پانامہ کیس ۔۔۔ جیت کِس کی ہوئی؟

4 اپریل 2016 ء کو جرمن اخبار زیتوشے زاؤتونگ نے پانامہ پیپرز کا خلاصہ شائع کرکے دنیا بھر میں ہل چل مچا دی۔ ICIJ (International Consortium of Investigative Journalists)کی185 صحافی جو کہ دنیا بھر میں65سے زائد ممالک میں کام کر رہے ہیں۔ نے ان تحقیقات پر ایک سال سے زائدعرصہ لگایا۔ ان دستاویزات میں آف شور کمپنیوں ان کے مالکان یا بینی فیشریز کے نام اور تفصیلات درج تھیں۔ان انکشافات پر ICIJ کو بہت سے گلوبل ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔انکشافات کے نتیجے میں دنیا بھرکے مختلف ریاستوں کے سربراہان کو اپنے عہدوں سے مستعفی ہونا پڑا۔اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سربراہِ مملکت کا اپنے عہدے سے دستبردار ہونا کُجا، ہاں البتہ ان انکشافات کو ایک بین الاقوامی سازش قرار دیتے ہو ئے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی بنانے کی سفارش کی۔اور میڈیا کے سامنے قوم سے یہ وعدہ کیا ۔کہ اگر جے آئی ٹی میرے اوپرایک رتی بھر کرپشن ثابت کرے۔تو میں ایک لمحہ انتظار کیے بغیر وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہو کر گھر چلا جاؤں گا۔ان انکشافات کے بعد پاکستان کی سیاست میں ایک شور سا بھرپا ہو گیا۔پاکستان تحریک انصاف نے عوام میں شریف خاندان کی کرپشن کیخلاف شعور اُجاگر کرنے کیلئے ملک کے کئی شہروں میں بڑے جلسوں کا انعقاد کیا۔سیاسی آگہی کے بعد ردِ عمل کے پہلے مرحلے میں پاکستان تحریکِ انصاف اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے نواز حکومت کیخلاف لنگوٹ کَس لیے۔عمران خان کی اسلام آباد بندش کی دھمکیوں کے بعد ملکی سیاسی حالات کافی کشیدہ ہوگئے۔کئی روز تک پنجاب اور خیبر پختونخواہ حکومتوں کی اآپس میں سرحدوں کی بندش بھی ہو گئی ۔سارے ملک میں دونوں پارٹیوں کے کارکنان آپس میں گھتم گھتا رہیں۔عمران خان اور تحریک انصاف کے دیگر قائدین کو بنی گالا تک محدود رکھا گیا۔پارٹی کارکنان کو پنجاب پولیس اور ایف سی کے ذریعے بیدردی سے گھسیٹا گیا۔عمران خان کا بنی گالا میں اپنی رہائشگاہ پر پارٹی کارکنوں کے ساتھ پُش آپس اور شیخ رشید کے دلچسپ سیاسی چٹکلے،مزاح سے بھرپور ایکشنز،نجی ٹی وی چینل کی DSNG پر بیٹھ کر سیگھار لگا کے مخالفین کو دھمکیاں دینااور موٹر سائیکل پر سفر نے پاکستانی سیاست میں ایک نئی رنگ بھر دی۔اس دوران باقی ساری پارٹیوں نے خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا۔اور تحریک انصاف کے ورکرز کی پکڑ دھکڑ پر گھر بیٹھے حکومتِ وقت کو بُرابھلا کہا۔

دوسرے مرحلے میں پانامہ کیس جب ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے پاس چلا گیا۔تو اس مقدمہ میں جماعتِ اسلامی نوازشریف کیخلاف تیسرے فریق کے طور پر سامنے آیا۔پاکستان پیپلز پارٹی نے سپریم کورٹ میں جانے کی بجائے اس کیس کو پارلیمنٹ کی سطح پر اُٹھانے میں عافیت سمجھی۔ساتھ ہی پی ٹی آئی کو مشورہ دیتے ہوئے کہا۔کہ جے آئی ٹی سے آزادانہ اور شفاف تحقیقات کی توقع نہیں رکھنا۔جبکہ عمران خان کو سیاست کا ایک ضدی بچہ قرار دیا۔پانامہ کیس جب سپریم کورٹ میں گیا۔تو طاہرالقادری نے سورۃ الفاتحہ پڑھ کر کہا۔ کہ اس کیس سے نواز شریف اور اس کے خاندان کو کلین چِٹ مل جائے گی۔تیسرے اور فیصلہ کُن مرحلے میں جب سپریم کورٹ میں عمران خان اور شیخ رشید احمد کی قانونی و سیاسی جیت اور نواز شریف کی نا اہلی کے سرخ بتیاں جلنے لگیں۔تو سارے خاموش پارٹیاں یکدم متحرک ہو گئی۔اور نااہلی کا کریڈٹ لینے کیلئے سپریم کورٹ کے باہر مختلف سیاسی پارٹیوں کے قائدین کی قطاریں لگ گئیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کے ذہن میں مستقبل میں مسلم لیگ نون سے انتخابی دنگل جیتنے کیلئے ایک آپشن تھا۔وہ یہ کہ کسی بھی طرح شریف خاندان کو ملکی سیاست سے بیدخل کر دیا جائے۔کیونکہ اگر یہی لوگ پارٹی کے سربراہ رہ جاتے ہیں۔اور ملک میں انتخابی نظام بھی ایساگھسا پٹا ہوجس میں طاقتور کا سِکہ چلے۔تو ایسی صورت میں اِن پارٹیوں سے سیٹ جیتنا، نظام اور ملک میں تبدیلی کا خواب شرمندہِ تعبیرہونامشکل ہوگا۔پہلے تو الف ، ب پارٹیاں ایک دوسرے کو دورانیہ پوری کرنے کیلئے راستہ مہیا کرتے۔آپس میں ایک دوسرے کی چوریوں، انتخابی دھوکہ دہی، ریکارڈز کی تحریف ، منی لانڈرِنگ ، بدعنوانیوں ، دوہری شہریت ، جعلسازی وغیرہ جیسے ہر کالے دھن کا علم تھا۔لیکن یہ صرف انتخابات کے ایام میں بیان بازی اور عوام کو گُمراہ کرنے کیلئے ایک دوسرے پر الزامات کھَستے تھے۔عملی طور پر تو میثاق معاہدہ ہوا تھا۔

پاکستان مسلم لیگ نون نے ان انکشافات اور مابعد پی ٹی آئی کے سخت ردِعمل کو سازش کا نام دیا۔کبھی سی پیک کے خلاف بین الاقوامی سازش اور کبھی ان کو اسٹیبلشمنٹ کی بیک ڈور کارستانی قرار دیا گیا۔پانامہ لیکس کے دستاویزات کو جھوٹ کا پلندہ کہہ دیا۔عمران خان کے پیچھے ایک منظم سازش کا واویلا مچایا گیا۔سپریم کورٹ کی بنائی ہوئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم پر جانبداری اور اس کی پیش کردہ رپورٹ پر مختلف قسم کے اعتراضات لگائے گئے۔تحقیقاتی ٹیم میں شامل اداروں کے باضمیر افسران کو بھی جانبداری اور تعصب کی کڑیوں میں پھیرویا گیا۔جب چھُپائی گئی ناجائزدولت سے حجاب اُڑ گئی۔تو معزز عدلیہ کے خلاف بھی بھڑاس نکالی۔

پانامہ کیس سے عدلیہ اوردیگر حکومتی اداروں کی ساکھ بحال ہوئی۔ایس ای سی پی کے چئیرمین ریکارڈزمیں ٹمپرِنگ کرتے پکڑے گئے۔دوسری طرف جے آئی ٹی میں شامل افسران نے حقیقی تفتیش کے ذریعے نہ صرف اپنے اداروں کی کھوئی ہوئی وقار بحال کی۔بلکہ آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دیا۔کہ ملک کا ہر افسر ضمیر کا سوداگر نہیں بلکہ ایماندار لوگ اب بھی موجود ہیں۔بادشاہِ وقت کے سامنے کلمہ حق کہنا انسان کی ایمانداری پر دلالت کرتی ہے۔

پانامہ کیس کے بعد ملکی سیاست میں تاریخی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔وزیراعظم،ان کے خاندان اورملکی خزانہ کے امین اسحاق ڈار تحقیقاتی ٹیم کے سامنے مجرموں کی طرح اپنی دولت کا حساب دینے کیلئے پیش ہوئے ۔جس سے ثابت ہوتا ہے۔کہ ملکی خزانہ لوٹنے والوں کا بھی احتساب ہوتا ہے۔سیاسی اور اخلاقی امیج کی بہتری کی جب بات ہوتی ہے۔تو اس کیس سے پی ٹی آئی کی سیاسی اور اخلاقی جیت ہوئی ہے۔اگر وزیراعظم کی نااہلی کا فیصلہ آتا ہے۔تو پی ٹی آئی قانونی طور پر بھی جیت جائے گی۔سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں ۔کہ اس فیصلہ سے مسلم لیگ نون کے تنظیمی ڈھانچہ کو شدید نقصان ہوگا۔پارٹی میں دھڑے بندی کے ساتھ شریف خاندان کے اندرپارٹی کی اگلے وارث کا مسئلہ سر اُٹھائے گا۔کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ مسلم لیگ نون جدید پیپلز پارٹی کے ہم پلہ ہو جائے گا۔جس کا خمیازہ پارٹی کو اگلے سال ہونے والے عام انتخابات میں بھگتنا پڑے گا ۔اس کیس سے حق، سچ اور ایمانداری کی جیت ہوئی۔کرپشن ، جھوٹ اور بے ایمانی کو شکست ہوئی۔
 

Hafiz Abdul Raheem
About the Author: Hafiz Abdul Raheem Read More Articles by Hafiz Abdul Raheem: 33 Articles with 23151 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.