بدعت ائمہ اور محدثین کے نزدیک ٨

(9) اِمام شہاب الدین احمد القرافی المالکی رحمۃ اللہ علیہ (684ھ) :-

معروف مالکی فقیہ اِمام شہاب الدین احمد بن ادریس القرافی تفصیل کے ساتھ بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے اپنی کتاب الفروق میں رقمطراز ہیں :

11. البدعة خمسة اقسام (القسم الأول) واجب و هو ما تتناوله قواعد الوجوب وادلته من الشرع کتدوين القرآن والشرائع اذا خيف عليها الضياع فان التبليغ لمن بعدنا من القرون واجب اجماعا و أهمال ذلک حرام اجماعا فمثل هذا النوع لا ينبغي ان يختلف في وجوبه (القسم الثاني) محرم و هو بدعة تناولتها قواعد التحريم و ادلته من الشريعة کالمکوس والمحدثات من المظالم المنافية لقواعد الشريعة کتقديم الجهال علي العلماء و تولية المناصب الشرعية من لا يصلح لها بطريق التوارث و جعل المستند لذلک کون المنصب کان لابيه و هو في نفسه ليس باهل (القسم الثالث) من البدع مندوب اليه و هو ما تناولته قواعد الندب وادلته من الشريعة کصلاة التراويح و اقامة صور الائمة والقضاء وولاة الامور علي خلاف ما کان عليه أمر الصحابة بسبب ان المصالح والمقاصد الشرعية لا تحصل الا بعظمة الولاة في نفوس الناس و کان الناس في زمن الصحابة معظم تعظيمهم انما هو بالدين و سابق الهجرة ثم اختل النظام و ذهب ذلک القرن وحدث قرن آخر لا يعظمون الا بالصور فيتعين تفخيم الصور حتي تحصل المصالح و قد کان عمر يا کل خبز الشعير والملح و يفرض لعامله نصف شاة کل يوم لعلمه بان الحالة التي هو عليها لوعملها غيره لهان في نفوس الناس ولم يحترموه و تجاسروا عليه بالمخالفة فاحتاج الي ان يضع غيره في صورة اخري لحفظ النظام ولذلک لما قدم الشام ووجد معاوية بن أبي سفيان قد اتخذ الحجاب و أرخي الحجاب واتخذ المراکب النفيسة والثياب الهائلة العلية و سلک ما يسلکه الملوک فسأله عن ذلک فقال انا بأرض نحن فيها محتاجون لهذا فقال له لا أمرک ولا انهاک و معناه أنت اعلم بحالک هل انت محتاج الي هذا فيکون حسنا أو غير محتاج اليه فدل ذلک من عمر وغيره علي ان احوال الائمة و ولاة الامور تختلف باختلاف الاعصار والامصار والقرون والاحوال فلذلک يحتاجون الي تجديد زخارف و سياسات لم تکن قديما و ربما وجبت في بعض الاحوال (القسم الرابع) بدع مکروهة و هي ما تناولته ادلة الکراهة من الشريعة وقواعدها کتخصيص الايام الفاضلة او غيرها بنوع من العبادات و من ذلک في الصحيح ما خرجه مسلم وغيره ان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم نهي عن تخصيص يوم الجمعة بصيام أوليلته بقيام ومن هذا الباب الزيادة في المندوبات المحدودات کما ورد في التسبيح عقيب الصلوات ثلاثة وثلاثين فيفعل مائة وورد صاع في زکاة الفطر فيجعل عشرة آصع بسبب ان الزيادة فيها اظهار الاستظهار علي الشارع وقلة ادب معه بل شان العظماء اذا حددوا شيئا وقف عنده والخروج عنه قلة ادب والزيادة في الواجب أو عليه أشد في المنع لانه يؤدي الا ان يعتقد ان الواجب هو الاصل والمزيد عليه ولذلک نهي مالک عن ايصال ست من شوال لئلا يعتقد انها من رمضان و خرج ابو داود في سننه ان رجلا دخل الي مسجد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فصلي الفرض وقام ليصلي رکعتين فقال له عمر بن الخطاب اجلس حتي تفصل بين فرضک و نفلک فبهذا هلک من کان قبلنا فقال له عليه السلام أصاب اﷲ بک يا ابن الخطاب يريد عمر ان من قبلنا و صلوا النوافل بالفرائض فاعتقدوا الجميع واجبا و ذلک تغيير للشرائع و هو حرام اجماعا (القسم الخامس) البدع المباحة و هي ما تناولته ادلة الاباحة وقواعدها من الشريعة کاتخاذ المناخل للدقيق ففي الاثار اول شيء احدثه الناس بعد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم اتخاذ المناخل للدقيق لان تليين العيش و اصلاحه من المباحات فوسائله مباحة.

’’بدعت کی پانچ اقسام ہیں۔ ان میں سے پہلی قسم واجب ہے اور یہ وہ بدعت ہے جو قواعد وجوب پر مشتمل ہو اور اس کی دلیل شریعت میں موجود ہو جیسے ضائع ہونے کے ڈر سے قرآن مجید اور شریعت کی تدوین۔ بے شک ہمارے بعد آنے والوں کے لیے تبلیغ کرنا اجماعاً واجب ہے اور اسے چھوڑ دینا اجماعا حرام ہے۔ اس طرح کی چیزوں کے وجوب میں اختلاف کرنا درست نہیں ہے۔ دوسری قسم بدعت محرومہ ہے۔ یہ وہ بدعت ہے جس کی دلیل شریعت میں حرام کے قواعد کے مطابق ہو۔ جیسے ٹیکس اور ایسے نئے ظالمانہ امور جو کہ قواعد شریعت کے منافی ہوں۔ جیسے جھلاء کو علماء پر فوقیت دینا اور شریعت کے کسی ایسے عہدے پر فائز کرنا جو وراثتی طریقے سے اس کے لیے درست نہ ہو اور اس منصب کو اس شخص کے لیے درست قرار دیا جائے جو کہ اس کے باب کے لیے تھا اور وہ بذات خود اس منصب کا اہل نہ ہو اور تیسری قسم بدعت مستحبہ ہے اور یہ وہ بدعت ہے جو قواعد استحباب پر مشتمل ہو اور شریعت میں اس کی حمایت میں دلائل موجود ہوں جیسا کہ نماز تراویح اور امر صحابہ کے خلاف (مصلحت و خیر کے پیش نظر) حکمرانان وقت، قاضیوں اور اہم منصب داروں کی تصویروں کو آویزاں کرنا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بے شمار مصالح اور شرعی مقاصد لوگوں کے دلوں میں حکمرانوں کی عظمت ڈالے بغیر حاصل نہیں ہوسکتے صحابہ کے زمانے میں صحابہ کے دین اور سابق الھجرہ ہونے کی وجہ سے لوگ ان کی تعظیم کرتے تھے پھر نظام درہم برہم ہوگیا اور وہ زمانہ گزرگیا اور نیا زمانہ آگیا اس زمانہ میں لوگ تصویروں کے بغیر کسی کی عظمت نہیں کرتے تھے لہٰذا تصویروں کی حیثیت کو تسلیم کرلیا گیا۔ یہاں تک کہ متعلقہ مصلحتیں حاصل ہوگئیں اور اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود تو جو کی روٹی اور نمک کھایا کرتے تھے جبکہ اپنے عاملین کے لئے آدھی بکری روزانہ مقرر کر رکھی تھی کیونکہ اگر دوسرے عاملین بھی اسی طریقہ پر عمل کرتے جس پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ خود تھے تو وہ عوام الناس کی نظروں میں گرجاتے اور لوگ ان کا احترام نہ کرتے اور ان کی مخالفت پر اتر آتے لہٰذا یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ کسی دوسرے کو کسی اور شکل میں نظام کی حفاظت کے لیے تیار کیا جائے اور اسی طرح جب آپ شام گئے تو آپ نے معاویہ رضی اللہ عنہ بن ابی سفیان کو اس حالت میں دیکھا کہ وہ پردہ کئے ہوئے اور پردہ لٹکائے ہوئے تھے اور ان کے پاس خوبصورت سواری اور اعليٰ رعب دار کپڑے تھے اور آپ اس طرح پیش آتے جس طرح بادشاہ پیش آتے تھے پھر اس کے بارے میں ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا ہم ایسے علاقے میں ہیں جہاں ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ لہٰذا سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ نہ میں تمہیں اس کا حکم دیتا ہوں اور نہ منع کرتا ہوں اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنے احوال کو بہتر جانتے ہو کہ تمہیں اس کی ضرورت ہے کہ نہیں اور اگر ضرورت ہے تو یہ بہتر ہے۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دوسروں کے نظائر (Precedents) سے یہ دلیل ملتی ہے کہ ائمہ کے احوال اور امور سلطنت، زمانے، شہروں، صدیوں کے اختلاف سے مختلف ہوتے ہیں۔ اس طرح انہیں حسن معاملات اور حسن سیاسیات میں تنوع کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ یہ احوال پرانے نہ ہوجائیں اور بعض اوقات یہ مصلحتیں واجب ہوجاتی ہیں اور چوتھی قسم بدعت مکروہ کی ہے اور یہ وہ ہے جو شریعت اور اس کے قواعد میں سے دلائل کراہت پر مشتمل ہو جیسے بعض فضیلت والے اور بابرکت ایام کو عبادات کے لئے مخصوص کرنا۔ اس کی مثال وہ روایت ہے جسے امام مسلم اور دیگر نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمعہ کے دن روزہ رکھنے اور اسی رات کو قیام کے لئے مختص کرنے کو منع کیا ہے۔ اور اسی طرح اس باب میں محدود مندوبات کو زیادہ کرنا جیسے نمازوں کے بعد تینتیس بار تسبیح کرنا آیا ہے پھر ان کو سو بار کیا جائے، اور اسی طرح زکوٰۃ فطر کے لیے ایک صاع دینا آیا ہے پھر اسے دس صاعات بنا دیا جائے یہ اس وجہ سے ہے کہ ان امور میں زیادتی شارع پر جرات اور اس کی بے ادبی ہے۔ پس عظیم لوگوں کی شان یہ ہے کہ اگر انہیں کسی امر سے روکا جائے تو وہ رک جائیں کیونکہ اس حکم سے سرتابی سوئے ادب ہے۔ لہٰذا واجب میں زیادتی یا واجب پر زیادتی سخت منع ہے۔ کیونکہ اس طرح یہ اعتقاد پنپتا ہے کہ واجب اور اس پر زیادتی دونوں واجب ہیں۔ جیسا کہ امام مالک نے شوال کے چھ (روزوں کو) ملانے سے منع کیا ہے۔ کہیں ایسا نہ سمجھا جائے کہ یہ بھی رمضان میں سے ہیں اسی طرح امام ابوداؤد نے اپنی سنن میں ذکر کیا ہے کہ ایک آدمی مسجد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں داخل ہوا پھر اس نے فرض نماز ادا کی اور ساتھ ہی کھڑا ہو گیا تاکہ دو رکعتیں (نفل) پڑھے۔ تو اسے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بیٹھ جاؤ۔ یہاں تک کہ تو اپنے فرض اور نفل میں فرق کرے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اسی وجہ سے ہم سے پہلے لوگ ہلاک ہو گئے تو پھر اسے آقا علیہ السلام نے فرمایا اے ابن خطاب اللہ تعاليٰ نے تجھے درست پایا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مراد یہ تھی کہ ہم سے پہلے لوگوں نے نوافل کو فرائض کے ساتھ ملا دیا انہوں نے یہ یقین کر لیا کہ یہ تمام واجبات میں سے ہیں اور یہ شریعت میں تغیر ہے جو کہ اجماعاً حرام ہے اور پانچویں قسم بدعت مباح ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی چیز کی دلیل شریعت کے قواعد و ضوابط میں اباحت کے اصولوں کے مطابق ہو جیسا کہ آٹا چھاننے کے لیے چھلنی کا استعمال کرنا اور آثار میں پہلی چیز جو لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ایجاد کی وہ تھی ’’اتخاذ المناخل للدقیق‘‘ یعنی آٹا چھاننے کے لئے چھلنی کا استعمال کیونکہ زندگی میں لوگوں کی طبیعت میں نرمی ہونا اور اس کی اصلاح کرنا مباحات میں سے ہے اور اس کے تمام وسائل بھی مباح میں سے ہیں۔‘‘

القرافي، انوار البروق في انوار الفروق، 4 : 202 - 205

(10) علامہ جمال الدین محمد بن مکرم ابن منظور الافریقی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 711ھ) :-

علامہ جمال الدین ابن منظور افریقی اپنی معروف کتاب ’’لسان العرب‘‘ میں علامہ ابن اثیر جزری کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ حدیث پاک ’’کل محدثۃ بدعۃ‘‘ سے مراد صرف وہ کام ہے جو شریعت مطہرہ کے خلاف ہو اور وہ بدعت جو شریعت سے متعارض نہ ہو وہ جائز ہے۔ لکھتے ہیں :

12. البدعة : الحدث وما ابتدع من الدين بعد الإکمال. ابن السّکيت : البدعة کل محدثة و في حديث عمر رضي الله عنه في قيام رمضان ’’نعمتِ البدعة هذه‘‘(1) ابن الأثير : البدعة بدعتان : بدعة هدًي، و بدعة ضلال، فما کان في خلاف ما أمر اﷲ به و رسوله صلي الله عليه وآله وسلم فهو في حيز الذّم والإنکار، وما کان واقعا تحت عموم ما ندب اﷲ إليه و حضَّ عليه اﷲ أو رسوله فهو في حيّز المدح، وما لم يکن له مثال موجود کنوع من الجود والسّخاء و فعل المعروف فهو من الأفعال المحمودة، ولا يجوز أن يکون ذلک في خلاف ما ورد الشرع به؛ لأن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قد جعل له في ذلک ثوابا فقال : (من سنّ سُنة حسنة کان له أجرها و أجر من عمل بها) وقال في ضِدّه : (من سنّ سنة سيّئة کان عليه وزرُها ووِزرُ من عمل بها)(2) وذلک إذا کان في خلاف ما أمر اﷲ به ورسوله صلي الله عليه وآله وسلم ، قَالَ : ومن هذا النوع قول عمر رضی الله عنه : نِعمت البدعة هذه، لمَّا کانت من أفعال الخير وداخلة في حيز المدح سماها بدعة ومدحها لأن النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، لم يسُنَّها لهم، و إنما صلَّاها ليالي ثم ترکها ولم يحافظ عليها ولا جمع الناس لها ولا کانت في زمن أبي بکر رضی الله عنه، وإنما عمر رضی الله عنه جمع الناس عليها و ندبهم إليها، فبهذا سمّاها بدعة، وهي علي الحقيقة سنَّة، لقوله صلي الله عليه وآله وسلم (عليکم بسنَّتي و سنَّة الخلفاء الراشدين من بعدي)(3) وقوله صلي الله عليه وآله وسلم : (اقتدوا باللذين من بعدي أبي بکر و عمر)(4) و علي هذا التأويل يحمل الحديث الآخر (کل محدثة بدعة) إنما يريد ما خالف أصول الشريعة ولم يوافق السُّنَّة. (5)

’’بدعت سے مراد احداث ہے یا ہر وہ کام جو اکمالِ دین کے بعد کسی دینی مصلحت کے پیش نظر شروع کیا گیا ہو۔ ابن سکیت کہتے ہیں کہ ہر نئی چیز بدعت ہے جیسا کہ قیام رمضان کے حوالے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے نعمت البدعۃ ہذہ. ابن اثیر کہتے ہیں بدعت کی دو قسمیں ہیں، بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ. جو کام اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے خلاف ہو وہ مذموم اور ممنوع ہے، اور جو کام کسی ایسے عام حکم کا فرد ہو جس کو اللہ تعاليٰ نے مستحب قرار دیا ہو یا اللہ تعاليٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم پر برانگیختہ کیا ہو تو یہ اَمرِمحمود ہے اور جن کاموں کی مثال پہلے موجود نہ ہو جیسے سخاوت کی اقسام اور دوسرے نیک کام، وہ اچھے کام ہیں بشرطیکہ وہ خلاف شرع نہ ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے کاموں پر ثواب کی بشارت دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس شخص نے اچھے کام کی ابتداء کی اس کو اپنا اجر بھی ملے گا اور جو لوگ اس کام کو کریں گے ان کے عمل کا اجر بھی ملے گا اور اس کے برعکس یہ بھی فرمایا : جس شخص نے برے کام کی ابتداء کی اس پر اپنی برائی کا وبال بھی ہو گا اور جو اس برائی کو کریں گے ان کا وبال بھی اس پر ہو گا اور یہ اس وقت ہے جب وہ کام اللہ تعاليٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے خلاف ہو۔ اور اِسی قسم یعنی بدعتِ حسنہ میں سے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ قول ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ ہے پس جب کوئی کام افعالِ خیر میں سے ہو اور مقام مدح میں داخل ہو تو اسے لغوی اعتبار سے تو بدعت کہاجائے گا مگر اس کی تحسین کی جائے گی کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس (باجماعت نماز تراویح کے) عمل کو ان کے لئے مسنون قرار نہیں دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند راتیں اس کو پڑھا پھر (باجماعت پڑھنا) ترک کردیا اور (بعد میں) اس پر محافظت نہ فرمائی اور نہ ہی لوگوں کو اس کے لئے جمع کیا بعد ازاں نہ ہی یہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور میں (باجماعت) پڑھی گئی پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو اس پر جمع کیا اور ان کو اس کی طرف متوجہ کیا پس اس وجہ سے اس کو بدعت کہا گیا درآں حالیکہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول ’’علیکم بسنّتی و سنۃ الخلفاء الراشدین من بعدی‘‘ اور اس قول’’اقتدوا باللذین من بعدی ابی بکر و عمر‘‘ کی وجہ سے حقیقت میں سنت ہے پس اس تاویل کی وجہ سے حدیث ’’کل محدثۃ بدعۃ‘‘ کو اصول شریعت کی مخالفت اور سنت کی عدم موافقت پر محمول کیا جائے گا۔‘‘

1.

1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250

2.

1. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علي الصدقه، رقم : 1017
2. نسائي، السنن، 5 : 55، 56، کتاب الزکاة، باب التحريض علي الصدقه، رقم : 2554
3. ابن ماجه، السنن، 1 : 74، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، رقم : 203
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357. 359

3.

1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة، رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126

4.

1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب عن الرسول صلي الله عليه وآله وسلم ، باب مناقب ابي بکر و عمر، 5 / 609، رقم : 3662
2. ابن ماجه، السنن، باب في فضل اصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 / 37، رقم : 97
3. حاکم، المستدرک، 3 / 79، رقم : 4451
4. بيهقي، السنن الکبريٰ، 5 / 212، رقم : 9836

ابن منظور افريقي، لسان العرب، 8 : 6

جاری ہے۔۔۔
Mohammad Adeel
About the Author: Mohammad Adeel Read More Articles by Mohammad Adeel: 97 Articles with 103330 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.