوجی ٹھکانے کے جوازکومزیدمستحکم کرلیاہے
اورقطرسعودی عرب دونوں کی اشدضرورت بن کرسامنے آیا ہے ۔ایران جوامریکی
صدرکے دورۂ سعودی عرب کے بعدجاری ہونے والے اعلامیہ سے بر افروختہ تھا،
کوقطرمل گیااوراس نے فراخدلانہ غذائی اشیاء کی فراہمی میں معروف ہونے کے
ساتھ ساتھ قطرکواپنی تین بندرگاہیں استعمال میں لانے کی کھلی پیش کش کر دی
ہے توترکی کوبھی قطرمیں ملٹری بیس بنانے کاموقع مل گیا۔کہتے ہیں کہ ترکی
اور قطرمیں ۲۰۱۵ء میں اس قسم کامعاہدہ سلامتی ہواتھامگرضرورت اب پڑی ہے۔ اس
صورت حال میں پاکستان کی پتلی حالت ہے،وہ سعودی عرب کوبھی نہیں
چھوڑسکتاتوقطرسے بھی ہاتھ نہیں نکال سکتاہے۔سعودی عرب سے آنے والا دس ارب
ڈالرسالانہ زرمبادلہ پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی ہے توقطری خط میں
حکمران پاکستان کی عزت کی جان ہے اور قطری ایل این جی معاہدے میں پاکستان
کے بجلی کے بحران کا علاج ہے اوراس سے بڑھ کریہ بات ہے کہ قطر،سعودی عرب
دونوںمسلم اورپاکستان کے ہم مذہب کلمہ گوہیں۔لڑاؤ اور حکومت
کرو،اغیارکاپرانافارمولا ہے مگریہ بات کیوںمسلمان حکمرانوں کو سمجھ میں
نہیں آرہی کہ فتنے کی ڈوری ٹوٹ گئی ہے اورتسبیح کے دانوں کی طرح فتنے
گررہے ہیں۔ قطراورسعودی عرب کے تنازعہ میں سعودی عرب کامؤقف ہے کہ
قطرہمارے دشمنوں کا دوست بناہواہے،اس لئے ہمارابالواسطہ دشمن ہے۔
قطرکاکہناہے کہ وہ آزادریاست ہے اوراصولی مؤقف کاحامی ہے مگربات اتنی سی
بھی نہیں جودونوں ممالک بتارہے ہیںبلکہ قصرسفیدکے فرعون کے دورۂ سعودی عرب
اورامریکی اسلحے کی کھیپ کے سودے کے بعدسعودی عرب خواب سے جاگاکہ
قطرڈراؤناخواب ہے۔اب قطربھی امریکاکے ایئربیس کی قوت پرخم ٹھونکے
کھڑاہے۔دراصل امریکا اب سعودی عرب کوبھی خوف زدہ رکھنے کے موڈمیں ہے۔ کویت
کی جنگ میں امریکاکے منہ کوریال کاچسکالگا دیا ہے ۔ قصرسفیدکافرعون کے
مطابق قطر’’دہشت گردوں‘‘ کاسہولت کارہے، اسے ان کی مالی وسیاسی معاونت ختم
کرناہوگی۔اس کامطلب یہ ہے کہ سعودی عرب کو’’دہشت گردوں ‘‘سے بچنے کیلئے
"دادا"امریکاکے سائے تلے رہناہوگااوراس کے نازنخرے برداشت کرناہوں گے ۔
سعودی عرب جتناخوف زدہ ہوگااتناہی خراج دے گا۔
قطرمیں امریکی ایئربیس کے باوجودیہ بیان دینا ثابت کرتاہے کہ قطرامریکی
پنجہ سے نہیں نکل سکتا۔قطرنے جرمن اورروس سے رابطے بڑھادیئے ہیں۔ خلیج میں
قطراورایران ایک بہت بڑے زیرآب گیس کے ذخیرے میں ساجھے دار ہیں۔ پاکستان
کی اچھی خاصی آبادی جو قطرکاپانچ فیصدبتائی جاتی ہے، قطر میں برسر
روزگارہے۔قطرواحدخلیجی عرب ریاست ہے جہاں تحریری آئین نافذہے جوقطری
خواتین کے حقوق کی واضح پاسداری بھی کرتاہے۔ موجودہ قطری حکمران برطانوی
اور فرانسیسی درسگاہوں سے تعلیم یافتہ ہیں اورآزادخیالی کے پیروکار ہیں۔اب
جہاں ترکی فوج کے ہمراہ قطرمیں ہے تووہاں پیوٹن کاروس بھی اس کی پشت پر
ہے،ایران بھی اپنے ہاتھ پاؤں مار رہاہے اورامریکاچٹ بھی میری پٹ بھی میری
کی صورت لئے موقع واردات پرہے۔بحرین میں روسی بیڑہ ایستادہ ہے۔ قطرخودبھی
دولت سے مالامال ہے۔افغانستان اورعراق کی پوری جنگ امریکانے قطرمیں بیٹھ
کرلڑی ، اب قطراور اس کے ’’ہمدرد ‘‘ایک چھتری تلے ہیں، تویہ چھتری کون سی
ہے،وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ سدھائے ہوئے پالتو مرغوں کی طرح
مسلمانوں کولڑانے کیلئے کفرکی قوتوں کوایک نیااکھاڑہ مل گیا ہے۔
ترکی بحری بیڑے کے ساتھ قطرآمدنے بحرین کے وزیرخارجہ نے بھی ترکی کا دورۂ
کیااورکہاکہ بحرین بھی بیرونی مداخلت کاشکارہے اوراس کابھی کوئی تدارک
کریں۔دیکھیں یہ سب کوششیں معاملے کوکس طرف دھکیل کرلے جاتی ہیں ۔قطرنے د
ھمکی دے دی کہ وہ زیرزمین گیس کی اس سپلائی کوروک دے گا جو ۴۰فیصدگیس دبئی
اوردیگرخلیجی ریاستوں کی ضرورت کوپوری کرتی ہے۔ داعش بھی میدان میں کودپڑی
ہے،اس کی ہفت روزہ آن لائن نیوزمیں ۳۴مسلم ممالک کے فوجی اتحادکوصلیبیوں
کے ساتھ گٹھ جوڑقراردے کراس کو مسخروں اوراحمقوں کاٹولہ قراردیاگیاہے
اورسعودی عرب پرحملے کی دھمکی دیتے ہوئے کہاگیاہے کہ وہ یورپ کی طرح سعودی
عرب کوبھی اپنانشانہ بنائے گا۔یہی وجہ ہے کہ حالیہ مکہ مکرمہ اوردیگرمقامات
پردہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری داعش نے قبول بھی کی ہے۔روس،ایران،ترکی
قطرکے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں توامریکی کیمپ میں بھی خوب رونق ہے جہاں لہو
مسلم کی ارزانی کے منصوبے ہیں۔
قطراورسعودی عرب تنازعہ کاایک مخفی پہلویہ بھی بتایاجاتاہے کہ یمن میں
سرگرم سعودی قیادت والے عرب اتحادمیں شدیدکشیدگی جاری ہے۔ایک طرف آئینی
صدرکہلانے والے عبدربہ منصورہادی مکمل طورپرسعودی عرب کے زیر اثرہیں
اورریاض میں رہائش پذیرہیں۔دوسری جانب ہادی کے نائب جنرل علی محسن
الاحمدہیں جوروس کے خلاف جنگ میں اپنے خطے میں اہم کردارادا کرتے رہے ہیں
اوریمنی اخوان المسلمون،جماعت الاصلاح سمیت اکثر مقامی اسلام پسندوں سے ان
کے اچھے روابط ہیں۔ وہ عرب حلقوں میں اخوان نواز کہلاتے ہیں،اسی بناء
پرقطرسے جنرل علی محسن الاحمدکے بہترین دیرینہ روابط ہیں۔ جنرل احمدکی
خواہش پرقطرنے ان کے اورجماعت الاصلاح کے رہنماؤں کیلئے ۶۰فلیٹس بھی اپنے
پاس بنوارکھے ہیں تاکہ کسی ہنگامی حالت میں یہ قطرمنتقل ہو جائیں۔یمن کی
بڑی عسکری اورعوامی حمائت جنرل الاحمدکے پاس ہے اور سعودی عرب چاہتاہے کہ
جنرل الاحمد صنعا کے نواحی علاقہ جلدازجلدآزاد کرائیں مگرانہیں کامیابی
نہیں ہورہی۔اسی بناء پرسعودی عرب کی خواہش ہے کہ قطرالاحمد کی حمایت سے
ہاتھ اٹھاکرکمزور کرے توسعودی عرب اس کمزوری سے فائدہ اٹھاسکے۔
یمن میں سعودی عرب کادردِ سرعیدروس زبیدی بھی ہیں جنہیں متحدہ عرب کی حمائت
حاصل ہے۔یہ موصوف اپریل تک عدن کے گورنرتھے ،سعودی نواز ہادی نے اس امارات
نواز کو معزول کردیا۔معزول گورنرنے امارات کے مبینہ اشارہ پرعدن اورجنوبی
یمن میں اپنی خودساختہ انتظامی کونسل بنادی جس کے نائب امارات نوازبانی بن
بریک ہیں۔سعودیہ کواس کونسل پرتحفظات ہیں۔امارات کے زمینی راستے بھی علاقے
میں موجودہیںجوسعودی نوازہادی کے حامیوں کو ڈرا دہمکارہے ہیں اس لئے ہادی
اورسعودی عرب کی مجبوری ہے کہ وہ داخلی انتشار سے بچنے کیلئے جنرل عیدروس
اورامارات کے ساتھ تعاون کریں۔ سعودیہ کوالاحمدسے خطرہ ہے اس لئے اسے
تنہاکرنااورجماعت الاصلاح کے اثرو رسوخ کوکم کرناسعودی عرب اورامارات کی
ترجیح ِالاوّل ہے۔قصر سفیدکے فرعون ٹرمپ کے ٹویٹ کے جواب جر من وزیرخارجہ
زیگماگربیحل نے ٹرمپ پرمشرقِ وسطیٰ میں تنازعہ بھڑکانے کاالزام عائد کرتے
ہوئے کہاکہ اس خطے میں خطرناک ہتھیاروں کی نئی جنگ شروع ہوجائے گی۔ اسی طرح
فرانس اور برطانیہ نے بھی قطرمخالف سعودی مہم کوکوئی اہمیت نہیں دی
اوردولفظوں میں اس طرح بیان کیاجاسکتاہے کہ مسلمان دشمن قوتوں کا ’’گرو‘‘
امریکانے پہلے شیعہ سنی تفریق کوہوادی اوراب سنی کومدمقابل سنی کرنے میں
مصروف ہے مگرافسوس تومسلم حکمرانوں پرہوتاہے کہ وہ کیوں سنی اَن سنی کررہے
ہیں کہ ان کی بربادی کے فیصلے کفرکے ایوان میں ہورہے ہیں۔
قطرکی قدرتی گیس جہاں اس پرنظربدرکھنے والوں کی نگاہ میں ہے ایران اور
قطرکی مشترکہ سمندری حدودمیں ہزروں کلومیٹررقبہ پرپھیلے ہوئے قدرتی گیس کے
ذخیرے کے تحفظ کامعاہدہ قطرنے ایران سے کررکھاہے۔قطرنے یوں سعودی عرب
اورایران اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑرکھے ہیں۔حسن روحانی دوسری مرتبہ ایران
کے صدرمنتخب ہوئے توقطرنے مبارک باددینے میں قطعاً تاخیرنہیں کی۔امریکی
اخبار’’واشنگٹن پوسٹ‘‘کے مطابق قطر قدرتی گیس کاسب سے بڑابرآمدکنندہ ہے
اوریہی گیس سردیوں میں برطانیہ کے دفتروں اورگھروں کوگرم رکھتی ہے۔ایشیائی
منڈیوں کوایندھن فراہم کرتی ہے ،حتیٰ کہ متحدہ امارات کے بجلی گھروں کوبھی
اسی گیس سے چلایاجاتاہے۔ برطانیہ کی ضرورت کا ایک تہائی قطری گیس پوراکرتی
ہے۔رائٹس یونیورسٹی کے قطر پرتحقیق کرنے والے کرسچین کوئٹس کے مطابق
اگرقطری گیس کی ترسیل روک دی جاتی ہے تو اس سے برطانیہ،جاپان،جنوبی
کوریااورچین میں توانائی کابحران پیداہوگااوریہ قطرجس کی اپنی فوج صرف
۱۱؍ہزار۸۰۰؍ نفری پر مشتمل ہے ۔کے پاس قطری گیس،سفارتی بحران کے بیج میںسے
بحفاظت نکال سکتی ہے۔
امریکی سابق وزیرخارہ ہنری کسنجرنے کہاجس کوجنگ کاطبل سنائی نہیں دے رہاوہ
بہرہ ہے۔یہ ہنری کسنجر ہی تھاجس نے اپنے دورِ اقتدارمیں روس کو کہا تھاکہ
ہمیں صرف اسلام سے خطرہ ہے اوراس کامقابلہ باہمی اتحادسے ہی ممکن ہے۔ یہی
وہ شیطانی اوردریدہ دہن صفت شخص ہے جس نے ذوالفقار بھٹوکوایٹمی پروگرام سے
دستبردارنہ ہونے کی صورت میں عبرت کانشان بنانے کی دھمکی دی تھی۔کیاواقعی
موت کاجبڑامزیدمسلم لہوکوچاٹنے کیلئے ہونٹوں پرہوس ناک زبان پھیررہاہے؟کویت
اورپاکستان امن کیلئے سرتوڑکوششوں میں مصروف ہیں کہ یہ شعلہ چنگاری نہ بنے
اوربات ٹھنڈی ہوجائے۔ وزیر اعظم نوازشریف اورچیف آف آرمی سٹاف قمرباجوہ
نے اسی حوالے سے سعودی عرب کادورۂ کیا کہ اس کے حکمرانوں کے غصے
کوٹھنڈاکیاجاسکے۔ مبصرین کہتے ہیں کہ شاہ سلمان نے حال ہی میں اپنے ولی
عہدکوفوری برطرف اورنئے ولی عہدکے ساتھ دوسری کئی اہم تقرریوں کے بعدحالات
کی سنبھلنے کی کچھ امید ہورہی ہے۔
|