جاوید ملک /شب وروز
پانامہ کیس نے حکمران خاندان پر جو شام غریباں طاری کی ہے وہ سمٹتی
دکھائی نہیں دے رہی اب تو وزیر اعظم جب عوامی اجتماعات میں اس احتساب
کو استحصال قرار دیتے ہیں تو ان کی آواز میں گھن گرج سنائی نہیں دیتی
بلکہ لہجہ آنسوؤں سے بھیگا محسوس ہوتا ہے ۔حکمران خاندان کو اس نہج تک
لانے والے اس قدر مطمئن ہیں کہ دوران سماعت عدالت ان کے خراٹوں سے
گونجتی ہے ۔
گزشتہ روز وفاقی دار الحکومت میں ایک سیاسی تقریب کے دوران شاہ محمود
قریشی زور و شور سے وزیر اعظم عمران خان کے نعرے لگواتے رہے اور یہ
نعرے سن کر عمران خان کے چہرے پر وہی مسرت مجھے رقص کرتی دکھائی دی جو
2008ء کے عام انتخابات میں وزیر اعظم پرویز الہی کے فلک شگاف نعروں کے
بعد گجرات کے چوہدریوں کے چہرے پر دکھائی دیتی تھی اور شاید لیاقت باغ
کے اندوہناک سانحہ سے قبل تک کوئی سیاسی طاقت اس قابل دکھائی نہیں دیتی
تھی جو یہ مسرت ان کے چہروں سے نوچ سکے ۔ 27دسمبر کی شام ایک ماتم
لاڑکانہ جبکہ دوسراگجرات میں تھا ایک پارٹی کی قائدنے خاک کا کفن اوڑھا
جبکہ دوسری پوری پارٹی اپنے ارمانوں سمیت دفن ہوگئی ۔
پانامہ کیس کا فیصلہ کچھ بھی ہو عمران خان اس سے جو حاصل کرناچاہتے تھے
وہ کر بیٹھے ۔ گو نواز گوکے نعرے کو جس قدر مقبولیت ان دنوں حاصل ہے اس
سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی عوامی مقبولیت کے قلعے میں شگاف
پڑچکے ہیں ۔ رہی سہی کسر ان کے وکلاء آئے روز کوئی نیا شگوفہ چھوڑ کر
پوری کررہے ہیں اور ان حالات میں یقیناًسیاسی فضا ء عمران خان کیلئے
انتہائی سازگار ہے لیکن اس دیس کا سیاسی موسم سخت نا اعتبار ہے کم ازکم
ماضی تو یہی بتاتا ہے ۔
2002کے عام انتخابات سے قبل وزیر اعظم میاں اظہر کا نعرہ مقبول عام تھا
لیکن موصوف وزیر اعظم تو کیا بنتے رکن اسمبلی بھی نہ بن پائے اور پھر
گمنامیوں کی تاریکی میں ایسے کھوئے کہ دوبارہ ان کا کوئی قابل ذکر
سیاسی کردار کہیں دکھائی نہ دیا ۔اس وقت بھی ملک کو ایک نئے وزیر اعظم
کی تلاش ہے اور تمام کھلاڑی انتہائی مہارت سے اپنی چالیں چل رہے ہیں اب
کا میابی کس کا مقدر بنتی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ؟واقفان
حال کہتے ہیں کہ ’’میاں جی‘‘ کی رخصتی کے بعد اقتدار کی پگ ’’خان ‘‘ کے
سر سجتی دکھائی نہیں دیتی ۔ اگر اس مفروضے کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو
پس پردہ قوتوں کو بہر حال یہ اندازہ ضرور ہوگا کہ عمران خان میاں اظہر
نہیں ہیں اور انہیں دودھ میں سے بال کی طرح نکالنا ممکن نہیں ہوگا۔
گزشتہ روز ایک ایسی شخصیت سے نشت کا موقع میسر آیا جن کی سیاسی فہم و
فراست کا میں عرصہ دراز سے قائل ہوں ان کے ذو معنی جملوں میں اکثر بڑی
حقیقتیں چھپی ہوتی ہیں اس روز بھی مستقبل کے سیاسی منظر نامہ کے حوالے
سے میرے تابڑ توڑ سوالات کے جواب ان کے ہونٹوں پر بڑی معنی خیز مسکراہٹ
تھی ۔ میرے بے پناہ اصرار پر انہوں نے خاموشی کا قفل توڑا اور بولے
’’لگتا ہے نیا چوہدری آرہا ہے ‘‘
’’کون چوہدری ۔۔۔چوہدری پرویز الہی؟ ، چوہدری نثار؟افتخار
چوہدری؟۔۔۔کون آرہا ہے ؟‘‘
’’یہ تو وقت ہی بتائے گا‘‘ وہ ایک اور پہیلی ڈال کر چلتے بنے اور میں
اس وقت سے سیاسی چوہدریوں کی لسٹ بناتا پھررہا ہوں ۔
گجرات کے چوہدری لیگوں کو اکٹھا کرنے کا اعلان کرکے خطرے کی گھنٹی بجا
چکے ہیں ۔چوہدری نثار کی پر اسرار خاموشی کے درپردہ بھی کچھ نہ کچھ تو
ہے ۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری بھی بہت فعال ہیں اور سیاست کے میدان
میں رشتہ داری کے کندہوں پر چڑھ کر کودنے والے چوہدری منیر بھی بہت
سرگرم ہیں ۔ راولپنڈی کے چوہدری تنویر بھی ہیں لیکن وہ اب اپنے بیٹے
دانیال چوہدری کی سیاسی اننگز شروع کروارہے ہیں یا پھر کوئی نیا چوہدری
بالکل نیاسیاسی کردار؟
سیاسی افق پر چھائے کالے سیاہ بادلوں کے چھٹنے کا وقت آگیا ہے آنے والے
چند دن بہت اہم ہیں تاہم موجودہ حکمران اب ٹھہرتے دکھائی نہیں دیتے اب
دیکھنا یہ ہے کہ حکمران جماعت حالات کی پیجیدگی کو سمجھ کر کوئی راستہ
نکالتی ہے یا بحران کو مزید سنگین کرکے محاذ آرائی کا راستہ چنتی ہے
۔۔۔نواز شریف اگر بروقت مستعفی ہو کر اپنا چوہدری سامنے لے آئیں تو یہ
دوسروں کے چوہدریوں سے بہر حال بہتر انتخاب ہوگا کیونکہ جمہوریت اور
مظلومیت کے سکے اس قدر کھوٹے ہوچکے ہیں کہ وہ اب چلتے دکھائی نہیں دیتے
۔اس وقت اگر چل گیا تو وہ حکمت کا سکہ ہوگا اس سے قبل کہ وہ بھی کھوٹا
ہو جائے حکمران خاندان کو یہ تلخ گولی نگل لینی چاہیے ۔ |