لاہور میں ہونے والے بم دھماکے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ
دہشت گرد گروپوں کے خلاف نمایاں کامیابیوں کے باوجود ابھی تک عسکری گروپ
اہم شہروں میں بم دھماکوں کی کاروائیاں کر نے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ فوج نے
خیبر ایجنسی کی وادی راجگال میں آپریشن کرتے ہوئے افغانستان کی سرحد سے
ملحقہ کئی اہم مقامات پر قبضہ کیا ہے اور یہ آپریشن جاری ہے۔فوج کے شعبہ
تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور کی طرف سے بتایا گیا کہ
اس آپریشن کا مقصد وادی راجگال میں داعش تنظیم کے خفیہ ٹھکانوں کا مکمل
خاتمہ کرنا ہے۔افغانستان سے ملحقہ علاقوں میں فوج کی کاروائیوں کے ساتھ ملک
میں بھی انٹیلی جنس اطلاعات پر دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف
بھی کاروائیاں جاری ہیں۔تاہم ابھی تک یہ بات واضح نہیں کی گئی ہے کہ
افغانستان سے ملحقہ پاکستان کے وہ کون کونسے علاقے ہیں جہاں دہشت گرد
گروپوں کے ٹھکانے قائم ہیں،جہاں انتظامیہ،فوج کا کنٹرول نہیں ہے۔
سپریم کورٹ نے پانامہ کیس میں ' جے آئی ٹی' کی رپورٹ ملنے کے بعدفیصلہ
محفوظ کیا ہے ۔تحریک انصاف،پیپلز پارٹی اورجماعت اسلامی کی طرف سے نواز
شریف حکومت کی مخالفت میں شدت لاتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم نواز
شریف مستعفی ہو جائیں۔ایم کیو ایم بھی ان تینوں جماعتوں کے ساتھ نظر آ رہی
ہے۔دوسری طرف مولانا فضل الرحمان،عبدالصمداچکزئی اور اے این پی مسلم لیگ
(ن) کی حمایت کر رہی ہیں۔اس تمام معاملے میں'' پس پردہ'' محرکات کی باتیں
بھی گردش کر رہی ہیں۔سینٹ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے تناظر
میںسیاسی جماعتوں کے درمیان مخالفت میں اضافہ تو عام بات ہے ،تاہم ملک میں
کئی سیاسی جماعتوں کی طرف سے ایک دوسرے پر بھارت کے حامی ،بھارتی ایجنٹ
ہونے کے الزامات لگاتے ہوئے سیاسی مخالفت کی انتہا کی جا رہی ہے اور اس طرز
عمل کو کسی طور بھی ملک و عوام کے مفاد میں قرار نہیں دیا جا سکتا۔یہ رجحان
خطرناک ہے کہ اب پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو ملک
دشمن،ہندوستانی ایجنٹ کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔ دوسری طرف مراعات کے لئے
سیاسی نمائندے اسمبلیوں میں ان کے ساتھ بیٹھتے ہیں جنہیں وہ ہندوستانی
ایجنٹ قرار دیتے ہیں۔کیا سیاسی جماعتیں 1970 کے الیکشن کے بعد ملک میں سب
سے زیادہ سیٹیں لے کر کامیاب ہونے والی سیاسی جماعت کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ
کرنے کی طرح کی سیاست اپنا رہی ہے؟گزشتہ چند سال کی صورتحال کا جائزہ لینے
سے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ پاکستان کو استحکام اور ترقی سے روکنے ا،کمزور
کرنے اور عالمی برادری میں ناقابل اعتبار ثابت کرنے کے لئے ملک میں عسکری
گروپوں کی تخریب کاری کے ساتھ ملکی سیاست میں بھی تخریب کاری کا عمل شروع
ہو چکا ہے۔دنیا کی تاریخ سے قطع نظر،پاکستان کی تاریخ بھی ہمیں یہی بتاتی
ہے کہ جب ملک سیاسی طور پر کمزور،ناقابل اعتبار اور انتشار کا شکار ہوتا ہے
تو اس ملک اور اس کے نظام کو بکھرنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔
دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیری مطالبہ آزادی کے ساتھ بھارتی فورسز
سے بر سر پیکار ہیں اور روزانہ مظاہروں اور جھڑپوں میں کشمیریوں کی ہلاکتوں
کا سلسلہ جاری ہے۔ایک تازہ واقعہ میں ضلع بڈگام کے بیروہ علاقے میں بھارتی
فوجیوں نے مظاہرین پر فائرنگ کرتے ہوئے دو کشمیری نوجوانوں کو شدید زخمی کر
دیا جن میں سے ایک چل بسا۔اس واقعہ پر مقبوضہ وادی میں بھارت مخالف مظاہروں
میں تیزی آ ئی ہے۔مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد کی ایک بنیادی حقیقت یہ
بھی ہے کہ کشمیریوں کی یہ جدوجہد حریت کانفرنس کی اپیلوں کی مرہون منت
نہیں،بلکہ یہ کشمیریوں پربھارت کے ڈھائے جانے والے انسانیت سوز،بھیانک
مظالم اور کشمیریوں کا عزم آزادی ہے جو انہیں جدوجہد اور قربانیوں کے راستے
پہ گامزن کئے ہوئے ہے۔دریں اثناء بھارت کی تحقیقاتی ایجنسی''این آئی اے ''
نے حوالہ رقومات کے لین دین کے الزامات میں حریت کانفرنس کے دونون گروپوں
کے سات سینئر عہدیداروں کو گرفتار کیا ہے۔ان میںحریت کانفرنس(گ)کے چیرمین
سید علی گیلانی کے دامادالطاف احمد شاہ عرف الطاف فنتوش،حریت ترجمان
ایازاکبر، ضلع صدر سرینگر معراج الدین کلوال، سید علی گیلانی کے پرسنل
سیکریٹری پیر سیف اللہ ، حریت کانفرنس(ع)کے میڈیا ایڈوائزر شاہد الاسلام
اور جموں کشمیر نیشنل فرنٹ کے چیرمین نعیم احمد خان اورجے کے ایل ایف(آر)
کے فاروق احمد ڈار عرف بٹہ کراٹے کو نئی دلی میں پہلے ہی گرفتار کیا گیا
ہے۔اس سے پہلے ایک بھارتی ٹیلی ویژن چینل نے ایک سٹنگ آپریشن میں نعیم خان
سمیت کئی مزاحتمی لیڈران کو مبینہ طور اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے دکھا
یاگیاکہ انہیں وادی میں گڑ بڑ پھیلانے اور عسکریت پسندوں کی اعانت کیلئے
سرحد پار سے رقومات فراہم کی جاتی ہیں۔سید علی شاہ گیلانی ،میرواعظ عمر
فاروق اور محمد یاسین ملک نے ان گرفتاریوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے
25جولائی کو مقبوضہ کشمیر میں بھرپور ہڑتال کی اپیل کی ہے۔مشترکہ بیان میں
کہا گیا کہعالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو حل کرنے اور کشمیر میںانسانی حقوق
کی پامالی بند کرنے کیلئے بھارت پر دبائو مسلسل بڑ رہا ہے جبکہ بھارت کشمیر
میں جاری تحریک مزاحمت کو پاکستان کی مدد سے دہشت گردی کے رنگ میں پیش کرنے
کی کوشش کر رہی ہے تاکہ بین الاقوامی دبائو و کم کیا جا سکے۔بیان میں مزید
کہا گیا کہ ''حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں کے خلاف فنڈنگ کاکوئی واضح ثبوت یا
شہادت موجود نہیں ہے بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ان کو گرفتار کیا
گیا ہے کیونکہ دوران پوچھ تاچھ ہی ان کو NIAکی طرف سے پہلے ہی گرفتار کئے
جانے کا عندیہ دیا گیاتھا''۔
مقبوضہ کشمیر میں چند عوامی حلقوں کی طرف سے اس بات پہ تشویش کا اظہار کیا
گیا ہے کہ بیروہ میں بھارتی فوج کے ہاتھوں ایک کشمیری نوجوان کی ہلاکت پر
حریت کانفرنس نے ہڑتال کی کال نہیں دی لیکن حریت کانفرنس سے وابستہ سات
افراد کی گرفتاری پر ہڑتال کا اعلان کیا گیا ہے۔تحریک آزادی سے وابستہ ان
عوامی حلقوں کی اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔اس سے اس بات کی
ضرورت ایک بار پھر شدت سے سامنے آتی ہے کہ حریت کانفرنس کو کشمیریوں کی
نمائندگی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے پر توجہ دی جائے۔حوالہ رقوم کے الزامات
میں بھارتی تحقیقات اور گرفتاریوں کے تمام معاملے میں یہ بات اہم اور توجہ
طلب ہے کہ نعیم خان( اور اگر کسی اور نے بھی ایسا کیا) کیوں انڈین ٹی وی کے
نمائندے سے اس طرح کی بات کرنے پر '' مجبور '' ہوئے؟ یا ان کا اس طرح کا
بیان غیر ذمہ دارانہ فعل ہے؟ کیا حریت کانفرنس نے اس طرح کے ایسے مہلک بیان
دیئے جانے کا کوئی نوٹس لیا؟سالہا سال سے یہی گزارش رہی کہ حریت میں
اصلاحاتی عمل ناگزیر ہے، لیکن اس ضرورت/مطالبے پر اظہار ناگواری اور نظر
اندازی ہی نمایاں رہی۔حریت رہنمائوں کے لئے اب کشمیریوں کی اس آواز کو نظر
انداز کرنا ممکن نہیں کہ کشمیری تو ہر طرح کی جدوجہد کرتے ہوئے قربانیاں دے
رہے ہیں لیکن ہماری رہنمائی غیر موثر چلی آ رہی ہے۔ |