قربانی کی ابتداء
حلال جانور کو بنیتِ تقرب ذبح کرنے کی تاریخ حضرت آدم علیہ السلام کے دو
بیٹوں ہابیل وقابیل کی قربانی سے ہی شروع ہوجاتی ہے، یہ سب سے پہلی قربانی
تھی، حق تعالیٰ جل شانہ کا ارشاد ہے:
”واتل علیہم نبأ ابنی آدم بالحق اذ قربا قرباناً فتقبل من احدہما ولم یتقبل
من الآخر“ ۔ (المائدہ:۱۸۳)
ترجمہ:۔”اور آپ اہل کتاب کو آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ صحیح طور پر پڑھ کر
سنا دیجئے، جب ان میں سے ہرایک نے اللہ کے لئے کچھ نیاز پیش کی تو ان میں
سے ایک کی نیاز مقبول ہوگئی، اور دوسرے کی قبول نہیں کی گئی“۔
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس آیت کے تحت حضرت ابن عباس سے روایت نقل
کی ہے کہ ہابیل نے مینڈھے کی قربانی کی اور قابیل نے کھیت کی پیداوار میں
سے کچھ غلہ صدقہ کرکے قربانی پیش کی، اس زمانے کے دستور کے موافق آسمانی آگ
نازل ہوئی اور ہابیل کے مینڈھے کو کھا لیا، قابیل کی قربانی کو چھوڑ دیا۔ (تفسیر
ابن کثیر ۲/۵۱۸، مکتبہ فاروقیہ پشاور)
اس سے معلوم ہوا کہ قربانی کا عبادت ہونا حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے
ہے اور اس کی حقیقت تقریباً ہرملت میں رہی۔البتہ اس کی خاص شان اور پہچان
حضرت ابراہیم وحضرت اسماعیل علیہما السلام کے واقعہ سے ہوئی، اور اسی کی
یادگار کے طور پرامت محمدیہ پر قربانی کو واجب قرار دیا گیا۔
قربانی کی حقیقت قرآن کریم کی روشنی میں
قرآن کریم میں تقریباً نصف درجن آیات مبارکہ میں قربانی کی حقیقت ، حکمت
اور فضیلت و بیان کی گئی ہے ۔سورہ حج میں ہے:
۱۔۲:…والبدن جعلناہا لکم من شعائر الله لکم فیہا خیر فاذکروا اسم اللّٰہ
علیہا صواف، فاذا وجبت جنوبہا فکلوا منہا واطعموا القانع والمعتر، کذٰلک
سخرنا ہا لکم لعلکم تشکرون، لن ینال اللّٰہ لحومہا ولادماؤہا ولکن ینالہ
التقویٰ منکم، کذٰلک سخرناہا لکم لتکبروا اللّٰہ علی ماہداکم وبشر المحسنین“۔
(الحج:۳۶۔۳۷)
ترجمہ:۔”اور ہم نے تمہارے لئے قربانی کے اونٹوں کو عبادت الٰہی کی نشانی
اور یادگار مقرر کیا ہے، ان میں تمہارے لئے اور بھی فائدے ہیں، سو تم ان کو
نحر کرتے وقت قطار میں کھڑا کرکے ان پر اللہ کا نام لیا کرو اور پھر جب وہ
اپنے پہلو پر گر پڑیں تو ان کے گوشت میں سے تم خود بھی کھانا چاہو تو کھاؤ
اور فقیر کو بھی کھلاؤ، خواہ وہ صبر سے بیٹھنے والا ہو یا سوال کرتا پھرتا
ہو، جس طرح ہم نے ان جانوروں کی قربانی کا حال بیان کیا اسی طرح ان کو
تمہارا تابعدار بنایا تاکہ تم شکر بجالاؤ۔اللہ تعالیٰ کے پاس ان قربانیوں
کا گوشت اور خون ہرگز نہیں پہنچتا بلکہ اس کے پاس تمہاری پرہیزگاری پہنچتی
ہے ، اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو تمہارے لئے اس طرح مسخر کردیا ہے تاکہ
تم اس احسان پر اللہ تعالیٰ کی بڑائی کرو کہ اس نے تم کو قربانی کی صحیح
راہ بتائی، اور اے پیغمبر! مخلصین کو خوشخبری سنا دیجئے“۔
سورہ ٴ حج ہی میں دوسرے مقام پر اسے شعائر اللہ میں سے قرار دیتے ہوئے اس
کی عظمت بتائی گئی اورقربانی کی تعظیم کو دل میں پائے جانے والے تقویٰ
خداوندی کا مظہر قرار دیا ہے۔
۳:۔”ومن یعظم شعائر اللّٰہ فانہا من تقویٰ القلوب“۔ (الحج:۳۲)
ترجمہ:…”اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی نشانیوں اور یادگاروں کا پورا احترام
قائم رکھے تو ان شعائر کا یہ احترام دلوں کی پرہیزگاری سے ہواکرتا ہے“۔
سابق انبیاء کرام کی شریعتوں میں قربانی کا تسلسل حضرت عیسی علیہ السلام کی
بعثت تک پہنچتاہے، جس کا طریقہ یہ تھا کہ قربانی ذبح کی جاتی اور وقت کے
نبی دعا مانگتے اور آسمان سے خاص کیفیت کی آگ اترتی اور اسے کھاجاتی جسے
قبولیت کی علامت سمجھا جاتا تھا، قرآن کریم میں ہے:
۴:۔”الذین قالوا ان اللّٰہ عہد الینا الا نؤمن لرسول حتی یأتینا بقربان
تأکلہ النار“۔ (آل عمران:۱۸۳)
ترجمہ:۔”یہ لوگ ایسے ہیں جو یوں کہتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں حکم دے رکھاہے کہ
ہم کسی رسول کی اس وقت تک تصدیق نہ کریں جب تک وہ ہمارے پاس ایسی قربانی نہ
لائے کہ اس کو آگ کھاجائے“۔
قربانی کی تاریخ پہلے انسان ہی سے شروع ہوجاتی ہے
۵:۔”واتل علیہم نبأ ابنی آدم بالحق إذ قربا قرباناً فتقبل من أحدہما ولم
یتقبل من الآخر“۔ (المائدة:۲۷)
ترجمہ:۔”اور آپ اہل کتاب کو آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ صحیح طور پر پڑھ کر
سنا دیجئے جب ان میں سے ہرایک نے اللہ کے لئے کچھ نیاز پیش کی تو ان میں سے
ایک کی نیاز مقبول ہوگئی، اور دوسرے کی قبول نہیں کی گئی“۔
۶…”قل ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للّٰہ رب العالمین“ (انعام:۱۶۲)
آیت بالا کے تحت امام جصاص رازی لکھتے ہیں:
”ونسکی: الأضحیة، لأنہا تسمی نسکاً،وکذلک کل ذبیحة علی وجہ القرابة الی
اللہّٰ تعالیٰ فہی نسک، قال اللّٰہ تعالی: ففدیة من صیام أو صدقة أو نسک“۔
(البقرة:۱۹۶)
ترجمہ:۔”نسک“ سے مراد قربانی ہے، اس لئے کہ اس کا نام ”نسک“ بھی ہے، اسی
طرح ہر وہ جانور جو اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کی نیت سے ذبح کیا جائے
وہ ”نسک“ کہلاتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ففدیة من صیام او صدقة او
نسک“(احکام القرآن ۳/۳۶)
قربانی کے اس حکم کو اللہ تعالیٰ نے ایک اور انداز سے نماز کے تتمے کے طور
پر یوں ذکر فرمایا”فصل لربک وانحر“ ابن کثیر اس آیت کے تحت رقمطراز ہیں:
”قال ابن عباس وعطاء ومجاہد وعکرمة والحسن: یعنی بذلک نحر البدن ونحوہا،
وکذا قال قتادة ومحمد بن کعب القرظی، والضحاک والربیع وعطاء الخراسانی
والحکم واسماعیل بن ابی خالد وغیر واحد من السلف“۔
(ابن کثیر، ۶/۵۵۶، مکتبہ فاروقیہ پشاور)
”حضرت ابن عباس حضرت عطاء ، مجاہد، عکرمہ رحہم اللہ سمیت متعدد مفسرین
فرماتے ہیں کہ وانحر سے اونٹ کا ”نحر“ ہی مطلوب ہے جو قربانی کے لئے جانے
والے جانور میں سے بڑا جانور ہے،،
اس سے فقہاء نے مسئلہ بھی اخذ فرمایا ہے کہ عید الاضحیٰ پڑھنے والے لوگوں
پر لازم ہے کہ وہ نماز عید پہلے ادا کرلیں ،اس کے بعد قربانی کریں، جن
لوگوں پر عید کی نماز فرض ہے اگر انہوں نے عید سے پہلے قربانی کردی تو ان
کی قربانی نہیں ہوگی۔
۸:۔”لیشہدوا منافع لہم ویذکروا اسم اللّٰہ فی ایام معلومات علی ما رزقہم من
بہیمة الانعام فکلوا منہا واطعموا البائس الفقیر“۔ (الحج:۲۸)
ترجمہ:۔”تاکہ یہ سب آنے والے اپنے اپنے فائدوں کی غرض سے پہنچ جائیں اور
تاکہ قربانی کے مقررہ دنوں میں وقت خدا کا نام لیں جو خدانے ان کو عطاء کئے
ہیں، سوائے امت محمدیہ! تم ان قربانیوں میں سے خود بھی کھانا چاہو تو کھاؤ
اور مصیبت زدہ محتاج کو کھلاؤ“۔
اس آیت میں بھی قربانی ہی کا ذکر ہے۔ہرقوم میں نسک اور قربانی رکھی گئی جس
کا بنیادی مقصد خالق کائنات کی یاد، اس کے احکام کی بجاآوری اس جذبے کے
ساتھ کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی عطا اور دین ہے، یہاں بھی انسان کی قلبی
کیفیت کا ایسا انقلاب مقصود ہے کہ وہ مال ومتاع کو اپنا نہ سمجھے بلکہ دل
وجان سے اس عقیدے کی مشق کرے کہ حق تعالیٰ ہی اس کا حقیقی مالک ہے، گویا
قربانی کا عمل فتنہ ٴ مال سے حفاظت کا درس دیتا ہے۔
۹:” ولکل امة جعلنا منسکا لیذکروا اسم اللّٰہ علی مارزقہم من بہیمة
ا۔“(الحج:۳۴)
ترجمہ:۔”اور ہم نے ہر امت کے لئے اس غرض سے قربانی کرنا مقرر کیا تھا کہ وہ
ان چوپایوں کی قسم کے مخصوص جانوروں کو قربانی کرتے وقت اللہ کا نام لیا
کریں جو اللہ نے ان کو عطا کئے تھے“۔
قربانی احادیث مبارکہ کی روشنی میں
۱:۔عن عائشہ قالت: قال رسول اللّٰہﷺ ما عمل ابن آدم من عمل یوم النحر احب
الی اللّٰہ من اہراق الدم وانہ لیأتی یوم القیامة بقرونہا وأشعارہا
وأظلافہا وان الدم لیقع من اللّٰہ بمکان قبل ان یقع بالارض فطیبوا بہا نفسا“۔
(مشکوٰة المصابیح)
ترجمہ:۔”حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ :ابن آدم (انسان)
نے قربانی کے دن کوئی ایسا عمل نہیں کیا جو اللہ کے نزدیک خون بہانے (یعنی
قربانی کرنے) سے زیادہ پسندیدہ ہو، اور قیامت کے دن وہ ذبح کیا ہوا جانور
اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا، اورقربانی کا خون زمین پر
گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہوجاتا ہے، لہذا تم اس کی وجہ سے (قربانی
کرکے) اپنے دلوں کو خوش کرو“۔
۲:۔عن زید بن ارقم قال: قال اصحاب رسول اللّٰہﷺ: یا رسول اللّٰہ! ما ہذہ
الأضاحی؟ قال: سنة أبیکم ابراہیم علیہم السلام، قالوا: فما لنا فیہا یا
رسول اللّٰہ؟ قال: بکل شعرة حسنة، قالوا: فالصوف؟ یا رسول اللّٰہ! قال: بکل
شعرة من الصوف حسنة“ (مشکوٰة:۱۲۹)
ترجمہ:۔”حضرت زید بن ارقم راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے
صحابہ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! یہ قربانی کیا ہے؟ فرمایا: تمہارے
باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ (یعنی ان کی سنت) ہے، صحابہ نے عرض
کیا کہ پھر اس میں ہمارے لئے کیا (اجر وثواب ) ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا: (جانور کے) ہر بال کے بدلے ایک نیکی، انہوں نے عرض کیا کہ (دنبہ
وغیرہ اگر ذبح کریں تو ان کی) اون (میں کیا ثواب ہے؟) فرمایا: کہ اون کے
ہربال کے بدلے ایک نیکی“
۳:۔ عن ابن عباس قال: قال رسول اللّٰہﷺ فی یوم اضحیٰ: ما عمل آدمی فی ہذا
الیوم أفضل من دم یہراق الا ان یکون رحماًتوصل“۔ (الترغیب والترہیب:۲/۲۷۷،)
ترجمہ:۔”حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
عید الاضحیٰ کے دن ارشاد فرمایا: آج کے دن کسی آدمی نے خون بہانے سے زیادہ
افضل عمل نہیں کیا، ہاں، اگر کسی رشتہ دار کے ساتھ حسن سلوک اس سے بڑھ کر
ہو تو ہو“۔
۴:۔ عن ابی سعید قال: قال رسول اللّٰہﷺ یا فاطمة ! قومی الی أضحیتک
فاشہدیہا، فان لک بأول قطرة تقطر من دمہا ان یغفرلک ما سلف من ذنوبک۔ قالت:
یا رسول اللّٰہ! ألنا خاصة أہل البیت أو لنا وللمسلمین؟ قال: بل لنا
وللمسلمین“۔
ترجمہ:۔”حضرت ابو سعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی
بیٹی حضرت فاطمہ سے) فرمایا: اے فاطمہ! اٹھو اور اپنی قربانی کے پاس رہو (یعنی
اپنی قربانی کے ذبح ہوتے وقت قریب موجود رہو) کیونکہ اس کے خون کا پہلا
قطرہ زمین پر گرنے کے ساتھ ہی تمہارے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے،
حضرت فاطمہ نے عرض کیا اللہ کے رسول! یہ فضیلت ہم اہل بیت کے ساتھ مخصوص
ہے یا عام مسلمانوں کے لئے بھی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہمارے
لئے بھی ہے اور تمام مسلمانوں کے لئے بھی“۔
۵:۔” عن علی ان رسول اللّٰہﷺ قال: یا فاطمة! قومی فاشہدی أضحیتک، فان لک
بأول قطرة تقطر من دمہا مغفرة لکل ذنب، أما انہ یجاء بلحمہا ودمہا توضع فی
میزانک سبعین ضعفا۔ قال ابوسعید: یا رسول اللّٰہ! ہذا لآل محمد خاصة، فانہم
أہل لما خصوا بہ من الخیر، أو للمسلمین عامة؟ قال: لآل محمد خاصة،
وللمسلمین عامة“۔ (الترغیب والترہیب:۲/۲۷۷۔۲۷۸)
ترجمہ:۔”حضرت علی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حضرت
فاطمہ سے) فرمایا: اے فاطمہ! اٹھو اور اپنی قربانی کے پاس (ذبح کے وقت )موجود
رہو، اس لئے کہ اس کے خون کا پہلا قطرہ گرنے کے ساتھ ہی تمہارے تمام گناہ
معاف ہوجائیں گے، یہ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے گوشت اور خون کے
ساتھ لایا جائے گا اور تمہارے ترازو میں ستر گنا(زیادہ) کرکے رکھا جائے گا،
حضرت ابوسعید نے عرض کیا :اللہ کے رسول! یہ فضیلت خاندان نبوت کے ساتھ
خاص ہے جو کسی بھی خیر کے ساتھ مخصوص ہونے کے حقدار ہیں یا تمام مسلمانوں
کے لئے ہے؟ فرمایا: یہ فضیلت آلِ محمد کے لئے خصوصاً اور عموماً تمام
مسلمانوں کے لئے بھی ہے“۔
۶:۔”عن علی عن النبیﷺ قال: یا أیہا الناس! ضحوا واحتسبوا بدمائہا، فان
الدم وان وقع فی الأرض، فانہ یقع فی حرز اللّٰہ عز وجل۔ (ایضاً:۲۷۸)
ترجمہ:۔”حضرت علی سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اے لوگو! تم قربانی کرو اور ان قربانیوں کے خون پر اجر وثواب کی امید رکھو،
اس لئے کہ (ان کا) خون اگرچہ زمین پر گرتا ہے لیکن، وہ اللہ تعالیٰ کی حفظ
وامان میں چلاجاتاہے“۔
۷:۔”عن ابن عباس قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ”ما انفقت الورق فی شئ أحب الی
اللّٰہ من نحر ینحر فی یوم عید“۔ (أیضاً)
ترجمہ:۔”حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: چاندی (یا کوئی بھی مال) کسی ایسی چیز میں خرچ نہیں کیا گیا جو
اللہ کے نزدیک اس اونٹ سے پسندیدہ ہو جو عید کے دن ذبح کیا گیا“۔
۸:۔”عن ابی ہریرة قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ ”من وجد سعة لأن یضحی فلم یضح،
فلایحضر مصلانا“۔ (أیضاً)
ترجمہ:۔”حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: جو شخص قربانی کرنے کی گنجائش رکھتا ہو پھر بھی قربانی نہ کرے تو
وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے“۔
۹:’۔’عن حسین بن علی قال:قال رسول اللّٰہﷺ من ضحی طیبة نفسہ محتسباً
لأضحیتہ کانت لہ حجاباً من النار۔ (أیضاً)
ترجمہ:۔”حضرت حسین بن علی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: جو شخص خوش دلی کے ساتھ اجر وثواب کی امید رکھتے ہوئے قربانی کرے
گا تو وہ اس کے لئے جہنم کی آگ سے رکاوٹ بن جائے گی“۔
قربانی کافلسفہ
”والثانی: یوم ذبح ابراہیم ولدہ اسماعیل علیہما السلام، وانعام اللّٰہ
علیہما: بأن فداہ بذبح عظیم، اذ فیہ تذکر حال ائمة الملة الحنیفیة
والاعتبار بہم فی بذل المہج، والأموال فی طاعة اللّٰہ، وقوة الصبر، وفیہ
تشبہ بالحاج، وتنویہ بہم، وشوق لماہم فیہ ولذلک سن التکبیر“۔ (حجة اللہ
البالغة،:۲/۱۰۰ )
ترجمہ:۔”اور دوسرا (عید الاضحیٰ) وہ دن ہے کہ جس میں حضرت ابراہیم علیہ
السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ذبح (کاارادہ کیا)، اور
اللہ کا ان پر انعام ہوا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بدلے عظیم ذبیحہ (جنتی
مینڈھا) عطا فرمایا، اس لئے کہ اس میں ملت ابراہیمی کے ائمہ کے حالات کی
یاد دہانی ہے، اللہ کی اطاعت میں ان کے جان ومال کو خرچ کرنے اور انتہائی
درجہ صبر کرنے کے واقعہ سے لوگوں کو عبرت دلاتا مقصود ہے، نیز اس میں
حاجیوں کے ساتھ مشابہت ہے اور ان کی عظمت ہے اور جس کام میں وہ مشغول ہیں
اس میں ان کو رغبت دلانا ہے، یہی وجہ ہے کہ تکبیرات (تشریق) کو مسنون کیا
گیا ہے“۔
قربانی کی حقیقت
مندرجہ بالا آیات واحادیث کی روشنی میں قربانی کی حقیقت معلوم ہوئی، اس کو
مختصر الفاظ میں بیان کرنا چاہیں تو یوں کہا جاسکتا ہے۔
۱…قربانی سنت ابراہیمی کی یادگار ہے۔
۲…قربانی کی ایک صورت ہے اور ایک روح ہے، صورت تو جانور کا ذبح کرنا ہے،
اور اس کی حقیقت ایثار نفس کا جذبہ پیدا کرنا ہے اور تقرب الی اللہ ہے۔ (سنت
حضرت خلیل ،قاری طیب ص:۹)
اصل میں قربانی کی حقیقت تو یہ تھی کہ عاشق خود اپنی جان کو خدا تعالیٰ کے
حضور پیش کرتا مگر خدا تعالیٰ کی رحمت دیکھئے، ان کو یہ گوارا نہ ہوا اس
لئے حکم دیاکہ تم جانور کو ذبح کرو ہم یہی سمجھیں گے کہ تم نے خود اپنے آپ
کو قربان کردیا۔اس واقعہ (ذبح اسماعیل علیہ السلام) سے معلوم ہوا کہ ذبح کا
اصل مقصد جان کو پیش کرنا ہے، چنانچہ اس سے انسان میں جاں سپاری اور جاں
نثاری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اوریہی اس کی روح ہے تو یہ روح صدقہ سے کیسے
حاصل ہوگی؟ کیونکہ قربانی کی روح تو جان دینا ہے اور صدقہ کی روح مال دینا
ہے، نیز صدقہ کے لئے کوئی دن مقرر نہیں مگر اس کے لئے ایک خاص دن مقرر کیا
گیا ہے اور اس کا نام بھی یوم النحر اور یوم الاضحیٰ رکھا گیا ہے۔ (ایضاً،ص:۱۶)
قربانی کی اصل حکمت وفلسفہ
حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”والسر فی الہدی التشبة بفعل سیدنا ابراہیم علیہ السلام فیما قصد من ذبح
ولدہ فی ذلک المکان طاعةً لربہ، وتوجہاً الیہ، والتذکر لنعمة اللّٰہ بہ
وبأبیہم اسماعیل علیہ السلام، وفعل مثل ہذا الفعل فی ہذا الوقت والزمان
ینبہ والنفس ایّ تنبہ۔ وانما وجب علی المتمتع والقارن شکراً لنعمة اللّٰہ
حیث وضع عنہم امر الجاہلیة فی تلک المسئلة۔ (حجة اللّٰہ البالغة، ابواب
الحج، ۲/۶۸
ترجمہ:”(حج کے موقع پر) ہدی میں حکمت یہ ہے کہ اس میں حضرت ابراہیم علیہ
السلام کے ساتھ مشابہت ہے، انہوں نے اپنے رب کے حکم بجا آوری اور اس کی طرف
توجہ کی نیت سے اس جگہ اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنا
چاہا تھا) اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام پر جو انعامات کیے ہیں،
ان کی یاد دہانی ہوتی ہے، اور حج تمتع وقران کرنے والے پر یہ ہدی واجب ہے ،تاکہ
اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا شکرادا ہو کہ اس نے معاملے میں جاہلیت کے وبال
کو دور کردیا“۔
قربانی کا حکم
قربانی کی دو قسمیں ہیں ایک واجب،دوسری مستحب:
اگر کوئی آدمی، عاقل ، بالغ آزاد، مقیم، مسلمان اور مالدار ہو تو اس پر
قربانی کرنا واجب ہے، اور قربانی نہ کرنے کی وجہ سے وہ گنہگار ہوگا۔
اگر کوئی مسلمان سفر میں ہو یا فقیر وغریب ہو یا محتاج ہو اور قربانی کرے
تو یہ مستحب ہے۔ جس طرح زکوٰة صاحب نصاب مسلمان پر الگ الگ لازم ہوتی ہے ۔
اسی طرح قربانی بھی ہرصاحب نصاب پر الگ الگ لازم ہوگی ،چنانچہ ایک قربانی
ایک گھرانے کی طرف سے کافی ہونے کا خیال درست نہیں ہے اور ہر مالدار مقیم
مسلمان شخص پر قربانی اس کے اپنے نفس اور ذات پر واجب ہوتی ہے، اس لئے پورے
گھر، خاندان یا کنبے کی طرف سے ایک آدمی کی قربانی کافی نہیں ہوگی، بلکہ ہر
صاحب نصاب پر الگ الگ قربانی لازم ہوگی، ورنہ سب لوگ گنہگار ہوں گے، ہاں
مردوں کے ایصال ثواب کے لئے ایک قربانی کئی افراد کے ثواب کی نیت سے کرسکتے
ہیں۔
مردوں کے ایصال ثواب کے لئے یا زندہ لوگوں کو ثواب پہنچانے کے لئے قربانی
کرنا جائز ہے، اگر کسی آدمی نے قربانی کی نذر مانی یا فقیرنے قربانی کی نیت
سے جانور خریدا تو ان پر قربانی واجب ہے۔
وجوب قربانی کی شرائط
کسی شخص پر قربانی اس وقت واجب ہوتی ہے جب اس میں چھ شرائط پائی جائیں: اگر
ان میں سے کوئی ایک شرط بھی نہ پائی جائے تو قربانی کا وجوب ساقط ہوجائے گا
اور قربانی واجب نہ رہے گی۔
۱:۔: عاقل ہونا، کسی پاگل ، مجنون وغیرہ پر قربانی واجب نہیں۔
۲:۔: بالغ ہونا، نابالغ پر قربانی نہیں خواہ مالدار ہی ہو، اگر کوئی ایام
قربانی میں بالغ ہوا اور مالدار ہے تو اس پر قربانی واجب ہے۔
۳۔:آزاد ہونا، غلام پر قربانی نہیں۔
۴۔: مقیم ہونا، مسافر پر قربانی واجب نہیں۔ ہاں! اگر مسافر مالدار ہے اور
قربانی کرتا ہے تو ا س کوقربانی کرنے کا ثواب ضرور ملے گا۔
۵۔: مسلمان ہونا، غیر مسلم (خواہ کسی مذہب کا ہو) پر قربانی واجب نہیں۔ہاں
اگر کوئی غیر مسلم ایام قربانی میں مسلمان ہوگیا اور وہ صاحب نصاب ہو تو اس
پر بھی قربانی واجب ہے۔
۶۔: صاحب نصاب ہونا، (صاحب نصاب کی تفصیل آگے آرہی ہے ان شاء اللہ) لہذا
فقیر پر قربانی واجب نہیں، لیکن اگر فقیر اپنی خوشی سے قربانی کرے تو اسے
ثواب ملے گا۔اگر کسی آدمی کے پاس نصاب کی مقدار رقم موجود ہو مگر اس پر
اتنا قرض ہو جو اگر وہ ادا کرے تو اس کو صاحب نصاب ہونے سے نکال دے، ایسے
شخص پر قربانی واجب نہیں، خلاصہ یہ ہے کہ ہرعاقل، بالغ، آزاد ، مقیم،
مسلمان اور صاحب نصاب پر قربانی واجب ہے۔
وجوب قربانی کا نصاب
قربانی ہر اس عاقل، بالغ، مقیم، مسلمان پر واجب ہوتی ہے جو نصاب کا مالک ہو
یا اس کی ملکیت میں ضرورتِ اصلیہ سے زائد اتنا سامان ہو جس کی مالیت نصاب
تک پہنچتی ہو اور اس کے برابر ہو، نصاب سے مراد یہ ہے کہ اس کے پاس ساڑھے
باون تولہ صرف سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کے برابر نقد
رقم ہو یا ضرورت اصلیہ سے زائد اتنا سامان ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ
چاندی کے برابر ہو۔
واضح رہے کہ ضرورت ِ اصلیہ سے مراد وہ ضرورت ہے جو انسان کی جان یا اس کی
عزت وآبرو کی حفاظت کے لئے ضروری ہو، اس ضرورت کے پورا نہ ہونے کی صورت میں
جان جانے یا ہتکِ آبرو کا اندیشہ ہو مثلاً کھا نا، پینا، رہائش کا مکان،
پہننے کے کپڑے، اہل صنعت وحرفت کے اوزار، سفر کی گاڑی، سواری وغیرہ، نیز اس
کے لئے اصول یہ ہے کہ جس پر صدقہ ٴ فطر واجب ہے اس پر قربانی بھی واجب ہے
یعنی نصاب کے مال کا تجارت کے لئے ہونا یا اس پر سال گذرنا ضروری نہیں۔
چونکہ نصاب کے لئے ضرورتِ اصلیہ سے زائد مال کا اعتبار ہوتا ہے، اس لئے یاد
رکھنا چاہئے کہ بڑی بڑی دیگیں، بڑے فرش، شامیانے، ریڈیو، ٹیپ ریکارڈر، عام
ریکارڈر، ٹیلی ویژن، وی سی آر، یہ ضرورت میں داخل نہیں، اگر ان کی قیمتیں
نصاب تک پہنچ جائیں تو بھی ایسے شخص پر قربانی واجب ہوگی۔
اگر کسی کے پاس مالِ تجارت مثلاً شیئرز، جیولری کا کام، فریج، گاڑیاں،
پنکھے وغیرہ کسی طرح کا مال ہو اور بقدر نصاب یا اس سے زیادہ ہو تو اس پر
بھی قربانی واجب ہے۔ اگر کوئی فقیر آدمی قربانی کے ایام میں سے کسی دن بھی
صاحب نصاب ہوگیا تو اس پر قربانی واجب ہوجائے گی۔اگر کوئی صاحب نصاب کافر
قربانی کے ایام میں مسلمان ہوجائے تو اس پر قربانی لازم ہوگی۔اگر عورت صاحب
نصاب ہو تو اس پر بھی قربانی واجب ہے، بیوی کی قربانی شوہر پر لازم نہیں،
اگر بیوی کی اجازت سے کرلے تو ہوجائے گی۔
بعض لوگ نام بدل کر قربانی کرتے رہتے ہیں باوجود یہ کہ دونوں میاں بیوی
صاحب نصاب ہوتے ہیں مثلاً ایک سال شوہر کے نام سے، دوسرے سال بیوی کے نام
سے، تو اس سے قربانی ادا نہیں ہوتی، بلکہ ہر صاحب نصاب میاں، بیوی پر
علیحدہ علیحدہ قربانی ہوتی ہے۔
اگر کسی کے پاس اپنی ضرورت سے زائد مکان ہے خواہ کرائے پر ہی ہو تو اگر اس
کی مالیت نصاب کی تکمیل کرے یا اس سے زیادہ ہو تو ایسے شخص پر بھی قربانی
واجب ہوگی۔ نیز اگر کوئی شخص اپنے مکان میں نہ رہتا ہو خواہ خود کرایہ کے
مکان میں ہی کیوں نہ رہتا ہو اس پر قربانی واجب ہے، کیونکہ وہ اس کی ضرورت
سے زائد ہے، کرایہ پر دی ہوئی ہرچیز اگر اس کی قیمت نصاب کو پہنچ جائے تو
اس پر زکوٰة واجب ہے یعنی اس کے مالک پر۔اگر بیوی کا مہر مؤجل (یعنی ادھار)
ہے جو شوہر نے ابھی تک نہیں دیا اور وہ نصاب کے برابر ہے تو اس پر قربانی
واجب نہیں ہے۔اور اگر مہر معجل (یعنی فوری طور پر نقد) ہے اور نصاب کے
برابر یا اس سے زیادہ ہے تو اس پر بھی قربانی واجب ہے۔اگر مشترک کاروبار کی
مالیت تقسیم کے بعد ہرایک کو بقدر نصاب یا اس سے زائد پہنچتی ہو تو سب پر
زکوٰة واجب ہوگی۔ اگر کاشتکار، کسان کے پاس ہل چلانے اور دوسری ضرورت سے
زائد اتنے جانور ہوں جو بقدر نصاب ہوں تو اس پر قربانی ہوگی اور اگروہ
جانور نصاب کی مقدار کے برابر نہ ہوں تو واجب نہ ہوگی۔اگر کسی کے پاس کتب
خانہ ہے اور مطالعہ کے لئے کتب رکھی ہیں تو اگر وہ خود تعلیم یافتہ نہیں
اور کتابوں کی قیمت نصاب تک پہنچی ہوئی ہے تو اس پر قربانی واجب ہے اور اگر
صورت مذکورہ میں وہ تعلیم یافتہ ہے تو قربانی واجب نہیں ہوگی۔ہر سرکاری
وغیر سرکاری ملازم جس کی تنخواہ اخراجات نکالنے کے بعد نصاب کی بقدر یا اس
سے زائد بچ جائے تو اس پر قربانی واجب ہے۔
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , ذوالقعدہ:۱۴۳۱ھ -نومبر: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ
11
https://www.banuri.edu.pk/ur/node/1210 |